Thursday, 24 December 2015

دُشمنی کے کچھ آداب ہیں دوستو..........................ASHRAF ASMI POETRY


دُشمنی کے کچھ آداب ہیں دوستو

ٹوٹے دل کے بھی کچھ خواب ہیں دوستو
آنسو بہانا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا
خُشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہیں دوستو
ایسے بھی ہیں جنہیں جینے کی ہوس ہے اب تلک
اور کچھ تو مرنے کے لیے بے تاب ہیں دوستو
جن کی صورت کے چرچے زبانِ زدوعام ہیں
اُن کے چہرئے پہ کئی حجاب ہیں دوستو
عاصمی تیری قسمت پہ رشک کرتی ہے خوشبو بھی
محبتیں جو میسر ہیں بے حساب دوستو
اشرف عاصمی

Sunday, 13 December 2015

ربیع الاول کے مہینے کے پیغام کی اہمیت.................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ














ربیع الاول کے مہینے کے پیغام کی اہمیت


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 
درخت جب بہت زیادہ پھلدار ہوجاتا ہے تو تب وہ جھک جاتا ہے۔عجز وانکساری کا اظہار کرتا ہے۔چھاؤں دیتا ہے۔ آندھی طوفان کے تھپیڑوں سے بچاتا ہے۔اور اپنے وجود کے حصے پھل کو کھانے کے لیے دے دیتا ہے۔ اِتنی عظمتیں ورفعتیں اِس کے حصے میں آتی ہیں کہ ایسادرخت قابل رشک بن جاتا ہے۔ کسی درخت کی زندگی جتنی بھی دہائیوں پر مشتمل ہوتی ہے اُتنی گزارنے کے بعد وہ اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ لیکن جن جن انسانوں اور حیوانوں نے اُس درخت سے کچھ استفادہ کیا ہوتا ہے وہ وہ انسان اور حیوان اُس درخت کے مشکور رہتے ہیں۔انسان بھی اگر اپنی ذات کو دوسروں کے لیے نافع بنائے رکھے اور اپنے جیسے انسانوں اور چرند پرند جو اِس جہاں میں پائے جاتے ہیں اُن کے ساتھ حسن سلوک کرئے ۔کسی بھی انسان کے لیے اِس سے بڑھ کر طمانیت کا احساس اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے خالق کی رضا کی خاطر اپنے خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر انتہائی محدود وقت کے لیے ملنے والی زندگی کی سانسوں کو اپنے مالک و خالق کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔اگر تو انسان وفاداری کا پیکر ہے تو اُس کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ وفا کرئے۔ اور اِس مقصد کے لیے خدائے بزرگ و برتر کے ازلی دشمن شیطان کی جانب سے ڈالے جانے والے وسوسوں کو یکسر ٹھکرا دئے اور اپنے مالک و برتر کی واحدانیت کی سربلندی کے لیے اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھے اور شیطان کے ہر وار کا مقابلہ اپنے رب کی عطا کردہ مشیت سے کرئے۔ اور وقتی طور پر نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے اپنے رب کی ابدی رحمت سے محروم نہ ہو۔ یقینی طور ایک انسان کے لیے ایسی راہ پہ چلنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ایمان کی مضبوطی سے خالق کی ا طاعت کے وسیلے سے خود کو روحانی سکون کا پیکر بناسکتا ے اور اپنی چند روزہ زندگی کو بھی اور اپنی ابدی زندگی کو بھی روحانی سکون کو گہوارا بنا سکتا ہے۔ساری زندگی انسان کی تگ و دو مادی معاملات کے حوالے جاری رہتی ہے۔ ایسا کرنا ضروری ہے وہ یوں کہ اپنی ذات کے لیے روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی اسباب بھی ضروری ہیں اور اپنی ذات کے ساتھ وابستہ لوگ جن میں والدین بچے عزیز واقارب، رشتے دار، اہل محلہ اہل وطن اور یوں پوری انسانیت شامل ہے کے لیے بھی مادی وسائل کی ضرورت ہے۔ معاشیات اور قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے جو سمجھ بن پڑی ہے وہ یہ کہ غیر معاشی سرگرمیاں بھی معاشی سرگرمیوں کو جنم دیتی ہیں۔یوں مسجد میں پانچ وقت حاضری کا نظریہ بھی کیمونٹی کے باہمی تعلق کا فروغ ہی تو ہے ۔مادی اسباب کی ضرورت اُس حد تک تو ہر انسان کے لیے ہے کہ وہ روح اور جسم کا تعلق برقرار رکھ سکے۔ لیکن جب قناعت کی بجائے ہوس ڈیرئے ڈال لیتی ہے۔اور معاشرئے کا توازن قائم نہیں رہ پاتا ۔یوں پھر ہیو اینڈ ہیو ناٹ کا معاشی مسلہء پیدا ہوتا ہے اور جس سے معاشرئے میں امن چین ختم ہوجاتا ہے ۔ اور یوں روح کے بل بوتے پر زندگی کی سانسیں لینے والا حضرتِ انسان خود اپنی اصل کو فراموش کر دیتا ہے۔جہنم کے آگ سے بھرنے والا پیٹ دنیاوی اسباب سے بھرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔اِن معاشی و غیر معاشی رخنوں کے سبب معاشی اُتار چڑھاؤ معاشرئے کو مختلف گروہ بندی کا شکار کرتا ہے اور پھر یہ معاشی تقسیم کبھی نسل، کبھی مذہب اور کبھی لسانیات کا روپ دھار کر حضرت انسان کے ہاتھوں اپنے ہی جیسے گوشت پوست اور روح کے مُرقع انسان کو قتل کرواتی ہے۔سیاسی نظریات بھی اِسی معاشرتی تقسیم اور معاشی دوڑ کا سبب بنتے ہیں۔رب پاک نے کائنات میں نظام زندگی کو عدل پر قائم رکھنے کے لیے بزرگ ترین ہستی وجہ تخلیق کائنات اشرف الاانبیاء حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا یوں معاشرئے میں ہر طرح کی اونچ نیچ کی تفریق،ظلم و زیادتی سے جنم لینے والے مسائل سب کا حل اللہ پاک نے اپنے نبی پاکﷺ عطا فرمایا ۔اور نبی پاک ﷺ نے اللہ پاک کے حکم سے جو کہا وہ کر دیکھایا۔نبی پاکﷺ کی ساری زندگی کا مرکز ومحور انسان کی بھلائی ہے۔ اور یوں اِس چند روزہ زندگی کا حاصل اگر ہے تو وہ اللہ پاک کے نبی پاکﷺ کی اطاعت ہے۔ اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب میں فرمادیا کہ نبی پاکﷺ تمھیں جس کام سے روکیں روک جاؤ اور جس کام کا حکم دیں وہ کرو۔اِس لیے اگر ہم میلادِ مصطفی ﷺ کی خوشیوں کا حقیقی ثمر چاہتے ہیں تو اُس کے لیے ہمیں نبی پاک ﷺ کی ہستی کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کا مرکز و محور بنانا ہوگا۔لوٹ مار، دھوکہ دہی، چوری، جھوٹ شراب زنا سود جتنی بھی معاشری بیماریاں ہیں اُن سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد ذریعہ نبی پاکﷺ کے پیغام پر عمل کرنے سے ہے ۔ اور یہ ہی پیغام ہر سال ہمیں ربیع الاولکی مبارک ساعتیں یاد کروانے کے لیے آتی ہیں۔صدقہ خیرات خوب اِس مبارک مہینے کے صدقے دینا چاہیے اور محافل، میلادِ مصطفی ﷺ کا انعقاد تو گویا ہماری بخشش کا ذریعہ ہے۔ اوراِن تمام عقیدتوں کا حاصل یہ ہی ہے کہ معاشرئے کو جھوٹ، چوری، سود، شراب زنا،لوٹ مار سے بچانا ہے۔ یہی تو ہے پیغام اِس مبارک ربیع الاول کا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ،عظیم صوفی بزرگ حضرت حکیم میاں محمد عنایت خان قادری نوشاہیؒ آستانہ زاویہ نوشاہی کے خلیفہِ مجاز ہیں۔ 

روح کاسکون .......................................................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی


















روح کاسکون


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی


درخت جب بہت زیادہ پھلدار ہوجاتا ہے تو تب وہ جھک جاتا ہے۔عجز وانکساری کا اظہار کرتا ہے۔چھاؤں دیتا ہے۔ آندھی طوفان کے تھپیڑوں سے بچاتا ہے۔اور اپنے وجود کے حصے پھل کو کھانے کے لیے دے دیتا ہے۔ اِتنی عظمتیں ورفعتیں اِس کے حصے میں آتی ہیں کہ ایسادرخت قابل رشک بن جاتا ہے۔ کسی درخت کی زندگی جتنی بھی دہائیوں پر مشتمل ہوتی ہے اُتنی گزارنے کے بعد وہ اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ لیکن جن جن انسانوں اور حیوانوں نے اُس درخت سے کچھ استفادہ کیا ہوتا ہے وہ وہ انسان اور حیوان اُس درخت کے مشکور رہتے ہیں۔انسان بھی اگر اپنی ذات کو دوسروں کے لیے نافع بنائے رکھے اور اپنے جیسے انسانوں اور چرند پرند جو اِس جہاں میں پائے جاتے ہیں اُن کے ساتھ حسن سلوک کرئے ۔کسی بھی انسان کے لیے اِس سے بڑھ کر طمانیت کا احساس اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے خالق کی رضا کی خاطر اپنے خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر انتہائی محدود وقت کے لیے ملنے والی زندگی کی سانسوں کو اپنے مالک و خالق کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔اگر تو انسان وفاداری کا پیکر ہے تو اُس کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ وفا کرئے۔ اور اِس مقصد کے لیے خدائے بزرگ و برتر کے ازلی دشمن شیطان کی جانب سے ڈالے جانے والے وسوسوں کو یکسر ٹھکرا دئے اور اپنے مالک و برتر کی واحدانیت کی سربلندی کے لیے اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھے اور شیطان کے ہر وار کا مقابلہ اپنے رب کی عطا کردہ مشیت سے کرئے۔ اور وقتی طور پر نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے اپنے رب کی ابدی رحمت سے محروم نہ ہو۔ یقینی طور ایک انسان کے لیے ایسی راہ پہ چلنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ایمان کی مضبوطی سے خالق کی 
ا طاعت کے وسیلے سے خود کو روحانی سکون کا پیکر بناسکتا ے اور اپنی چند روزہ زندگی کو بھی اور اپنی ابدی زندگی کو بھی روحانی سکون کو گہوارا بنا سکتا ہے۔

Saturday, 28 November 2015

فراق اور چاہت اشرف عاصمی..Fraq aur Cheaet.. by ashraf asmi







































فراق اور چاہت
اشرف عاصمی

چاہتوں کے سمندر کی آرزو میں سرگرداں رہنے کی سعی عاشق اور محبوب دونوں کے لیے امتحان ہے۔ عشق کا مطلب اپنی ذات کی نفی اور محبوب کی طلب ہے۔ جب اپنے آپ کو ہی سر بلند رکھنے کی حرص پیدا ہو جائے تو وہ پھر عشق نہیں بلکہ کاروبا ر بن جاتا ہے۔ اور عشق کی دکانداری ہونا شروع ہوجاتی ہے پھر نہ تو راہبر کی تکریم پیش نظر رہتی ہے اور نہ ہی اُس کی چاہت کی شدت کا سفر جاری رہتا ہے ۔ یوں عاشق ہونے کا دعویٰ ہو ا ہوجاتا ہے۔محبوب تک پہنچ تو دور کی بات عاشق توخود تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔محبوب کو بھی عاشق کے جذبات کی لوٰ کی حدت کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ امتحان اکیلے عاشق کا نہیں محبوب کا بھی ہوتا ہے۔ محبوب کا امتحان عاشق سے کئی گُنا زیادہ کڑھا ہوتا ہے۔ عاشق نے اپنے محبوب کو خود میں پناہ جو دینا ہوتی ہے۔فراق کی کیفیت جب پوری طرح انسان پر آشکار ہوجاتی ہے تو پھر جدائی کازخم خود آگاہی کے مرہم میں ڈھل جاتا ہے ۔یوں درد کا رشتہ منزلیں طے کرتا روح کی بالیدگی کا سبب بنتا اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ اِس سفر کی کوئی حد نہیں ۔حد تو اُسکی ہوتی ہو جس کا شمار کیا جاسکتا ہو۔ عشق کا شمار کرنا تو کُجا یہ سوچنا بھی کہ عشق کے معاملے کیا ہیں عشق و فاقہ مستی کے پُر پیچ راستوں کی تقدیس کے منافی عمل ہے۔ اِس لیے فرقت کی ساعتیں، خودی کی جلوتوں سے آراستہ ہوتے ہوئے اپنے آنے والے کل کو آج میں ڈھال لیتی ہیں۔








........چاہتوں کے سمندر کے باسی .....اشرف عاصمی کے زیر طبع ناول خواہشوں کا سمندر سے اقتباس



چاہتوں کے سمندر کے باسی

چاہتوں کے سمندر کی آرزو میں سرگرداں رہنے کی سعی عاشق اور محبوب دونوں کے لیے امتحان ہے۔ عشق کا مطلب اپنی ذات کی نفی اور محبوب کی طلب ہے۔ جب اپنے آپ کو ہی سر بلند رکھنے کی حرص پیدا ہو جائے تو وہ پھر عشق نہیں بلکہ کاروبا ر بن جاتا ہے۔ اور عشق کی دکانداری ہونا شروع ہوجاتی ہے پھر نہ تو راہبر کی تکریم پیش نظر رہتی ہے اور نہ ہی اُس کی چاہت کی شدت کا سفر جاری رہتا ہے ۔ یوں عاشق ہونے کا دعویٰ ہو ا ہوجاتا ہے۔محبوب تک پہنچ تو دور کی بات عاشق توخود تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔محبوب کو بھی عاشق کے جذبات کی لوٰ کی حدت کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ امتحان اکیلے عاشق کا نہیں محبوب کا بھی ہوتا ہے۔ محبوب کا امتحان عاشق سے کئی گُنا زیادہ کڑھا ہوتا ہے۔ عاشق نے اپنے محبوب کو خود میں پناہ جو دینا ہوتی ہے۔ 

اشرف عاصمی کے زیر طبع ناول خواہشوں کا سمندر سے اقتباس

Monday, 9 November 2015

صاحبزادہ اشرف عاصم. an article by ashraf asmi advocate مصطفائی رنگ


مصطفائی رنگ 

صاحبزادہ اشرف عاصمی

زندگی کے تھوڑئے سے عرصے کو چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی خاطر سوہانِ روح بنانے کی بجائے اِن لمحات کو حیوانوں کی بجائے اگر انسانی انداز میں ہی گزار لیا جائے توانسان کامیاب ہوسکتا ہے ۔کامیابی کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ کس طرح اپنا وقت صرف کیا گیا۔کائنات کروڑوں سالوں سے قائم ہے اور اِن کروڑوں سالوں میں سے سو پچاس سال کی زندگی انسان کو عطا ہوتی ہے ۔زندگی کو قائم ہوئے کروڑوں سال بیت گئے ہیں اور اِس زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ یہ عارضی ترین شے ہے اور اِس کا خاتمہ کسی لمحے بھی ہو سکتا ہے۔حسن کا پرستار بننا، دولت کے انبار اکھٹے کرنا، دہشت و ظلم پھیلانا لیکن نتیجہ یہ ہی ہے کہ دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو مال اسباب و جائیداد کو ساتھ لے کر اپنی اصلی منزل قبر میں گیا ہو۔ اربوں انسانوں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں نے اپنا مال ساتھ لے لیا ہے۔ انسانی زندگی کے ختم ہونے کے بعد ہمیشہ اُسی کی بات ہوتی ہے جس کے بود و باش اچھے رہے ہوں۔گویا انسان مر جاتا ہے لیکن اُس کا کردار زندہ رہ جاتا ہے اور جس نے مال و اسباب کی بجائے انسانوں سے محبت کی ہوتی ہے اُس نے خالق کی منشاء حاصل کر لی ہوتی ہے۔ جو اپنے خالق کی رضا حاصل کر لیتا ہے۔ اُس کی زندگی کو رائیگاں نہیں کہا جاتا بلکہ یہی صدا اُس کے لیے بلند ہوتی ہے کہ کہ وہ سراغ زندگی پا گیا اُس کا کردار حیات جاوداں کا جام پی لیتا ہے اور پھر اُس کی یاد اُس کے افعال امر ہو جاتے ہیں جیسے سید داتا علی ہجویریؒ ایک ہزار سال پہلے لاہور میں دفن ہوئے لیکن اللہ پاک کی رحمتوں کا نزول اُن کی قبر اطہر پہ جاری و ساری ہے اور اُن کا فیض جاری ہے۔ سید علی ہجویریؒ اللہ کے پاکباز بندئے تھے وفات پاء گئے لیکن اُن کے نام کا ڈنکا ایسے بج رہا ہے جیسے وہ زندہ ہیں۔بندہِ مومن جب خالق کی عطا حاصل کرلیتا ہے اور اپنے فرائض ادا کرتا ہے تو اِس کے لیے سب سے بڑا انعام خالق کے لیے یہ ہی ہوتا ہے کہ خالق اُس کے نام کو بلند کر دیتا ہے۔مصطفے کریمﷺ کی اطاعت کی زندگی مصطفائی رنگ جوچڑھا دیتی ہے بندئے پر۔وہ پھر داتا علی ہجویریؒ ،خواجہ غریب نوازؒ بن جاتا ہے۔روحانیت صرف اُس روح پر آشکار ہوتی ہے جو پاکیزہ ہو،حرص سے دور ہو، جسے دنیاوی جاہ و حشمت کی طلب نہ ہو۔ جو انانیت کے بت کی قید میں نہ ہو۔وہی پھر خواجہ غریب نواز ہوجاتا ہے۔زمانے کی ٹھوکریں انسان کو کندن بنادیتی ہیں اور انسان زندہ ہو یا مرجائے اُس کی قسمت کا ستارہ اُسے نایاب بنائے ہوئے ہوتا ہے۔جس طرح حضرت غالب نے کہا تھا کہ کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں۔ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں۔اِس لیے یہ کسوٹی قرار پاتی ہے کہ جو اچھا ہو گا دنیا اُسے برا قرار دیتی ہے اور یوں پھر اچھوں کو زہر کا پیالہ پینا پڑ جاتا ہے۔غربت،امارت دونوں حالتیں انسان کے لیے امتحان گاہ ہیں۔ غربت میں رب کا شکر بجا لانا اور اپنی قسمت پر شاکر رہنا اور امارت میں رب کا احسان مند رہنا اور ظالم نہ بننا۔فی زمانہ تعصب کی انتہاء کی وجہ انسانیت کا ناپید ہوجاتا اِس بات کی دلالت ہے کہ ہوس نے چاروں جانب ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

Tuesday, 20 October 2015

خواہشوں کا سمندر اشرف عاصمی کے قلم سے A NOVEL WRITTEN BY ASHRAF ASMI


خواہشوں کا سمندر

اشرف عاصمی کے قلم سے سلسلہ وار کہانی


آج اُسے کالج سے پھر دیر ہوگئی تھی۔ ماں دوازئے کے ساتھ لگی اپنی لاڈو کنول کا انتظار کر رہی تھی۔ماں کی ٹانگیں کھڑئے کھڑئے تھک چُکی تھیں لیکن وہ جذبہ جسے ممتا کہا جاتا ہے وہ نہیں تھکا تھا۔نہ ہی وہ تھک سکتا تھا۔ کیونکہ اُس جذبے کی بدولت ہی تو کائنات میں خلوص ، محبت ایثار قائم تھا۔ کنول جب گلی کے موڑ سے اندر گلی میں داخل ہوئی تو ماں کی جان میں جان آئی اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کنول کی صورت نظر آئی کنول جیسے ہی گھر کے دروازئے پر پہنچی ماں کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی۔ کنول ماں سے لپٹ گئی کہنے لگی امی آپ پریشان نہ ہواکریں آج میری کالج بس راستے میں خراب ہوگئی تھی اِس لیے دو گھنٹے ضائع ہوگئے۔ماں کی مُنہ سے کوئی لفظ نہ نکلا وہ تو اپنی کنول کو دیکھ کر آنسووں کی برسات بہائے جارہی تھی۔امی سخت بھوک لگی ہے مجھے کھانادئے دیں کنول یہ کہہ کر برآمدئے میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی اور ماں باروچی خانے میں سالن گرم کرنے اور تازہ روٹی پکانے میں مشغول ہوگئی۔ کنول باروچی خانے میں ہی ماں کے پاس آگئی اور روٹی کھانے لگ گئی اب ماں گویا ہوئی کنول اتنی دیر لگائی تم نے میرا تو دل پھٹا جارہا تھا۔کالج والوں کو چاہیے کہ وہ بس کوٹھیک رکھا کریں۔کنول ماں کی گردن میں بانہیں ڈال کر لاڈ کرنے لگی۔کنول بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی وہ لاہور شہر کے نواح میں ایک بستی میں رہتے تھے۔ باپ اُسکا عروسی ملبوسات پر کشیدہ کاری کرتا تھا اور ماں گھر میں ہی کپڑئے سیتی تھی۔ پانچوں بھائی بھی شہر کی مختلف مارکیٹوں میں ریڈی میڈ گارمنٹس کے کاروبار سے منسلک تھے۔ کنول کا کوئی بھائی بھی پڑھا لکھا تو نہ تھا لیکن کنول کو بہت شوق تھا کہ وہ پڑھے اور اتنا پڑھے کہ وہ وکیل بن جائے۔کنول کے ایک بھائی کی شادی ہوئی تھی اور اور اُسکی دو بیٹیاں تھیں جو کہ نرسری اور تھری کلاس میں تھیں باقی چار بھائی ابھی غیر شادی شدہ تھے۔کنول پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن تو تھی ہی اِس کے ساتھ ساتھ اپنی ماں اور باپ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ کنول کی ماں جب بھی اکیلے میں کنول کے متعلق سوچتی کہ جب کنول کی شادی ہوجائے گئی تو وہ لوگ اِس کے بغیر کیسے رہ پائیں گے۔کنول کا باپ بھی اپنی بیٹی پرواری جاتا تھا۔ اُسے اپنی بیٹی کے ساتھ اتنی محبت تھی کہ وہ شام کو گھر داخل ہوتے ہی کنول کو آوازیں دینے لگ جاتا اور کنول فورا اپنے ابا کے پاس بھاگ کر آتی اور باپ کے ہاتھ میں جو سامان ہوتا اُسے پکڑلیتی۔ کنول کاباپ اپنی 

شھزادی بیٹی کو دعائیں دیتا نہیں تھکتا تھا۔
کنول کی زندگی میں دکھ درد نام کی کوئی شے نہ تھی۔پریشنیوں اُس سے کوسوں دور تھیں اُس کی زندگی میں محبتوں نے اِس طرحمسکن بنا رکھا تھا جیسے اُس کی زندگی بہار کی مانند ہو۔ پانچ بہنوں کی اکلوتی بیٹی کنول کی نازبرداریاں کرنے والوں نے اُس کو گلاب کے پھول کی طرح رکھا ہو ا تھا۔ ماں باپ کی لاڈلی بھائیوں کی چہیتی کنول زندگی کی باریکیوں کو سمجھتی تھی۔ اُردو ادب کے لیکچر کے دوران ایک دن پروفیسر نے کنول سے سوال کیا کہ کنول فراق کیا ہوتا ہے کنول پنی نشست پر کھڑی ہوئی اورکہنے لگی میڈیم خود کو پالینا ہی فراق ہے۔ اُردو کی پروفیسر کنول کی جواب سُن کر حیرت زدہ ہوگئی کہنے لگی بیٹا اتنی آسانی سے اتنی بڑی بات آپ نے کہہ دی۔ کنول صرف مسکرا رہ رہ گئی۔کنول نازوں سے ضرور پرورش پارہی تھی لیکن اُس کی زندگی میں ادب احترام تھا۔ اُسے اُردو ادب سے خاص طور پر دلچسپی تھی۔ اِسی لیے تو اُس نے اردو ادب کا مضمون خاص طور پر رکھا تھا۔کنول نے غالب ، میر تقی میر، اقبال ، فیض اور فراز کو پڑھ رکھا 
تھا۔



عظیم لاہور شہر کے وسطی علاقے سمن آباد میں رہائش پذیر نوجوان جس کا باپ شہر کی معروف مارکیٹ میں جوتوں کی ایک پرائیوٹ دکان پر برسوں سے سیلزمین کی نوکری کر رہا تھا۔عظیم کے والد نے ساری زندگی ایک ہی دکان پر ملازمت کرتے گزار دی۔عظیم کل تین بھائی تھے۔رشید اُسکا بڑابھائی تھا اور نعیم عظیم سے چھوٹا تھا۔عظیم اِس وقت سال چہارم میں اسلامیہ کالج سول لائن کا طالب علم تھا۔عظیم کا مزاج اپنے سارئے گھر والوں سے مختلف تھا۔ اُسے اپنے خاندان کی غربت اور مجبوریوں کا احساس تھا۔ایف ایس سی کے بعد جب اُس کا داخلہ میڈیکل کالج میں چند نمبروں سے رہ گیا تو اُس نے پھر گریجوایشن میں فلسفہ اور معاشیات کے مضامین کا انتخاب کر لیا۔ عظیم کا بڑا بھائی رشید میٹرک کرنے سے پہلے ہی اُستاد کی مار کے ڈر سے سکول چھوڑ گیا تھا اور اب وہ ایک موبائل فون شاپ پہ موبائل فون کی مرمت کا کام سیکھ رہا تھا۔ نعیم اِس وقت کلاس ہفتم کا طالب علم تھا اور عظیم کی جانب سے توجہ ملنے کے سبب پڑھائی میں بہت بہتر تھا۔عظیم کی ماں نے ساری زندگی صبر شُکر کے ساتھ گزارا کیا تھا۔وہ ایک وفا شعار بیوی تھی جس نے کبھی زبان پر حرف شکایت لانا تو کیا اُف تک نہ کی تھی۔عظیم کاباپ ایک روایتی لاہوری باسی تھا جسے اپنے شہرسے پیار تھا اور جو اپنے خاندان کی شرافت کو اپنے لیے اثاثہ سمجھے ہوئے تھا۔عظیم نے میٹرک کے بعد ٹیوشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات پورئے کیے۔ میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ہونے کا اُسے بڑا قلق تھا لیکن اُس نے ہمت نہ ہاری اور خاموشی سے مضامین تبدیل کرکے گریجوایشن میں داخلہ لے لیا۔عظیم کو گھر کا سُونا پن جس کی وجہ غربت تھی بہت تکلیف دیتا۔ عظیم اپنے دوستوں کو کبھی بھی گھر نہ بلاپاتا کہ اُس کے پاس اُن کو بٹھانے کے لیے بہتر جگہ نہ تھی۔عظیم بہت دکھی ہوتا جب عید تہوار پر لوگ بے حد خریداری کرتے لیکن اُن کے گھر میں وہی پرانے کپڑئے ماں نیل لگا کر استری کر دیتی۔ عظیم کی ماں نے عظیم کے باپ کو بہتیرا سمجھایا تھا کہ یہ نوکری چھوڑ کر کوئی اور کام کر لو۔ لیکن عظیم کا باپ نہ مانا۔ یوں زندگی کی گاڑی چل رہی تھی۔ایک بات بڑی طمانیت کا باعث تھی کہ عظیم کے گھر میں کبھی جھگڑا گالی گلوچ نہ ہوتی تھی۔ اُس کا بھائی رشید پڑھ تو نہ سکا تھا لیکن وہ بھی 
اپنے والدین کا فرماں بردار تھا۔

میاں جی ؒ
  کا ڈیرہ شہر کے پاس ہی ایک نواحی بستی میں ہے۔ میاں جیؒ عہد اسلاف کی وہ نشانی تھے جن کی زندگی عشق رسولﷺ، پاکستان سے محبت اور انسانوں سے پیار سے عبارت ہے۔ میاں جی ؒ کا اصلی نام شائد کسی کو بھی معلوم نہ ہو چھوٹا بڑاسب لوگ اُنھیں میاں جی کہتے ۔میاں جی ؒ کے متعلق یہ ہی بات مشہور تھی کے انھوں میاں جی ؒ کا ڈیرہ شہر کے پاس ہی ایک نواحی بستی میں ہے۔ میاں جیؒ عہد اسلاف کی وہ نشانی تھے جن کی زندگی عشق رسولﷺ، پاکستان سے محبت اور انسانوں سے پیار سے عبارت ہے۔ میاں جی ؒ کا اصلی نام شائد کسی کو بھی معلوم نہ ہو چھوٹا بڑاسب لوگ اُنھیں میاں جی کہتے ۔میاں جی ؒ کے متعلق یہ ہی بات مشہور تھی کے انھوں نے مشہور حکیم قرشی دواخانے والوں کی شاگردی کی تھی اور حکمت وہیں سے سیکھی تھی۔ میاں جی بہت اعلیٰ پائے کے نبض شناس تھے۔میاں جیؒ کی حکمت کے ساتھ اور جو خصوصیت تھی وہ اُن کا روحانی فیض تھا۔اِسی گھر میں کئی دہائیوں سے مقیم تھے ۔ دن بھر لوگ آتے کوئی دوا لیتا اور کوئی دُعا کا طلب گار ہوتا۔میاں جی روایتی پیری مریدی کے قائل نہ تھے لیکن اُن کے حلقے میں شامل افراد انتہائی پڑھے لکھے تھے۔علماء۔نوجوان، پروفیسرز ڈاکٹرز، پی ایچ ڈی کے حامل ریسرچ سکالرز،پائلٹ، فوج کے اعلیٰ افسران۔گویا دکانداری والی پیری مریدی سے کوسوں دور میاں جی نے ایک ایسا نگر آباد کر رکھا تھا جہاں ہر دکھی کو جسمانی اور روحانی ہر بیماری سے شفا ملتی۔ میاں جی نہایت نفیس انسان۔ پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا۔ اور اپنا سارا خاندان قربان کرکے ہجرت کی۔مال و متاع سے بالکل رغبت نہ تھی۔ جو بھی اسباب ہوتے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔ عام دیکھنے والا یہ ہی تصور کرتا کہ شائد وہ کافی مال دار ہیں کہ ہر وقت لنگر کا اہتمام۔جو بھی اُن کے ہاں آتا اُسے فوری طور پر کھانا پیش کیا جاتا۔میاں جیؒ سادہ لباس پہنتے۔ سفید قمیض اور سفید رنگ کا ہی تہمد اور نوشہ گنج بخشؒ سے نسبت کا حامل پیلے سے رنگ کا کپڑا، جسے وہ صافا کہتے اُن کے کندھے پر ہوتا اور سفید رنگ کی کپڑئے کی بنی ہوئی ٹوپی اُن کے سر پہ ہوتی۔میاں جی ؒ کی نفاست ہر کام میں اتنی کے دیکھنے والوں کو رشک آتا۔ نہایت صاف سادہ کپڑئے پہنتے او ر بناوٹ دیکھاوئے سے ہمیشہ دور رہتے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جو بھی اُن سے ایک دفعہ ملنے آجاتا تو پھر ہمیشہ کے لیے اُن کی محفل کا شریک بنا رہتا۔ تاریخ عالم پر گہری نظر، اسلام کی حقانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا میاں جی کے دل و روح کے اندر۔کتابوں کا ایک لازوال ذخیرہ کہ جہاں سے بڑئے بڑئے سکالر آکر استفادہ کرتے۔اللہ پاک کے دوست میاں جیؒ ہر ملاقاتی سے ایسے ملتے جیسے کہ 
وہ اُن سے سب زیادہ قریب ہو۔ 

چاہتوں کے سمندر کی آرزو میں سرگرداں رہنے کی سعی عاشق اور محبوب دونوں کے لیے امتحان ہے۔ عشق کا مطلب اپنی ذات کی نفی اور محبوب کی طلب ہے۔ جب اپنے آپ کو ہی سر بلند رکھنے کی حرص پیدا ہو جائے تو وہ پھر عشق نہیں بلکہ کاروبا ر بن جاتا ہے۔ اور عشق کی دکانداری ہونا شروع ہوجاتی ہے پھر نہ تو راہبر کی تکریم پیش نظر رہتی ہے اور نہ ہی اُس کی چاہت کی شدت کا سفر جاری رہتا ہے ۔ یوں عاشق ہونے کا دعویٰ ہو ا ہوجاتا ہے۔محبوب تک پہنچ تو دور کی بات عاشق توخود تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔محبوب کو بھی عاشق کے جذبات کی لوٰ کی حدت کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ امتحان اکیلے عاشق کا نہیں محبوب کا بھی ہوتا ہے۔ محبوب کا امتحان عاشق سے کئی گُنا زیادہ کڑھا ہوتا ہے۔ عاشق نے اپنے محبوب کو خود میں پناہ جو دینا ہوتی ہے۔




Sunday, 27 September 2015

اسلام کی تجدید میاں محمداشرف عاصمیSHEADET IMAM HUSSAIN R.A. , AN ARTICLE BY ASHRAF ASMI


شہیدِ کربلاامام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت دینِ اسلام کی تجدید

میاں محمداشرف عاصمی

تاریخ انسانی بھی عجب اسلوب و انداز کی حامل ہے۔جس وقت کوئی اندوہناک واقعہ درپیش ہوتا ہے اُس وقت یہ سمجھا جاتا ہے کہ شکست ہوئی ہے ۔ظلم ہوا ہے۔ طاقت کی فتح ہوئی ہے اور مظلوم کو شکست ہوئی ہے ۔یوں شکست کھانے والے کا نشان وقتی طور پر مٹ جاتا ہے اور شکست دینے والا غالب آجانے کی وجہ سے اپنے وجود کو بچا لیتا ہے۔ لیکن تھوڑئے ہی عرصے کے بعد جب اُس واقعہ کے محرکات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اُس کے نتائج و عواقب کو خالقِ کائنات کی طے کردہ کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے تو پھر شکست دینے والا تاریخ کے ہاتھوں شکست کھا جاتا ہے۔اُسے لعن طن کی جاتی ہے ظاہری فتح کے باوجود وہ عبرتناک شکست کا شکار ہو جاتا ہے کہ پھر اُسے تاریخ کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔یہی کیفیت اور اہمیت امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے تاریخ کے انوکھے باب کی ہے۔ لاکھوں پیغمبروں رسولوں کے بعد اور نبی پاکﷺ سے دین کو مکمل کروانے کے بعد فوری طور پر دین کی تجدید کی ضرورت کیوں پڑی۔ اِس کا جواب بھی تاریخ ہی دیتی ہے کہ خالق نے جس دین کو نبی پاک ﷺ پر مکمل کیا اُس کی تجدید کی ذمہ داری بھی آپﷺ کے گھرانے کی قسمت میں لکھ دی گئی گو کہ آپ کے نواسے امام حسینؓ کو اِس را ہ میں دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ شہادت کے مقام پر سرفراز ہونا پڑا لیکن نبی پاکﷺ کے گھرانے نے قربانی سے دریغ نہیں کیا اور موت کو اِس طرح گلے لگایا کہ چند ماہ کے علی اصغرؓ نے بھی نبی پاکﷺ کے دین کی آبیاری کے لیے اپنے خون کو پیش کیا۔ اِس طرح کی قربانی کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے اطاعت رسولﷺ،عشق رسولﷺ کے سبق کو سمجھنا ہوگا۔حضرت امام حسینؓ کی شہادت بھی درحقیقت اُنھی قربانیوں کا تسلسل ہے جس کا آغاز اللہ پاک کی وحدانیت کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔اگر ہم عشق رسولﷺ کے فلسفے کی اہمیت کو جان جاتے ہیں تو پھر کربلا کے میدان میں سجنے والی انوکھی مقتل گاہ کا فلسفہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے۔ دو شہزادوں کی جنگ کا بہتان لگانے والوں کی عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے کہ جنگیں لڑنے کے لیے چند ماہ کے بچوں اور گھر کی خواتیں کو ساتھ لے کر نہیں جایا جاتا۔اور گھرانہ بھی وہ جن کے بابا نبی پاکﷺ ہیں۔نبی پاکﷺ کے گھرانے کے بچوں اور عورتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کربلا کی دھرتی پر ہوا وہ دھرتی خود شائد کھبی معاف نہ کر پائے گئی لیکن دوسری جانب اِسی دھرتی پر بپا ہونے والا ظلم سچائی کے لیے مینارہ نور بن گیا ۔یقیناًکربلا کی دھرتی کے لیے یہ امر کسی اعزاز سے کم نہیں۔اللہ پاک، نبی پاکﷺ اور قران مجید کے پیغام کو ہمیشہ کے لیے دوام بخشنے کے لیے نبی پاکﷺ کے گھرانے کو عظیم قربانی دینا پڑی۔آئیے سرکار نبی پاکﷺ کے حوالے سے ذکر خیر ہو جائے۔انسانی تاریخ میں کسی بھی الہامی کتاب کو وہ پذیرائی اور مرکزیت حاصل نہیں ہے جو کہ قران پاک کو ہے۔قران پاک تقریباً چوبیس سالوں میں نبی پاکﷺ پر نازل ہوا۔قران پاک اللہ پاک کا کلام ہے جو اللہ پاک نے مختلف ادوار میں مختلف حالات کے مطابق نازل کیا ۔قرانِ مجید کو نبی پاکﷺ تک پہنچانے کا کام اللہ پاک کے جلیل القدر فرشتے حضرت جبریلؑ نے انجام دیا۔گویا قران اللہ پاک کی جانب سے بندئے کے لیے ایک ایسا ہدایت نامہ ہے کہ اِس کی نظیر نہیں ملتی۔اسلامی تمدن کے تمام تر محرکات اور اسلوب اِس انداز میں قران پاک میں بیان فرما دئیے گئے ہیں کہ اِس کتاب کو اللہ پاک نے ایسی کتاب قرار دیا ہے کہ جو کہ لاریب ہے۔ہم مسلمان ،یورپ امریکہ کے لوگوں کے کارنامے اور وہاں کا نظامِ حکومت دیکھ کر کمتری محسوس کرتے ہیں کہ شائد وہ ہم سے زیادہ علم کے حامل ہیں۔ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ تمام تر معاملات کا تعلق عمل سے ہے۔ گفتار کے غازی اور کردار کے غازی دو مختلف انداز ہیں۔ فی زمانہ جو صورتحال واضع ہے وہ یہ کہ مسلمان گفتار پر زور دئے رہے ہیں۔ اور کردار یعنی عمل والا پہلو اُن لوگوں نے ا پنا رکھا ہے جن کو ہم کافر کہتے ہیں۔ اِس جگہ میں ایک نہایت ہی اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ قران اللہ کا کلام ہے اور اِس کتابِ برحق کو انسان کی ہدایت کے لیے اللہ پاک نے نازل فرمایا۔ نبی پاکﷺ نے فرمادیا کہ یہ قران ہے اُس کو قران کا درجہ دئے دیا گیا۔ اور جس بات کو نبی پاکﷺ نے کہا کہ یہ حدیث ہے ہم نے اُس کو حدیث کا درجہ دئے دیا۔ اِس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ صاحب کتاب نبی پاکﷺ کی ذات کی اہمیت اور تقدس کتنا ہے۔ یعنی نبی پاکﷺ کے کہنے سے کتاب برحق کو کتاب ہونے کا درجہ ملا۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نام کے مسلمان وہ صاحب قران نبی پاکﷺ کی تقدیس کی بجائے قران کی بات کرتے ہیں۔یہاں یہ کہنا ازحد ضروری ہے کہ جو نبی ﷺکی بات ہے وہ اللہ کی بات ہے اور جو اللہ کی بات ہے وہی قران ہے گویا ہم اللہ اور نبی ﷺ کو الگ الگ نہیں کر سکتے۔انسانی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ اللہ کے پیغام کو پُر اثر انداز دینے کی سعادت نبی پاکﷺ کو اللہ پاک نے بخشی اور یوں راہ ہدایت قران کو نبی پاک ﷺ کے توسط سے نازل کیا گیا۔ کیونکہ اگر ہم خالق کی توقیر کی بات کرتے ہیں اور اگر ہم کتاب ہدایت قران کی بات کرتے ہیں تو پھر صاحب قران نبی پاکﷺ کی ذات اِس ہدایت والے عمل میں مرکز ومحور ہے کیونکہ الہامی کتابیں اور صحیفے تو پہلے بھی نازل ہوتے رہے۔رب پاک کو ایک ماننے کا سبق تو سوا لاکھ پیغمبروں نے دیا لیکن نبی پاکﷺ پر آکر نبوت کا سلسلہ ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک پوری کائنات کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہدایت کا سلسلہ نبی پاکﷺ پر آکر مکمل ہوچکا ہے اور یوں سوا لاکھ نبیوں کے تبلیغی مشن کے باوجود،توریت زبور انجیل کے ہوتے ہوئے بھی اللہ پاک نے دین کو مکمل کرنے کے لیے جس ہستی کا چناؤ کر رکھا تھا وہ نبی آخر و اعظمﷺ ہیں۔ جن کی تعلیمات کو زوال نہیں۔جن کا وجود سارئے جہانوں کے لیے رحمت اور جو کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار پائے۔ حتیٰ کہ جس توحید کو تمام ادیا ن کسی نہ کسی طرح مانتے ہیں اُس توحید کی خالص روح سے آگاہی بھی نبی پاکﷺ کے توسط سے ہوئی۔۔ جو نبی ﷺ اُمت کے لیے شفاعت کر نے والی ہستی ہے۔ایسی برگزیدہ ہستی کہ جس کے متعلق اللہ پاک فرماتا ہے کہ ائے میرئے پیارئے حبیبﷺ اگر میں آپﷺ کو پیدا نہ کرتا تو زمین وآسمان پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے رب ہونے کا بھی اظہار نہ کرتا۔اِس حدیث قدسی کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کے قران اور صاحب قران نبی پاکﷺ کا کیا مقام ہے۔نبی پاکﷺ کی اولاد پاک اور پیارئے نواسے جناب حضرت امام حسینؓ کی شہادت در حقیت ظلم و بربریت کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے کہ مورخ اِسکا کبھی بھی ثانی ڈھونڈ نہیں پائے گا۔ چونکہ وجہ تخلیقِ کائنات جناب نبی پاکﷺ کے پیارئے نواسے کی حق کی خاطر عظیم شان قربانی ہمیشہ کے لیے سچ کے پیروکاروں کے لیے مشعل راہ بن چکی ہے۔ قیامت تک قدرت اِس عظیم قربانی پر ناز کرتی رہے گی ۔ حشر کے میدان میں بھی اِسی قربانی کا چرچا ہوگا کہ جس نے بھی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا ہوگا وہ شہادت امام عالی مقام کو ہی کسوٹی قرار دئے گا۔

Thursday, 24 September 2015

بنیادِ دوستی۔عشق نبی ﷺ صاحبزادہ اشرف عاصمی, A GIFT ON EID BY ASHRAF ASMI ADVO. ASHRAF ASMI WROTE THIS ARTICLE ON EID MONRNING


بنیادِ دوستی۔عشق نبی ﷺ

صاحبزادہ اشرف عاصمی


زندگی کی نصف سنچری مکمل ہونے کو ہے۔ بے شمار لوگوں سے فیض کے لیے حاضری دینے کی خاطر استفادہ کیا۔تدریسی عمل بھی گزشتہ تین دہاؤئیوں سے سے جاری ہے۔ دینی وسماجی حوالے سے عشقِ مصطفے ﷺ کی سرُخیل تنظیم انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ وابستگی پر فخر ہے۔وکالت کا شعبہ ہی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔زندگی کی سب سے بڑی حقیقت جس طرح موت ہے اِسی طرح ایمان کی صداقت کا سب سے بڑا معیار نبی پاکﷺ کی عزت و توقیر اور آپ ﷺ سے عشق ہے۔اقبال اور، حضرت امام احمد رضا خانؒ نے نبی پاکﷺ کی محبت کے حوالے سے جو پیغام 
جنوبی ایشیا ء کے مسلمانوں کو دیا او پھر اِسی پیغام نے عالمگیریت حاصل کی ۔دنیا کے تمام خطوں میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان کلمہ توحید کے ساتھ جو وابستگی ہے اُس وابستگی کو قائم رکھنے کا جو معیار ہے وہ صرف اور صرف عشق رسولﷺ ہے۔چند سال پیشتر میرئے ایک بچپن کے دوست مجھ سے ناراض ہوگئے تو پھر جب اُن سے بات ہوئی تو اُنھوں نے جو بات کہی اُس نے قلب میں آگ لگا دی اُنھوں نے فرمایا کہ میرا اور آپ کا جو تعلق ہے اُسکی وجہ نبی ﷺ کی محبت کامشن ہے جس کے لیے ہم نے اب تک تگ و تاز کی ہے۔ اللہ پاک میرئے اُس محترم دوست کو شاد رکھے کہ کس طرح اُنھوں نے اپنی عقیدت کا اظہار نبی پاک ﷺ کی ہستی کے متعلق کیا۔راقم کی زندگی کا عہد طفولیت سے لے کر جوانی تک کا دور یعنی تقریبا پچیس سال اپنے ماموں جان قبلہ حکیم محمد عنائت خان نوشاہیؒ کے ہاں گزرئے وہاں سے جو ملا وہ یہ ہی تھا کہ بس پاکستان سے محبت۔نبی پاکﷺ سے محبت۔ اور پھر کیا رہ جاتا ہے ۔ جب نبی پاکﷺ کی محبت حاصل ہوجائے تو دنیا بھر کی چاہتیں اُس کے سامنے کیا اہمیت رکھتی ہیں۔اِسی طرح راقم نے اپنی زندگی میں ڈاکٹر ظفر اقبال نوری جو کہ سابق مرکزی صدر انجمن طلبہ ء اسلام ہیں۔جب وہ راولپنڈی میدیکل کالج کے طالب علم تھے اُس وقت سے اُن کے ساتھ تعلق کی وجہ عشق مصطفے کریمﷺ ہے۔ اِسی طرح برادر غلام مرتضیٰ سعیدی سابق مرکزی صدر انجمن طلبہ ء اسلام و مصطفائی تحریک جب گورنمنٹ کالج سرگودہا میں گریجویشن کے طالب علم تھے اُن سے عقیدت محبت خلوص اور دوستی کے تعلق کی وجہ اُس کی بنیاد بھی عشق رسولﷺ ہے۔میرئے بچپن کے دوست اور کلاس ہفتم میں میرئے کلاس فیلو جناب ملک جاوید اعوان ڈایریکٹر الزہرا کالج سرگودہا سے بھی دوستی کا تعلق صرف اور صرف یادنبیﷺ عشقِ نبی ﷺ ہے۔مجھے جاوید اقبال اعوان پر ہمیشہ فخر ہے کہ اِس درویش منش نے کبھی بھی مادیت کو معیار دوستی نہیں سمجھا۔ جاوید ملک اور راقم دونوں ہی محبتِ رسولﷺ کے داعی ہیں۔ سرگودہا کی سرزمین نے ایک اور نامور سپوت جسے دنیا ڈاکٹر تنویر احمد کے نام سے جانتی ہے اُن کی زندگی میں بھی عشق رسولﷺ نے انقلاب بپا کیا اور راقم کو جناب ڈاکٹر صاحب کے ساتھ وابستگی پر فخر ہے ڈاکٹر تنویر چوہدری اور راقم کا تعلق1983 ہے۔ راقم کی تربیت میں جہاں قبلہ حکیم عنایت قادری نوشاہیؒ کا ہاتھ ہے وہیں جناب ڈاکٹر تنویر احمد چوہدری نے بھی راقم کی ہر قدم پر راہنمائی فرمائی ہے۔ دور حاضر کے ممتاز شاعر دانشور ہوسٹن امریکہ میں مقیم جناب الطاف بخاری کے ساتھ عقیدت کے تعلق کی بنیاد بھی شاہ جی کا سرکار نبی کریم ﷺ سے بے انتہا عشق ہے۔ جب ہم شان رسالت کی بات کرتے ہیں تو اقبال ؒ کا نام نہ لینا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔اقبالؒ جب بھی شان رسالتﷺ بیان کرتے ہیں تو اُن کا کہا جانے والا ایک ایک لفظ دل کا ترجمان لگتا ہے۔اقبالؒ نے تسخیر کائنات کے لیے حضور اکرمﷺ کی اطاعت و پیروی کو ضروری قرار دیا۔ایسی تسخیر جو انسان کے لیے خوشی کا باعث ہو۔اِسی لیے اقبالؒ نے خود مولائے کائنات کی زبانی اطاعت نبیﷺ کی اِس طرح ترغیب دی ہے َ
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرئے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کے لوح و قلم تیرئے ہیں
اور پھر اقبالؒ بے خودی میں فرماتے ہیں
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
یہ وہ بات ہے جوپانچویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ حضرت امام غزالی ؒ نے احیاٗ العلوم میں تحریر فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں واحضر قلبک النبی صلی اللہ علیہ واسلم و شخصہ الکریم قل سلام علیک ایھا النبی (صلی اللہ علیہ وسلم ورحمتہ اللہ و برکاتیہ۔
ترجمہ: (التحیات پڑھتے وقت ) پہلے نبیﷺ اور آپ ﷺ کی صورت پاک کو دل میں حاضر کرو اور پھر کہو۔ ائے نبی ﷺ محترم: آپﷺ پر سلام،اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں.راقم کا تعلق وکالت کے پیشے سے ہے۔ہمارئے محترم ممبران لاہور ہائی کورٹ بار جناب جمیل فیضی، جناب راؤ شکیل، جناب چوہدری عبدالروف جناب نعمان یحیےٰ ،جناب احسان الحق رندھاوا، جناب حبیب الھی، جناب جسٹس نذیر غازی ، جناب شاہد میر ایڈووکیٹس عشق رسولﷺ کو اپنی انفراری و اجتماعی زندگیوں کا مرکز و محور بنائے ہوئے ہیں 
بقول اقبال:
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر با و نرسیدی تمام بولہبی است
قران کریم نے بار بار نبی پاکﷺ کی سیرت مبارکہ کی طرف متوجہ کیا ہے۔ارشا د ہوتا ہے
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوت حسنہ۔
َ

Tuesday, 1 September 2015

خالق کی عطاکے شُکرکی حقیقت امام غزالیٰؒ کے ارشادات سے ماخوذ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ , AN ARTICLE BY ASHRAF ASMI ADVOCATE BASED ON TEACHINGS OF HAZRAT IMAM GHZALI R.A


خالق کی عطاکے شُکرکی حقیقت 

امام غزالیٰؒ کے ارشادات سے ماخوذ 

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ 

خالق اور بندئے کا تعلق اِس طرح کا ہے کہ خالق سراپا عطا ہے۔خالق کی اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کا ادراک انسانی عقل و دانش کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انسان کے اِس دنیا میں قدم رکھنے سے لے کر رخصت ہونے تک ۔ہر ہر لمحہ ہر ہر گھڑی خالق کی جانب سے احسان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مخلوق کو جب جب کو ئی کامیابی ملتی ہے تو وہ اُسے کبھی تو اپنی محنت کا شاخسانہ سمجھتی ہے اور کبھی اِس کامیابی کو اپنے چالاک ہونے یا ہوشیار ہونے کا صلہ سمجھتی ہے۔حالانکہ خالق کے ہاں تو اپنی مخلوق کے لیے عطا ہی عطاکے دراز سلسلے ہیں جو ختم نہیں ہوتے۔ آدمیت کی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ جن اقوام نے خالق کو حقیقی معنوں میں خالق تسلیم کیا تو خالق نے اُن پر نعمتوں کی بارش کردی۔ حضرت امام غزالیؒ نے کیمیائے سعادت میں فصیل کے ساتھ شکر کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔حضرت امام غزالی کے ہاں۔دین کے تین مدارج ہیں علم، حال اور عمل۔لیکن ان تینوں کی اصل علم ہے۔اور اِس سے حال اور حال سے عمل پیدا ہوتا ہے ۔ پس شکر کا علم یہ ہے کہ بندہ جانے اور پہچانے کہ جو نعمت اِس کو ملی ہے خالق کی جانب سے ملی ہے ۔حال نام ہے دل کی اس خوشی کا جو نعمت پا کر حاصل ہو اور عمل یہ ہے کہ اس نعمت کو اس کام میں صرف کرئے جس میں اِس کے خالق کی مرضی ہو۔ ویسے بھی یہ عمل زبان اور جسم سے تعلق رکھتا ہے۔ پس جب تک یہ تمام احوال ظاہر نہیں ہوں گے شکر کی حقیقت معلوم نہیں ہوگی اور علم یہ ہے کہ تم اس بات کو پہچانو کہ جو نعمت تم کو ملی ہے وہ خدا وند تعالیٰ کی عطا کردہ ہے کسی غیر کا اِس میں دخل نہیں ہے جب تک تمھاری نظروسیلہ اور اسباب پر پڑتی رہے گی اور تم اس کو دیکھتے رہو گے تو یہ معرفت اور ایسا شکر نا قص ہے کیونکہ اگر کوئی بادشاہ تم کو تحفہ عطا فرمائے اور تم یہ سمجھوکہ مجھے یہ تحفہ وزیر کی مہربانی سے ملا ہے تو اس طرح بادشاہ کا شکر تم نے پورا ادا نہیں کیا بلکہ تم نے اس کا کچھ وزیر کو بھی دے دیا اوراس طرح تم پورے طور پر بادشاہ سے شادمان نہیں ہوئے اور اگر تم یہ سمجھو کہ تحفہ با دشاہ کے حکم سے ملا ہے اور حکم قلم اور کاغذکے وسیلے سے ہو اہے تو اس طرح سمجھنے سے اس شکر کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ تم جانتے ہو کہ قلم اور
کا غذ ایک دوسرے کے مسخرہیں اور بذات خود کچھ نہیں کرسکتے بلکہ یہاں تک کہ اگر تم یہ بھی سمجھ لو (کہ حکم جاری ہونے کے بعد )تحفہ خزانچی نے دیا ہے تو اس میں بھی قباحت نہیں کرسکتا کیونکہ تحفہ عطا کرنے میں خزینہ دار کا کچھ اختیا ر نہیں تھا ،وہ غیر کا محکوم ہے اس کو جب حکم دیا جائے گا وہ اس کی نا فرمانی نہیں کرسکتا ،اگر مالک کا اس کو حکم نہ ہو تو وہ کبھی تحفہ نہیں دے گا اس کا حال بھی بالکل قلم کی طرح ہے ۔اسی طرح اگر تم تمام روئے زمین کی نعمت (غلہ پھل اور دوسری غذاؤں )کا سبب بارش کو اور بارش کا سبب ابر کو سمجھو کشتی کا ساحل پر رک جانا بادِ مراد کا نتیجہ سمجھے گا تو اس طرح بھی پورا شکم (منعم کا )ادا نہیں ہوگا ۔ہاں جب تم غور کروگے کہ ابر اورباران ،ہو ااورسورج ،چاند اور ستارے وغیرہ سب کے سب خد اوند تعالی کے دست قدرت میں اس طرح مسخر ہیں جس طرح قلم کاتب کے ہاتھ میں ہے کہ قلم کاکچھ حکم نہیں ہے کاتب جس طرح چاہیے اس سے لکھوائے تو اس طرح سوچنا شکر کے نقصان کا موجب نہیں ہو سکتا اگر ایک نعمت کسی شخص کے واسطے سے تم کو ملی ہے او ،تم کو یوں سمجھناا چاہیے کہ اس دینے والے شخص نے تجھ کو جو کچھ دیا وہ اس وجہ سے دیا کہ حق تعالی نے اس پر ایک موکل کو نازل کیا تاکہ اس کو دینے پر مجبور کرے اگر وہ شخص ا کے خلا ف کرنا چاہتا تو خلاف کرنا ممکن نہ ہوتا اگر ممکن ہوتا تو وہ ایک چھدام بھی تم کو نہ دیتا ۔یہ ہم نے جس موکل کا ذکر کیا اس سے مراد وہ خواہش ہے جو اللہ تعالی نے اس دینے والے کے دل میں پیدا کی (کہ وہ تم کو کچھ دے )اور اس کو یہ بات سمجھائی کہ دونوں جہان کی خوبی اس میں ہے کہ یہ نعمت تو دوسرے شخص نے دی ۔ بس اس دینے والے نے تم کو جو کچھ دیاوہ یہ سمجھ کردیا کہ دین کی بھلائی اس میں ہے ۔ حضرت امام غزالیؒ مزید بیان فرماتے ہیں۔ اسطرح اس نے جوکچھ تم کو دیادہ حقیقت میں اپنی ذات کو دیا کیونکہ اس دینے کو اس نے اپنی ذات کا وسیلہ بنایا ۔حق تعالی نے تم کو مال ونعمت عطافرمائی کیونکہ اس پر ایک ایسا موکل بھیج دیا ۔ پس جب تم کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ تمام بنی آدم مالک حقیقی کے خزانچی کی طرح ہیں اور خزانچی درمیان میں اسباب اور واسطوں کے اعتبا ر سے قلم کی مانند ہیں ، ان میں سے کسی کا بھی کسی چیز پر اختیار نہیں بلکہ ہر اس صورت میں تم خدا ہی شکر ادا کروگے بلکہ اس حقیقت کا جان لینا بھی شکر گذاری ہے ۔حضرت موسی علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ یا الہی ،آدم (علیہ السلام )کو تونے اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور ان کو طرح طرح کی نعمتیں عطا فر ما ئیں تو انہوں نے تیرا شکر کس طرح ادا کیا ۔حق تعالی نے فرمایا کی آدم نے یہ سمجھا کہ وہ تمام نعمیتں صرف میری طرف سے ہیں اور اس طرح سمجھنا عین شکر ہے ۔معلوم ہوناچاہیے کہ ایمان کی معرفت کے بہت سے ابواب ہیں ان میں سے اول تقد یس ہے یعنی تم اس بات کو سمجھو کہ خدا وند عالم تمام مخلوقات کی صفت سے اور ہر اس بات سے جو اس سلسلہ میں وہم وخیال میں آئے پاک ہے ۔سبحان اللہ کے یہی معنی ہیں ۔دوسری توحید یہ ہے کہ تم یہ سمجھوکہ دونوں جہان میں جو کچھ ہے وہ اس کامال ہے اسی کی نعمت ہے الحمداللہ کے یہی معنی ہیں۔ یہ معرفت پہلی بیان کردہ دونوں باتوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ دونوں اسی کے تحت میں ہیں ۔اس بنا پر سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سبحان اللہ میں اس کی حسنات ہیں اورلا الہ الا اللہ میں بیس اور الحمد اللہ میں تیس نیکیاں ہیں ۔یہ حسنات وہ کلمات نہیں ہیں جو زبان سے کہے جائیں ؓ بلکہ ان سے مراد وہ معرفتیں ہیں جوان کلمات میں موجود ہیں اور ان سے نکلتی ہیں امام غزالیٰ نے آگے جاکر مزید اِس بات پر بحث کی ہے کہ شکر کے علم کے معنی یہی ہیں۔لیکن شکر کا حال وہ فرحت اور آسودگی ہے جو دل میں پیدا ہو ۔ اس معرفت اور آگاہی سے جب کوئی شخص کسی غیر سے نعمت حاصل کرے تواس کے تصور سے خوش ہوااس خوشی اور مسرت کے اسباب تین ہیں ایک یہ کہ اس وجہ سے خوش ہوکہ اس کو اس نعمت کی حا جت اور ضرورت تھی اور وہ اسکو ملی گئی تواس کی شادمانی کو شکر نہیں کہا جائے گا ۔ اس کواس مثال سے سمجھوکہ کسی بادشاہ سے سفر کا ارادہ کیا اس نے اپنے ایک غلام کو ایک گھوڑادیا ۔ اب اگر گھوڑا پا کر اس لئے خوش ہے کہ اس کواس کی حاجت تھی تواس طرح بادشاہ کا شکر کس طرح ادا ہوا کیونکہ یہ فرحت وشادمانی تواس کو اس وقت بھی حاصل ہوتی اگراس گھوڑے کو جنگل میں پا تا ،دوسرا سبب یا وجہ یہ ہے کہ وہ بادشا ہ کی اس عنائیت کو جو اس کے باب میں ہوئی ہے پہچان کر خو ش ہوکہ بادشا ہ اس کے حال پر کسی قدر مہربان ہے اور دوسری نعمتوں کی امید بھی دل میں پیداہوئی ،اگر وہ گھوڑا کسی صحرا یا جنگل میں پاتا تو اسے ایسی خوشی حاصل نہیں ہوتیْ کیونکہ یہ مسرت اس کے دل میں منعم کے انعام سے پیدا ہوئی ہے لیکن منعم نہیں ۔ یہ بات اگر چہ شکر میں داخل ہے لیکن نقصان سے خالی نہیں ہے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ گھوڑے پر سوار ہو کر بادشاہ کے حضور میں جارہا ہے تاکہ اس کا دیدارکرے اور سلطان کی ملا قات کے سوا اس کا کچھ اور مطلب نہیں ہے تو چونکہ یہ خوشی بادشاہ کے باعث پیدا ہوئی اس لئے یہاں شکر پورا ہوا ۔ اسی طرح اگر اللہ تعالی نے کسی کو نعمت عطا کی اور وہ اس نعمت سے خوش ہو نعمت دینے والے سے نہیں تو اس کو شکر نہیں کہا جائے گا اور اگر منعم کے سبب سے خوش ہوا کہ اس کو یہ نعمت اس کے دین کی خاطر جمعی کا باعث بنی تاکہ علم و عبادت میں مشغول ہو کر بارگا ہ الہی کا تقرب حا صل کرے تو اس شکر کا کما ل ہے اور اس کما ل شکر کی علامت یہ ہے کہ دنیاوی علا ئق سے اس کو جو چیز حاصل ہو وہ اس سے ملول ہو اور اس کو نعمت نہ سمجھے بلکہ اس کے زوال کو اللہ تعالی کا فضل سمجھے اور اس کا شکر ادا کرے ۔ایسی چیز جو اُسے دین کے راستے کو طے کرنے میں اس کی مدگار نہ ہواس سے خوش نہ ہو ۔شیخ شبلی قدس سرہ نے کہا ہے کہ کما ل شکریہ ہے کہ نعمت نہ دیکھے بلکہ نعمت عطا کرنے والے کو دیکھے ۔موجودہ ادوار میں انسان کی زندگی کو ایک ایسی ہوس نے آن گھیرا ہے جس کا سلسلہ ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا۔ اِسی ہوس نے وحشت کی شکل اختیار کرلی ہے کہ انسان سے سکون چھن گیا ہے۔ ظلم و ستم روا رکھ کر کمائی جانے والی دولت کو بندہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسا ہونے کے لیے انسان کو روحانیت کا گلا کاٹناپڑ رہا ہے جس کی وجہ سے جتنی عیش و عشرت اُسے میسر ہوتی ہے اُتنی ہی بے چینی اُسکا مقدر بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کے خلیفہ مجاز ہیں اُن کا یہ آرٹیکل حضرت امام غزالیٰ ؒ کے ارشادات سے ماخوذ ہے 

Tuesday, 18 August 2015

اشرف عاصمی کی کتاب من کی دنیا کی جیت سے اقتباس اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت, ASHRAF ASMI ADVOCATE


اشرف عاصمی کی کتاب من کی دنیا کی جیت سے اقتباساپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت


مزاج جب زیادہ برہم ہوجاتا ہے اور سب کچھ عجیب و غریب دیکھائی دیتا ہے۔ایسے میں نفس کے ساتھ جنگ شروع ہوجاتی ہے خالق کا بتایا ہوا سیدھا رستہ دشوار گزار دیکھائی دیتا ہے اور انسان کے ازلی دشمن ابلیس کا انداز دل کو بھاتا ہے۔ جو چاشنی جھوٹ مکر و فریب سے ملتی ہے اُس میں بندہ اتنا محو ہوجاتا ہے کہ اُسے یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ انسان ہے حیوان نہیں۔ محبتوں کے کارواں میں نفرتوں کے بیج بو دیے جاتے ہیں۔مخلوق خالق کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے ۔اِس درجے کی فروعونیت مخلوق اختیا ر کر لیتی ہے کہ خالق پھر بھی اُس کو رزق دینے سے انکاری نہیں ہوتا۔جن امکانات کو لے کر بندئے نے معاشرئے ئے کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی ہوتی ہے وہ امکانات وہ خواب اُسے چین نہیں لینے دیتے ۔ مخلوق اِس 
بھولپن میں رہتی ہے کہ اُسے تو دوام حاصل ہے اُس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سدا اُسی کا ہی ہے۔ لیکن جب تک تن کبڑا نہیں ہوجاتا بندئے کو سمجھ نہیں آتی۔ دل کے امراض،ذیابیطس کی بیماری، بلند فشار خون کا عارضہ لاحق ہوتو جاتا ہے لیکن بندہ پھر بھی خود کو ہر شے سے ماورا تصور کرتاہے اُس کی گردن مال وحشمت کے لیے اپنے سے بڑئے فرعون کے آگے تو جھک جاتی ہے لیکن خالق کو منانے میں اُسے خسارہ محسوس ہوتا ہے۔بندئے اور خالق کے تعلق کا یہ انداز انسانیت کو پستی کے سفر میں رواں رکھے رہتا ہے ۔ بندہ اپنی دولت اور اپنے دب دبے کو ہی خدا بنا لیتا ہے ۔ یوں جب قسمت زوال پذیر ہوتی ہے رزق کی کشادگی میں کمی اور زندگی کی ڈور تن جاتی ہے تو پھر بندہ خود سے چھن جانے والی جوانی مال ودولت اور اولاد کو یاد کرکر کے خود کو ہلکان کیے رکھتا ہے اُس کے دماغ کے کسی کونے میں اب بھی یہ امید جاگ رہی ہوتی ہے کہ اُسے کھویا ہو مال مل جائے گا جوانی اور دب دبہ اُسکے اختیار میں آجائے گا۔ اِنہیں اندیشوں کے ساتھ بندہ اپنی سانسوں کو خود سے جدا کر دیتا ہے اور منوں مٹی کے گڑھے میں چلا جاتا ہے دنیا کے سب سے بڑئے سچ موت کو وہ اپنی نادانی کی نظر کر دیتا ہے ۔ جو مال و دولت اور اولاد صرف زندگی تک کی ہی ساتھی ہوتی ہے وہ اُسی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو سکون اور اپنی روح کو اذیتوں میں مبتلا کر یتا 
ہے۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ اپنے پیارے نبی پاکﷺ کے طفیل ہم سب پر اپنا کرم خاص فرمائے۔ ہمیں مسلمان ہونے کا بھرم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہمیں باتیں کرنے کی بجائے باعمل مسلمان بنائے۔اکثر دوستوں سے جب گفتگو ہوتی ہے تو اُس میں ایک عنصر رعونت کا نظر آتا ہے۔ اِس رعونت کو فخر نہیں بلکہ فروعونیت کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ ہر کام کا خود کریڈٹ لینا اور خود ہر معاملے میں دوسرئے سے بہتر گرداننا۔مصلحت اور منافقت میں جو فرق ہے اُس کو اگر مد نظر رکھا جائے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اللہ پاک نے اِنسان کو جس طرح پیدا فرمایا اور جس عمل سے گزر کر وہ ایک خون کے لوتھرئے سے ایک زندہ انسان بنا۔ اور پھر اُسکو بچپن میں جس طرح رہنمائی ملی، شیر خوارگی کے ایام میں چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی اُسے محتاجی تھی اور پھر مرنے کے بعد منوں مٹی اُس کا مقدر بنی۔زندگی کے سارئے نشیب وفراز اُس خالق کی عطا سے ہی بہتر انداز میں گزرتے ہیں۔لیکن انسان کے خسارئے وہ جبلت کا کیا رونا رویا جائے کہ جس ماں نے پرورش کی ہوتی ہے اُسی کی نافرمانی کرتا ہے جس باپ نے اپنے کندھوں پر اُٹھا کر اُس کی رہنمائی کی ہوتی اُسی باپ کو وہ پھر بوجھ سمجھنا لگتا ہے ۔ جن ہونٹوں نے اُس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹیں بکھیری ہوتیں ہیں وہ اُن پر آہ زاریاں لے آتا ہے۔جب اولاد اور والدین کے ساتھ تعلق کو دنیاوی معاملات کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ اولاد کاکیا رویہ ہے اور کس طرح کا ہونا چاہیے۔

Monday, 3 August 2015

درد کی دُنیا کے مسافر اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے قلم سے۔خالق اور مخلوق کے تعلق کے حوالے سے تحریروں کا مجموعہ من کی دنیا کی جیت میں شامل مضمون بندہ خاکیِ کی فطرت



بندہِ خاکی کی فطرت

میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
زندگی کی افایت مادیت میں نہیں روحانیت میں ہے خالق نے اپنے بندے کو فطرت پہ پیدا کیا ہے۔ جو شے فطری تقاضوں کے خلاف ہے وہ انسان کی بھلائی کے لیے نہیں ہوسکتی۔بندئے اور رب کے درمیان تعلق خالق اور مخلوق والا ہے۔ انسان کی جبلت میں ہے کہ وہ گھاٹا کا سوداگر ہے اور ایک بات یہ بھی کہ بُرائی میں انسان کے لیے کشش ہے۔خالق نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اُس کی تربیت کے لیے لاتعداد انبیاء ورُسل بھیجے ۔ مقصد واضع تھا کہ انسان کو عقلِ سلیم سے نواز گیا ہے اور اِسی وجہ سے انسان کو حیوانوں پہ برتری حاصل ہے۔جب بندئے نے اپنے انسان ہونے کا بھرم ہی نہیں رکھنا تو پھر اُس کا مقصدِ حیات تو کچھ بھی نہیں رہتا ہے۔انبیاء اکرام ؑ نے اپنی اپنی بساط جو کہ رب نے عطا کی ہوئی تھی اُس کے مطابق اپنا مشن جاری رکھا اور انسان کو توحید کی لگن پیدا کرنے کے لیے بہت ہی زیادہ تگ وتاز کی۔ مصیبتیں جھیلیں،زخم کھائے۔چونکہ نبیؑ کا ایک ایک عمل رب کی عطا سے ہوتا ہے اِس لیے انسانی معاشرئے کو ارتقاء کے سفر میں رب نے گامزن رکھا۔آدمؑ سے شروع ہونا والا انسان کا سفرصدیوں سے جاری ہے۔ بے شمار لوگ پیدا ہوئے اور و فات بھی پاء گئے۔ کئی تہذیبوں نے جنم لیا اور پھر زمانے کی گرداب تلے مٹ گئیں حضرت ابراہیم ؑ ، حضرتِ اسماعیلؑ نے توحید کے پرچم کو خالق کی عطا سے تھامے رکھا۔حضرت موسیؑ ، حضرت داودؑ ، حضرت عیسیؑ سمیت کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر معبوث کیے گئے۔پیغمبر بنانے کے لیے رب پاک کاا پنا ہی طریقہ کار تھا جس کے لیے صرف اللہ پاک کو ہی پتہ تھا کہ کس کس کی نامزدگی ہوگی۔ اللہ پاک اپنی ربوبیت کے رنگ بندئے کے ذریعے دکھاتا رہا اور یوں کہانی نبی پاکﷺ پر آکر ختم ہوگی۔ دعوت دین کا سلسلہ اختتام کو پہنچا۔نبی پاکﷺ کو تمام انبیا ء اکرام کا سردار مقرر فرمادیا گیااب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تو نبی پاکﷺ بھی عام نبیوںؑ جیسے تھے تو پھر نبی پاکﷺ کو تمام انبیاء کا سردار کیوں بنایا گیا۔اور پھر نبی پاکﷺ کو رحمت عالمﷺ بھی بنایا گیا۔ اِس لیے کہ نبی پاکﷺکی بطور آخری پیغمبر تشریف آوری اِس بات کی دلالت ہے کہ اِن جیسا نہ تو کوئی ہے اور نہ ہی کوئی آیا ہے اور نہ ہی کبھی آئے گا۔ گویا سارئے زمانوں کی مخلوق میں سے آپ ﷺکو سب سے اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمایا گیا ۔آپ ﷺ کو آخری کتاب قرانِ مجید سے نوازا گیا۔آپﷺ کو معراج کا سفر نصیب ہوا آپﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء اکرامؑ کی امامت فرمائی۔چالیس سال کی عمر مبارک میں آپﷺ کو نبوت سے نواز گیا ۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ عرب کے بدو پوری دنیا کے مہذب ترین انسان بن گے۔صدیوں تک ایک دوسرئے سے لڑنے جھگڑنے والے آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔چشمِ عالم نے پھر یہ بھی دیکھا کہ بلال حبشیؓ ، غلام ہونے کے باوجودکیسا رتبہ پاگیا۔ اویس کرنیؓ سلمان فارسیؓ جیسے خدمت گزاروں کو بلند ترین مراتب سے نوازا گیا۔ یہ ساری تمھہید اِس لیے باندھی گئی کہ نبوت کے سلسلے کے شروع ہونے سے لے کر نبوت کے سلسلے کے ختم ہونے تک کہیں بھی مادیت کی پذیرائی نظر نہیں آتی۔مادیت کا حصول بُرا نہیں لیکن حد سے تجاوز کرنا ،احسن قدم نہیں۔ مادہ پرستی کی وجہ سے لالچ، جھوٹ، انا پرستی نے بہت نشو نماء پائی لیکن وہ سبق جو انبیاء اکرام ؑ نے دیا تھا اُس کو بھلادیا گیا۔ نتیجتاًسچائی کو چھوٹی جگہ ملی۔اِس کا مطلب یہ نہیں کہ سچ کم تر ہے ایسا نہیں ہے۔ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہی نکلتا ہے کہ افادیت رب کی اطاعت میں ہے۔رو حانیت میں ہے۔روپے کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے لیکن جائز طریقے سے۔ جائز کا مطلب یہ ہے کہ جس سے کسی کو نقصان نہ ہو۔نبی پاکﷺ کی ظاہری حیات کے تریسٹھ برس اِس بات کے گواہ ہیں کہ کبھی بھی مادیت کی ترغیب نہیں فرمائی۔ ہمیشہ زور اللہ پاک کی خوشنودی پر ہی رہا اور مسلمان جانتا ہے کہ اللہ پاک کی کوشنودی کیسے حاصل ہوتی ہے۔ 

Monday, 20 July 2015

عشق رسولﷺ کے تقاضے صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


 عشق رسولﷺ کے تقاضے


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

عشقَ نبیﷺ وہ سحر ہے جسکی کوئی شام نہیں۔جہاں بھر میں بخشا گیا اِس کے سوا کسی کو دوام نہیں۔اویس کرنیؓہیں راہ عشق نبیﷺ کے مسافر۔جہاں بادشاہ بھی ڈگمگائیں وہ راہ کوئی عام نہیں۔عاشق و محبوبﷺ کا وصال ہوجہاں۔سدرہ پہ پہنچ کر بھی جبریلؑ کا وہاں کوئی کام نہیں۔ساری کائنات کی رفعتیں پاؤں کی ٹھوکر پہ۔عشقِ نبیﷺ جیسا جہاں بھر میں کوئی جام نہیں۔خالق کا عشق جسں ہستیﷺ کے ساتھ ہے وہی ہستی ﷺوجہِ تخلیق کائنات ہے وہی ہستی ﷺرب کے بعد کائنات کی سب سے بزرگ ترین ہستیﷺ ہے وہی ہستیﷺ جن کے توسط سے پوری کائنات کو خالص توحید سے آشنائی ہوئی۔ وہی ہستیﷺ کائنات کے ہر سوال کا جواب ہیں۔وہی ہستیﷺ سارئے جہانوں کے لیے عظیم انقلا ب ہیں۔ وہی ہستیﷺ وہ ہستیﷺ ہیں جو کہ خالق اور بندئے کے عشق کا مظہر ہیں۔وہی ہستی ﷺدنیا اور آخرت کے درمیان جو ربط ہے وہ اِسکا نصاب ہیں ۔وہ ہستیﷺ جہاں کائنات کے سارئے علوم سر نگوں ہوجاتے ہیں۔ وہ ہستیﷺ جو عشق کی کتاب ہے وہی ہستیﷺ جو خالق کی جانب سے بندوں کے لیے نازل کردہ ہدایت کی صاحب کتاب ہیں۔وہ ہستی عشق ﷺکی انتہاہیں۔ وہ ہستیﷺ خالق کی محبوب ترین ہستی ﷺوہ ہستی ﷺجو خالق کے وجود کا اظہار ہیں ۔کائنات ایسی ہستی ﷺکو پیش کرنے سے قاصر ہے کہ جن کا تخلیق کرنے والا یہ کہہ اُٹھا ہو کہ اگر میں محمدمصطفےﷺ کو پیدا نہ کرتا تو میں اپنے وجود کا اظہار نہ کرتا۔کائنات کے ذرئے ذرئے،جن وانس حیوان،پرند چرند پہاڑ، سمندر ،جنگال بیابان سب کی رہبر و رہنماء ہستیﷺ سب کی تخلیق کی وجہ۔انسانیت کا آغاز و اختتام اِسی ہستی کے سبب ہے۔سارئے انبیاء اور رسلؑ کی امامت فرمانی والی ہستیﷺ۔پتھروں کو زبان عطا فرمانے والی ہستیﷺ۔ رب کی جانب سے تقسیم کے منصب پر فائز ہستیﷺ۔جن کے متعلق عاشق رسولﷺ اعلیٰ حضرت احمد رضاخانؒ نے فرمایا تھا کہ خدا چاہتا ہے رضائے محمدﷺ۔ محمد مصطفےﷺ کی رضا اللہ پاک کی رضا، اللہ پاک کی رضا نبی پاکﷺ کی رضا۔ زندگی کو زندگی جس کے توسط سے ملی وہ ہستی نبی پاک ﷺ ہیں۔وہ ہستیﷺ جو ظاہر باطن ہر ہر شے ہر ہر مخلوق کے لیے تا ابد رحمت ہے۔اِس ہستی کے بغیر کائنات رحمت سے خالی ، نعمتوں محروم ، عقل و شعور ادراک آگہی کا منبع ہی تو ہے ذات نبی ﷺ۔اِس ہستیﷺ کے متعلق خالق فرمادیتا ہے کہ جس نے رسول کریمﷺ کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی۔وہ ہستی ﷺجو غزوہ بدر کے معرکے میں یہ کہہ اُٹھی کہ ائے خالق اگر آج یہ تین سو تیرہ بندئے کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئے تو پھر قیامت تک تیرا نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔ کیسا انداز کہ خالق کو اپنے محبوبﷺ کی جانب سے مدد کے لیے پکارا گیا اور خالق نے فرشتوں کو مدد کے لیے بھیج دیا۔رشد و ہدایت کے ایسے منصب پر فائز وہ شخصیت جو اول بھی ہے اور آخر بھی ۔ جیسا رب یکتا ایسی ہی وہ رب کی یکتا مخلوق جس کا کوئی ثانی نہیں۔معبود کی عبدیت کا شعور کائنات میں بانٹنے والی ہستیﷺ۔انسانیت کا بول بالا کرنے والی ہستی۔ بلالِ حبشیؓ کو شہنشاہوں سے بلند رتبے پر متمکن کروانے والی ہستیﷺ، اویس کرنیؓ کی محبوب ہستی، ابو بکر ؑ ،عمرؑ ، عثمانؑ ، ؑ علی، حسنینؓ کی محبوب ہستیﷺ۔کربلا کے میدان میں تجدیدِ دین الہی کی خاطر تاریخ رقم کرنے والے امام عالی مقام امام حسینؓ کی محبوب ہستیؑ ۔ امام جعفرصادقؓ، امام ابو حنیفہؓ،امام احمد بن حنبلؓ، امام شافعی کو علم کے سمندر رب کے توسط سے عطا کروانے والی ہستیﷺ۔صلاح الدین ایوبیؒ ، نوردین زنگیؒ ، محمود غزنویؒ ،محمد بن قاسمؒ ، داتا علی ہجویری ؒ ، خواجہ غریب نوازؒ ، نوشہ گنج بخشؒ ،میاں میرؒ ، میاں وڈا صاحبؒ کے دلوں کو عشقِ حقیقی کا منصب عطا کروانے والی ہستیﷺ۔اب کسی اور کو اپنا غم سُنانا نہیں کملیﷺ والے کے سوا کوئی اور ٹھکانہ نہیں۔یادِ خیرالبشرﷺ کے صدقے ہم زندہ ہیں۔محبوب خداﷺ کے سوا کسی اور کو منانا نہیں۔حضورﷺ کو بخشا ہے رب نے تقسیم کا منصب۔اُنﷺ کے در کے سوالی ہیں کہیں اور جانا نہیں نگاہ کرم ہوکشمیر و فلسطین و برمی مسلمانوں پہ۔آپﷺ کے در کے سوا کہیں اور آنسو بہانا نہیں۔عشق کے تقاضے تو پھر یہ ہی ہیں صاحبو کہ محبوب کے نقش پاء کو اپنی زندگی کا مرکز و محور بنایا جائے۔ صرف زبان سے اقرار کا فی نہیں۔ عمل بھی ہو۔ سماج میں پھیلی کدورتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے عشق نبی پاکﷺ سے استفادہ کیا جائے کہ کوڑا پھینکنے والی بوڑھی خاتون کے گھر کی صفائی کی اور اُسکی تیمارداری بھی کی۔ وادی طائف میں پتھر مار کر لہو لہان کرنے والوں کو دُعا دی۔فرما دیا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے گویا ملاوٹ کرنے والا نبی پاکﷺ کا اُمتی نہیں ہے۔اناج کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے لیے یہ تک کہہ دیا کہ ذخیرہ کرنے بعد اگر اُس مال کو خیرات بھی کردیا جائے تو بھی اُسکا گناہ معاف نہ ہوگا۔فرمادیا محمدﷺ نے کہ جس کے ہاتھ اور پاؤں سے مسلمان محفوظ نہیں وہ بھی مسلمان نہیں۔جب ایک ایک سماجی رویے کے حوالے سے نبی پاکﷺ نے نہ صرف بتا دیا بلکہ عملاً بھی کرکے دیکھایا۔ تو پھر عشقِ نبیﷺ کا دعویٰ کرکے اپنے جیسے انسانوں کا جینا دوبھر کرنے والوں کو تو آقا کریمﷺ نے بتا دیا کہ تم میرئے اُمتی نہیں ہو۔اگر تم میرئے اُمتی ہوتے تو یہ سب کچھ نہ کرتے۔ہمارئے سماج میں عبادات کو ہی دین سمجھ لیا گیا ہے اصل میں تو اِن عبادات کا عمل ہی سارئے دین کی بنیاد ہے۔ہمارئے سماج میں عبادات کو علیحیدہ اور عمال کو علحیدہ کر دیا گیا ہے۔ اِسی وجہ سے لوٹ مار ہوس ہے کہ رُکنے کانام ہی نہیں لے رہی۔عشق رسولﷺ ہی ہماری اول و آخر پناہ ہے اِسی لیے عشقِ رسولﷺ کے تقاضے ہم سے عملی نمونہ چاہتے ہیں۔ کلمہ گو مسلمانوں کو قتل کرنے والے کیا مسلمان ہیں۔عشق رسولﷺ تو امن کی خیرات کا سبق دیتا ہے۔ 



Friday, 17 July 2015

LIST OF TPOICS OF MEIN KI DUNEA KI JEET BY ASHRAF ASMI

LIST OF TPOICS OF MEIN KI DUNEA KI JEET BY ASHRAF ASMI

1) ESHEQ A RASOOL SAWW KAY TAQAZY

ندگی سفر اور موت زندگی بے یقین موت پُر یقین اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

زندگی سفر اور موت
زندگی بے یقین موت پُر یقین
اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


    زندگی
پھول کی کو نپلیں جب صبح سویرئے شبنم کے قطروں سے وضو کرتی ہیں تو اپنے رب کی شان شان میں رطب للسان ہوتی ہیں۔ کوئل کی من بھاتی آواز ترنم سے فطرت کی تعریف و توصیف کرتی ہے۔صبح صادق کے وقت ہل چلاتے بیل کے گلے کے گھنگروں کی آواز رب کی مدح کرتی ہے تو زندگی مسکرانے لگتی ہے اور رب کی اِس کائنات میں محبتوں اور خلوص کا کارواں رواں دواں رہتا ہے۔زندگی وفا کا دوسرا نام ہے۔زندگی ہی رب کی پہچان کا سبب ہے۔ زندگی میں درپیش نشیب وفراز زندہ ہونے کی  علامت ہیں۔ زندگی ماں کی گود، زندگی دادی اماں کی لوری زندگی  باپ کا پیار زندگی بہن کی عقیدت زندگی کائنات کی سب سے محبوب ہستی رسالتِ مابﷺ کی وساطت کا سبب۔زندگی لہلہاتے کھیتوں میں اُگنے والے اناج کا پتہ دیتی ہے زندگی پہاڑوں، ریگستانوں، میدانوں  میں رقص کرتی ہوئی وہ  سہانی خوشبو ہے جوخالقِ کائنات کی عظمتوں کا ادراک بخشتی ہے۔ زندگی فقیر کی درگاہ سے لے کر بادشاہوں کے محلوں کی غلام گردشوں میں گھومنے والی وہ صدا جو سب کی ایک جیسی ہے جس میں نہ ذات کا فرق نہ مذہب کا فرق اور نہ ہی رنگ،امارت اور غربت کا تضاد۔کیونکہ زندگی تو رب کی شان کا ایسا اظہار  ہے جس کی وجہ سے ربِ کائنات نے خود کو ظاہر کیا۔          ٭٭٭           سفر  
 روح پہ لگے کاری زخم  ایسا گداز عطا کرتے ہیں کہ وہ زخم زندگی کے معنی تبدیل کردیتے ہیں۔ انسان کی جبلت میں خواہشات کا جو سمندر طوفان اُٹھائے ہوتا ہے اُس کے آگے بند باندھنے کے لیے وہی درد گدازیت کا سبب بنتا ہے جس درد نے انتہاء کی تکلیف میں مبتلا ررکھ چھوڑا ہوتا ہے۔جو لمحات درد کا سبب بنتے ہیں وہ ساعتیں زندگی کا حاصل قرار پاتی ہیں گویا گوہر نایاب کا وجود میں آنا بہت کچھ لُٹ جانے کے بعد ممکن ہو پاتا ہے لیکن فقیر کی صدا تو در حقیت اللہ پاک کی حضوری کے لیے ہوتی ہے۔ اِس میں مادیت کا عنصر نہیں ہوتا۔ فقیر تو بھٹکتی ہوئی راہوں پہ چلتا ہوا اپنا مقصد پالیتا ہے کیونکہ اُس کے اندر فطرت رچی بسی ہوتی ہے۔ فقیر کو ریاضیتیں نہیں بلکہ عشق کی تمازت  منزلیں طے کرواتی ہے۔ دکھ میں تکلیف اور خوشی میں طمانیت کا احساس رب کے وجود کے اظہار کی سیڑھی ہے۔ جہاں مثبت اور منفی کھوٹا اور کھرا نئے وجود میں ڈھل جاتا ہے اور قلب میں موجود حدت اُسے بے نیازی کے سفر پہ ڈال دیتی ہے۔ جہاں خیر اور شر کے فرق کہ بات نہیں صرف اور صرف محبوب کی رضا ہی سب بڑا سنگ میل ہوتا ہے۔جس طرح بہار کی نوید خوشیوں کا پیامبر ہوتی ہے اُسی طرح محبوب کی جدائی بھی وصال کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ وصال کے لیے جدائی کے لمحات روح کو آہوں کی سُولی پہ لٹکائے رکھتے ہیں جو کہ روح کے سفر کو عشق کی مے کے ساتھ ہر لمحہ مدہوش رکھتے ہیں پھر وصال اور جدائی میں کچھ فرق محسوس نہیں ہوتا ہے۔پھر میں اور تو کی تمیز ہوا ہو جاتی ہے۔ جو من تن جاری جوروستم کو باعث نعمت سمجھتا ہے اُس من کو ملنا نہ ملنا، جدائی،حجاب کی کیفیات سرشاری سے محروم نہیں کرتیں۔ ٭٭٭
زندگی بے یقین موت پُر یقین
موت کی آمد کے حوالے سے انسانی مزاج اِس طرح کا بنا ہوا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ اُس کے دماغ میں یہ تاثر فروغ پاجاتا ہے کہ اُس کا باپ دادا تو اتنا عرصہ زندہ رہے۔اِس لیے ابھی وہ زندہ رہے گا۔ اُس کی سوچ میں ایک زینہ یہ بھی ہوتا ہے کہ فلاں شخص اتنا بیمار ہے اتنے عرصے سے لیکن وہ ابھی زندہ ہے۔گویا وہ تو صحت مند ہے اِس لیے ابھی کافی وقت پڑا ہوا ہے۔ اِس سوچ سے موت کا ڈر تو برقرار رہتا ہے لیکن موت کے ڈر کی بدولت انسان ہموار راستے کی بجائے غلط راستوں کا راہی بن جاتا ہے۔ وہ اپنے رب کی اطاعت کو چھوڑ کر لالچ زدہ ہوجاتا ہے ایک رب کو منانے کی بجائے کئی رب تخلیق کر لیتا ہے کہیں رب  اُسکا روپیہ پیسہ بن جاتا ہے اور کہیں رب اُس کی جھوٹی آن بان شان، کہیں اُس کی عظمت کوٹھی کار بنگلے میں اٹک جاتی ہے اور کبھی  ہوس زدہ بن کر مخلوق اور رب دونوں کا نافرمان بن جاتا ہے۔یہ سوچ کہ ابھی میرے مرنے میں وقت ہے اُسے اپنے حقیقی خالق سے دور کردیتی ہے۔ اُسے حقیقی خالق کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔وہ تونوٹ اکھٹے کر رہا ہوتا ہے۔ اولاد کی تربیت  تو کجا اُس کی تو اپنی تربیت کسی بھی کھاتے میں نہیں ہوئی تھی۔بوڑھے والدین  تو اُس کی  اور اُسکی بیوی کی  آنکھ میں کانٹے بن کر چھبتے ہیں۔ بڑا گھر بیوی بچوں کے لیے  الگ الگ کاریں۔ شاپنگ دبئی میں۔ خواب کی طرح گزر جانے والی زندگی آخر ایک روز اچانک ختم ہوجاتی ہے۔ بیوی بچے باپ کی میت پر آنسو بہانے کے ساتھ مرئے  ہوئے کی جائیداد بنک اکاونٹس کی چھینا چھپٹی شروع کر دیتے ہے۔  باپ کی میت قبرستان ابھی پہنچی نہیں ہوتی اولاد جائیداد کے حصے بخرئے کرنے کے لیے آپس میں دست و گریبان ہو چکی ہوتی ہے۔ بیٹوں کی بیویاں بھی اپنے  میکے والوں کو بھی اپنی اِس کشمکش میں بطور کمک شامل کر لیتی ہیں۔یوں جس گھر کی خاطر مرنے والے نے بہت سے گھروں کو ڈسٹرب کیا ہوتا ہے وہ گھر اُس کے مرنے کے ساتھ ہی اور دفن ہونے سے پہلے ماچس کی تلیوں کی مانند بکھر جاتا ہے۔جس موت سے  آنکھوں چُرائی ہوئی ہوتی ہیں وہ موت کے اتل حقیقت بن کر لمحوں میں اپنے اثرات دیکھا دیتی ہے اور قبرستان کے مکینوں میں ایک نیا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں زندگی بے یقین اور موت یقین کے پردئے میں چھپی ہوئی ہے۔اگر ہم خالق اور اُس کے بندئے کے تعلق  کا سرسری سا بھی جائزہ لیں تو یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ بندئے کے جسم پہ موجود ایک ایک بال اُسکے رب کی رحمتوں اور نعمتوں کااحسان ہے۔ انسان کی زندگی میں پیش  آنے والے نشیب وفراز قدرت کی جا نب سے اپنے بندئے کی زندگی میں ایک ارتعاش کے حامل ہیں۔ رب کی جانب سے ملی ہوئی سانسیں رب کی اس کائنات میں  وقت پورا کرکے عالمِ برزخ کے  راستے پہ رواں کر دیتی ہیں۔ انسان کو جوملا ہوتا ہے وہ رب کی ہی تو ہوتا ہے۔ رب اِس جہان میں گزاری ہوئی زندگی کو بے مقصدیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ اِس جہاں کے ایک ایک لمحے کو رب اپنے انداز میں جانچتا ہے اور اپنی ہی بنائی ہوئی مخلوق کو جزا و سزا کے عمل سے گزارتا ہے تاکہ زندگی کی گزری ہوئی ساعتیں بے  ثمر قرار نہ پائیں۔ کیونکہ ہر عمل کا ردِ عمل ہے رب نے یہ زندگی کا نظام یونہی کھیل تماشے کے لیے ترتیب نہیں دئے دیا۔ سچائی اور جھوٹ کی قوتیں  اپنے اپنے ہونے کی  دلالت کرتی ہیں۔ دکھ مصیبتیں جھوٹ کا پلڑا دنیاوی لحاظ سے بھاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ دنیا میں وقت گزارنے والا انسان زندگی کے لیے اپنا معیار بنا لیتا ہے۔ حالانکہ  جو اِس ِ زندگی جو خالق ہے اُس کے معیار کے مطابق زندگی بسر ہونی چاہیے۔

پاکستان میں عدم برداشت وروادری کی وجہ خانقاہی نظام کا فعال نہ ہونا ہے, ARTICLE BY ASHRAF ASMI

پاکستان میں عدم  برداشت وروادری کی وجہ خانقاہی نظام کا فعال نہ ہونا ہے


ASHRAF ASMI ADVO


پاکستان میں عدم  برداشت وروادری کی وجہ خانقاہی نظام کا فعال نہ ہونا ہے
بندئے کا اپنے رب سے تعلق  بہار کی طرح کا ہوتا ہے  پھول جب تک بہار کے مزئے لوٹ رہا ہوتا ہے وہ مہکتا رہتا ہے جیسے ہی خزاں وارد ہوتی ہے پھول کی پتیاں بکھر جاتی ہیں۔ انسان جب تک اپنے رب  سے امید باندھے رکھتا ہے تب تک اُس کے من کی دنیا  آباد رہتی ہے جیسے ہی وہ اپنے رب سے ناامید ہوتا ہے  اور یاسیت اُس سے روحانی قوت چھین لیتی ہے جس لمحے بھی بندئے کے دل میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ  اُس کا یہ کام نہیں ہونا تو گویا وہ اپنے رب کی ربوبیت کوغیر ارادی طور پر ماننے سے انکاری ہوجاتا ہے یوں پھر امید کی کمزوری اُس کے ایمان کو اعتقاد کو اُسکے یقین کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ وہ پھر رب کی رحمتوں کے ہالے سے نکل کر  وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے بلکل اِسی طرح جیسے مکڑا جال میں پھنسا ہوتا ہے۔ نہ تو امید بَر آتی ہے اور نہ وسوسے چین لینے دیتے ہیں۔عبادت گاہوں میں خاص اہتمام ہوتا ہے کیا رب کا صرف وہیں قیام ہوتا ہے گھر میں بازار میں  دفتر میں  کیا ایمان کا کام نہیں ہوتا ہے  یونہی مذہب کا نام لے لے کے عقیدتوں کا دم بھر بھر کے عبادت کی رسم ادا ہوتی ہے علم و عمل سے رشتہ محال ہے زر کی ہوس نے اندھا کیا  ہوا۔
پاکستان میں  مروجہ  خانقاہی  نظام ملوکیت میں ڈھل چکا ہے؟ آستانے روپے پیسے کی ریل پیل میں اور مرید بھوک کے مارئے ہوئے غلام ابنِ غلام ایک رب پر ایمان کی بجائے ناسمجھی میں کم علمی کی وجہ  مرید بھی استحصال شکار ہیں اور اُن کے نذرانے ایسے جگہ جاتے ہیں کہ کاروباری انداز میں چلائی جانے والی خانقاہیں  پرائیوٹ لمیٹیڈ کمپنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرئے کے ساتھ  نام نہاد پیر بھی اُس دائرئے میں  داخل ہوچکے ہیں جہاں پیسہ ہی ایمان، لوٹ مار استحصال  کے لیے نام نہاد پیر بھی روایتی سیاست میں حصہ لے کر اپنے کاروبار چمکاتے ہیں۔ پاکستان میں خانقاہی نظام کی تباہی کی وجہ ہی یہ ہے  کہ خود کو سوادِاعظم  کہنے والوں کی آواز کہیں بھی نہیں۔ اگر کسی پیر یا مذہبی رہنماء نے رویتی سیاست کا ہی حصہ بننا ہے تو پھر سات دہائیوں سے جو چلا آرہا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا۔آستانے محبت و الفت کے گہوارئے ہوا کرتے تھے لوگ بلاتخصیص  اپنے دکھ درد کے حل کے لیے خانقاہ میں بیٹھے اللہ کے نیک بندئے سے رہنمائی لیتے تھے۔ اِن خانقاہوں میں ہر آنے جانے والے کو روٹی ملتی اور روحانیت کی منازل بھی  طے ہوتیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ داتا علی ہجویریؒ کو لاہور میں دفن ہوئے ایک ہزارسال ہونے کو ہے۔لیکن اللہ پاک کا فضل ہر ساعت اُن کے دربار پہ جاری و ساری ہے اور اللہ پاک کی خاص رحمتیں نازل ہو تی ہیں۔ لیکن وہ خانقاہیں جہاں باقاعدہ پیری مریدی  کا نظام چل رہا ہے وہاں بالکل صورتحال عجیب ہو چکی ہے۔ دین سے محبت رواج و روایات  کی نذر ہوچکی ہے۔ عظیم صوفی بزرگوں کی درگاہوں پہ ا یسی ایسی خرافات ہو رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اللہ کا نیک بندہ جہان دفن ہوتا ہے وہاں اللہ پاک کی رحمتوں کا نزول بہت زیاد ہوتا ہے لیکن ہندوانہ رسم رواج عجیب و  غریب انداز میں جاری ہے۔دین کی روح کو خانقاہی نظام نے ہی ترویج دی اور برصغیر میں لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا اور پاکستان کو تو اولیا کا ہی فیضان کہا جاتا ہے لیکن اِن اولیاء اکرام کی خانقاہوں کو جس انداز میں کاروبار بنا دیا گیا ہے  یہ سلسلہ بہت تکلیف دہ ہے  جن درگاہوں سے رسمِ شبیری ادا ہونا تھی وہاں گدیوں کی لڑائیاں جاری ہیں۔اِن حالات میں کہ اُمت کو جہاں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور پوری امت مسلمہ ہمہ گیر زوال و انحطاط کا شکار ہے اِن خانقاہوں سے تو علم وہدائت کے سرچشمے پھوٹنے چاہییں کیلن عملی طور پر ایسا نہیں  پارہا۔ جس کی وجہ سے پیٹرو اسلام کی حامل جماعتیں عوام الناس میں فلاحی کاموں کے ذریعے یا دیگر انداز میں نفوس پزیری حاصل کر  گئی ہیں۔ گویا پاکستان میں نام نہاد طالبان کی جانب سے دہشت گردی بھی درحقیقت ہمارئے خانقاہی نظام کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔ رُشد و ہدایت کا منبع و مرکز جب اپنی ذمہ داریاں  پوری نہ کریں تو پھر لازمی طور پر خلاء پیدا ہوگا اور اِس خلاء نے ہی ہمارئے معاشرئے کو نفرتوں کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ فرقہ واریت، مذہب، زبان، علاقہ کی بنیاد پر گردنیں کا ٹنے کا سلسلہ چلا نکلا۔           

فراق و ہجر کی حقیت .................................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ writeen by ashraf asmi advocate

فراق و ہجر کی حقیت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

عشق اور وصال دونوں ایک دوسرئے کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے۔بلکہ عشق کی حدت کو وصال ٹھنڈا کر دیتا ہے اورہجر عشق کی راہوں کو جلا بخشتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے تعلق میں جومخلوق کو دوری محسوس ہوتی ہے وہی اُس کی طلب میں اضافہ کرتی ہے اور یوں خالق کی عطا پر صابر و شاکر اور خالق کی تلاش میں سرگرداں رہنا مومن کو ہمیشہ عشق کی وادیوں کا مسافر بنائے رکھتا ہے اِس سفر میں ٹھراؤ نہیں ہوتا۔ اگر عشقِ حقیقی کے سفر میں قیام کی حالت رونما ہوجائے تو پھر سفر کی منزل وہیں تکمیل پا جاتی ہے اور یوں عشق اختتام پذیری کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔ایسا قیام ایسا وصال ایسا ٹھراؤ عشق کی موت ہے۔ اِس لیے کہ خالق کے عشق  میں رواں دواں رہنا ہی تو بندہ مومن کی وہ صفت ہے جسے شاہین سے مماثلت حاصل ہے۔ شاہین صحرا و دریا، سمندروں پہاڑوں،جنگلوں بیابانوں،شرق و مغرب  افریقہ ویورپ، ایشیا ہر جگہ ہی تو اپنی منزل کی تلاش میں خود کو محو پرواز رکھتا ہے اور وہ کسی کے آگے سوال نہیں کرتا خود ہی وہ اپنے اسباب پیدا کرتا ہے اُسے کسی کی منزل کو اپنی منزل کہنا ہی نہیں آتا وہ تو اپنے راستوں میں ہی خود ہی روشن مثال ہوتا ہے۔خالق کا عشق کسی بھی طور اختتام کی جانب سفر نہیں کرتا۔ رب پاک تو اپنے بندئے کو کائنات کی سب سے افضل ترین ہستی بنائے ہوئے ہے۔اور خالق کے عشق کی انتہا یہ ہے کہ نبی پاکﷺ کو ختم الرسلﷺ کا مقام عطا فرما دیا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی بھی ہدایت کا سرچشمہ نہیں ہے۔ گویا نبی پاکﷺ کا  خاتم النبینﷺ کے منصب پر موجود ہونا بھی ربِ کائنات کا انسان کے اوپر اپنے بھر پور اعتماد کا مظہر ہے کہ رب پاک نے انسان کو ہی پوری کائنات میں سے اشرف رکھا ہے۔علی ہجویریؒ کا داتا علی ہجویریؒ بننا بھی عشق کی راہ پر مسلسل گامزن رہنے کا سبب ہی تو ہے کہ ایک ہزار سال ہونے کو آیا ہے کہ پوری دنیا علی ہجویریؒ کے تصرفات سے بہرہ مند ہورہی ہے۔صاحب کمال کا سفر نہ تو زندگی کے تابع ہوتا ہے اور نہ ہی موت اُس کے لیے رکاوٹ بنتی ہے۔عشق کاکام تو جاری و ساری رہنا ہی تو ہے۔نبی پاکﷺ کا تاابد پوری کا ئنا ت کے لیے تما م جہانوں کے رحمت ہونا بھی تو اِسی عشق کے سفر کا ہی تو انداز ہے۔ ابوبکر ؓ، عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ  کے عشق سے اولیا ء اکرام کا مالامال ہونا بھی توعشق کا سفر ہی تو ہے جمود تو نہیں ہے۔بلال حبشیؓ، اویس کرنیؓ، سلمان فارسیؓ  کے عشق کے علمبردار میاں میرؒ، نوشہ گنج بخشؒ، خواجہ غریب نوازؓ،داتا علی ہجویریؒ ہی تو ہیں۔ عشق کا سفر کہاں رُکا ہے اِسی سفر میں تو کائنات کی جان ہے اور اگر عشق کا سفر ہی رُک گیا تو کائنات پُرزہ پُرزہ ہوجائے گی۔امام عالیٰ مقام جناب حضرت امام حسینؓ کی موت کیساحیات کا جام ہے کہ دنیا بھر کی حریت کو جناب امام عالیٰ مقامؓ سے ہی حریت کی میراث مل رہی ہے۔ 1857 سے  1947 تک کے اسلامیان ہندوستان پر ظلم وستم کے دور کے ہوتے ہوئے بھی قحط الرجال کے دور میں بھی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ، اقبال ؒ، محمد علی جناحؒ جیسی عظیم ہستیاں غلامی سے نجات کے لیے جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کو میسر آئیں۔یہ ہی تو ہے وہ عشق جس کا سفر ہر حال ہر دور میں جاری رہتا ہے اِسکے آگے رکاوٹوں کی کیا مجال ہے۔

Friday, 10 July 2015

امرتسر کا جانورام اور محمد بخش۔ تقسیمِ ہند کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ, A STORY WRITTEN BY ASHRAF ASMI , I WITH SPECIAL REFERENCE DIVISION

امرتسر کا جانورام اور محمد بخش۔

تقسیمِ ہند کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی

میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
آم کے درخت پر طوطے میٹھے گیت گا رہے تھے اور ساتھ ہی کنویں سے بیلوں کی جوڑی پانی نکال کرچھوٹی کھتیوں کو سراب کررہی تھی۔جانورام کے ساتھ اُس کی بیوی نیتوبھی کھیتوں میں آج آئی ہوئی تھی۔اُسے آج کچھ تازہ سبزیاں کھیتوں میں سے لینا تھیں۔جانو رام نے اپنے ڈیرئے پہ پہنچ کر بھینسوں کا دودھ دوہنے کے لیے چارہ ڈالا۔جانو رام نے یہ تینوں بھنسیں بڑئے شوق سے پالی تھیں۔ بھوری بھینس میں تو جیسے اُس کی جان تھی۔جانو رام کا باپ مرتے وقت گزارہ قابل زمین جانو رام کے نام کر گیا تھا۔ جانو کی ایک ہی بہن تھی جسے اُس کے باپ چھوٹو رام نے اپنی زندگی میں ہی چار گاؤں چھوڑ کر ایک قصبہ دولت پور کے نام کا تھا وہاں درپن مانڈئے کے ساتھ بیاہ دیا تھا ۔ درپن مانڈئے ساہو کار تھا اور گندم، چاول کی خرید و فروخت کرتا ہے۔ جسے آڑھت کہا جاتا ہے۔

درپن مانڈئے کا بیٹا گوتم اپنے قصبے کا شیر جوان تھا۔ ایک ہی ایک بیٹا تھا درپن مانڈئے کا۔آج گوتم اپنے مامے سے ملنے بیلی پور آرہا تھا اِس لیے نیتو تازہ سبزیاں لینے خود کھیتوں میں جانو رام کے ساتھ ہی آئی ہوئی تھی۔جانو رام کو بھگوان نے ایک بیٹی اور ایک بیٹا عطا کیے تھے بیٹا دو ماہ اور چار دن کے بعدمرگیا تھا۔ بہتیرا روئی تھی نیتو۔ بیٹی بیٹے کے بعد ہوئی تھی اب وہ سولہویں سال میں تھی۔نیتو کو اپنے ننھے معصوم بیٹے کی موت نے بہت عرصہ تکلیف میں رکھا۔ زمانے کے مرہم نے بیٹے کی موت کے زخم کو تھوڑا بہت مندمل کر دیا تھا۔آج گوتم آرہا تھا تو نیتو کے دل کے زخم اپنے بیٹے کی یاد میں پھر ہرئے ہوگئے تھے۔نیتو سوچ رہی تھی کہ اگر بھگوان اُس کے راجیش پتر کو زندہ رکھتا تو وہ اب گوتم سے دو سال ہی چھوٹا ہونا تھا۔گوتم کیساتھ اُس کی ماں بھی آرہی تھی۔ دوپہر کا کھانا اِن لوگوں نے اکھٹے کھانا تھا۔جانو رام نے دو دیسی مرغوں کا گوشت تتار کروایا تھا۔ دہی کے آلو اور بیگن کا بھرتھہ اور دیسی گھی کی روٹیاں خاص طور پر تیار کروائی تھیں۔نیتو نے چار پائیوں پہ نئی چادریں بچھوادیں تھیں۔جانو رام نے اپنی بہن سنیتا کو کہلا بھیجا تھا کہ کافی عرصے سے درپن مانڈئے سے ملاقات نہیں ہوئی وہ کچھ وقت نکال کر آجائے۔سورج جس وقت عین سر پہ تھا کہ دولت پور سے درپن اُسکی ماں سُنیتا اور گوتم اپنے ذاتی ٹانگے پر سوار ہوئے اُنکا رخ بیلی پور کی طرف تھا۔ گھوڑا کیا تھا پوری شاہی سواری تھی۔ آدھے گھنٹے میں ہی وہ دولت پور گاؤں کے اندر داخل ہورہے تھے۔جیسے ہی وہ جانو رام کے گھر کے باہر پہنچے تو جانور رام ، نیتو اور اُن کی بیٹی اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ سُنیتا اپنے بھائی کے قدموں کو چھو نے لگ گئی۔کافی وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے باپو کے گھر آئی تھی۔گوتم کن اکھیوں سے اپنی ماموں زاد ریشم کو دیکھ رہا تھا۔ ریشم کا حسن اُس کے نہ صرف تن پہ تھا بلکہ ریشم تو من کی بھی بہت ہی خوبصورت تھی۔ریشم شرم سے سر جھکا کر کھڑی ہوگئی۔درپن مانڈئے اور جانو رام دیس کی باتیں کرنے لگ گئے۔ درپن مانڈئے نے جب جانو رام کو بتایا کہ مسلمان ہم سے الگ وطن بنانا چاہ رہے ہیں تو جانو رام نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ یہ اُن کا حق ہے۔درپن مانڈئے کسی گہری سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحوں بعد گویا ہوا دیکھو جانو رام ،مسلمانوں کا الگ وطن ہم کیسے برداشت کر پائیں گے ؟ اور بھارت ماتا کی تقسیم کیسے ہونے دیں ؟۔ جانو رام نے خاموشی سادھ لی تھی۔ پھر درپن مانڈھے نے کہا کہ مسلمان تو سات سمندر پار سے آئے تھے اُن کا ہندوستان تو نہیں ہے۔ جانو رام گہری سوچ میں تھا اور آہستہ سے بولا لیکن اِنھی مسلمانوں نے اِسی ہندوستان پر ایک ہزار سال تک بھی تو حکومت کی تھی۔ درپن کو جانو رام کی جانب سے مسلمانوں کی مسلسل وکالت بہت بُری لگ رہی تھی۔درپن نے اونچی آواز میں کہا کہ مسلمانوں نے لوٹ مار بھی تو بہت کی ہے ہمارئے ہندوستان میں۔جانورام درپن کے لہجے سے سمجھ گیا کہ درپن کو جانو رام کی باتیں بہت بُری لگی ہیں۔جانو رام کے آباواجداد امرتسر میں ہی رہے تھے۔ امرتسر میں ہی جانو رام کی بہت جان پہچان تھی۔اُسکی دوستی محمد بخش سے بچپن سے تھی اور وہ اُن کے ساتھ کافی محبت رکھتا تھا۔ جانورام نے کبھی بھی محمد بخش کے ساتھ چھوت چھات والا سلوک نہیں کیا تھا جانو رام ہمیشہ کہا کرتا کہ محمد بخش ہم دوست ہیں یاری میں ایسی باتوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔محمد بخش کی بیلی پور گاؤں میں کریانے کی دکان تھی اور وہ بہت ملنسار اور خدا ترس تھا۔محمد بخش کی بیوی شادی کے ڈیرھ سال بعد ہی فوت ہوگئی تھی اُس کا یک بیٹا دین محمد بیس سال کا ہو چلا تھا وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ دکان پہ ہی ہوتا تھا۔ دن گزررہے تھے گرمیاں جیسے ہی آئیں پتہ چلا کہ انگریز ملک چھوڑ کر جا رہا ہے اور ہندوستان کا بٹوارا ہورہا ہے۔ پاکستان کے نام کی گونج میں بہت شدت آچکی تھی۔ محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے مطالبے میں جان پیدا کر دی تھی۔ اِسی لیے جب تقسیم کی بات چلی تو پتہ چلا کہ امرتسر پاکستان کا حصہ ہے درپن مانڈئے اور نیٹو نے بہتیرا جانو رام کو سمجھایا کہ وہ ہندوستان میں سب مل کر رہیں گے اور امرتسر کو چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن جانو رام کی جان تو گویا امرتسر میں تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ امرتسر پاکستان میں جائے یا ہندوستان اُسے امرتسر کو نہیں چھوڑنا۔ فسادات پھوٹ پڑئے تھے۔ ہندو مسلم قتل و غارت شروع ہو گئی تھی امرتسر میں سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔اسی دوران اعلان ہوگیا کہ امرتسر پاکستان میں نہیں بھارت کا حصہ رہے گا۔ محمد بخش اور اُسکا بیٹا دین محمد فسادات کی لپیٹ میں تھے۔محمد بخش کی دکان کو لوٹ لیا گیا تھا۔ جانو رام نے محمد بخش اور اُسکے بیٹے کو اپنے گھر چھپا لیا تھا۔جانو رام کا خیال تھا کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے وہ محمد بخش اور اُس کے بیٹے کو پاکستان روانہ کردئے گا۔فسادات کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پوری ہندوستان میں پھیل گئی تھیں۔ سنیتا اپنے بھائی جانو رام کی خریت کی بابت بہت فکر مند تھی ۔ وہ لوگ دولت پور سے درپن ماندئے، سُنیتا اور اُن کا بیٹا گوتم اپنے ٹانگے میں سوار رات کے اندھیرئے میں بیلی پور جانو رام کے گھر پہنچ گئے۔رات گہری ہو چکی تھی جب وہ جانو رام کے گھر آئے تو نیتو نے فوراً اُن کے کھانے کا بندوبست کیا۔ سنیتا بھائی اور اُس خاندان کو سلامت دیکھ کر بھگوان کے آگے جھک گئی۔ تھوری دیر کے بعد درپن مانڈئے کو ساتھ والی کوٹھری میں سے کسی کے کھانسے کی آواز ائی تو ۔ جانو رام کا ارنگ اُڑ گیا۔ درپن مانڈئے اور گوتم کہنے لگے کہ کون ہے جانو رام نے کہا کوئی بھی نہیں ہے۔لیکن درپن مانڈئے کا شک دور نہ ہوا تھا۔اُس نے تھوری دیر بعد اُسی کوٹھری کا رخ کیا تو اُسے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔ درپن مانڈئے نے جانو رام کو آواز دی جانو رام یہ کون ہیں ۔ اتنے میں نیتو بھاگی ہوئی آگئی اُس نے ہکلاتے ہوئے کہا کہ یہ محمد بخش اور اُس کا بیٹا ہے جان کے خوف سے چھپے ہیں جلد چلے جائیں گے۔درپن مانڈئے کا خون کھولنے لگا اُس نے ڈنڈا پکڑا اور محمد بخش اور اُسکے بیٹے دین محمد کو مارنے لگ گیا اور ساتھ ہی درپن نے جانو رام کو بھی مارنا شروع کردیا۔ جانور ام کو وہ چیخ چیخ کر کہ رہا تھا کہ تم نے ایک مسلے کو پناہ دی ہے اچھوت کو پناہ دی ہے۔جب جانو رام پر گوتم اور درپن نے ہاتھ اُتھایا تو جانو رام کی بیٹی ریشم چیختی ہوئی اپنے باپ کے ساتھ آکر لگ گئی۔ گوتم نے جانو رام کو مارنے کے لیے ریشم کو الگ کرنا چاہا لیکن ریشم الگ نہ ہوئی۔گوتم ریشم کو اُٹھا کر ساتھ والی کوٹھری میں چھوڑنے آگیا۔ اتنے میں حالات نے پلٹا کھایا دین محمد نے اپنی حفاظت کے لیے کچھ خنجر ساتھ رکھے تھے اُس نے خنجر درپن مانڈئے کے دل کی جگہ مارا درپن مانڈئے تڑپنے لگا۔ گوتم ریشم بدینت ہو چکا تھا اُس نے موقع جانا کہ سب اُدھر مصروف ہیں اُس نے ریشم کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی ٹھان لی ۔ ریشم کی آواز دین محمد تک بھی پہنچ چکی تھی دین محمد نے آکر ریشم کو گوتم سے آزاد کرویا ایک ہی خنجر کا وار گوتم کی گردن پہ لگا اور گوتم وہیں ڈھیر ہوگیا۔ جانو رام کا خون بہت بہہ چکا تھا اُس نے محمد بخش کو کہا محمد بخش تو نیتو ریشم اور میری بہن سنیتا کو لے کر بھاگ جا ،پاکستان چلا جا۔ لیکن دین محمد اور محمد بخش جانو رام کو اِس حالت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ جانو کو اپنے یار محمد بخش کی کمزوری کا پتہ تھا اُ س نے کہا محمد بخش تمھیں اپنے نبیﷺ کا واسطہ اِن کو لے کر جان بچا لے۔ ساتھ دو گھوڑئے بندھے ہوئے ہیں وہ لے جا۔ باہر کافی شور بپا تھا لوٹ مار ہوری تھی۔ محمد بخش اور دین محمد نے تینوں خواتین کو اپنے ساتھ لیا اور گھوڑئے پر سوار ہوگئے تیں دن اور تین راتیں وہ چھپتے چھپاتے لاہور بارڈر پر پہنچ گئے۔بارڈر پر پہنچتے پہنچتے محمد بخش کی حالت غیر ہو گئی تھی۔ اور سنیتا سکھوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔ یوں محمد بخش بارڈر سے چند کوس پہلے ہی اپنے خالق کے پاس چلا گیا اور مرتے وقت اُس نے دین محمد سے قسم لی کہ وہ نیتو اور ریشم کا خیال رکھے گا۔چند دن وہ واہگہ بارڈر میں مہاجرین کے کیمپ میں رہے ۔ نیتو اور ریشم نے اپنی وضع قطع مسلمانوں والی بنالی۔ اِن تینوں کو بھاٹی گیٹ لاہور میں ایک مکان الاٹ کردیا۔نیتو نے ریشم سمیت اسلام قبول کرلیا۔ریشم کی شادی دین محمد سے کردی گئی۔یوں جانو رام کا خاندان اور محمد بخش کا بیٹا ایک ہی خاندان کی صورت میں لاہور میں قیام پذیر رہے۔ 

Wednesday, 8 July 2015

MUEN KI DUNEAY KI JEET مَن کی دُ نیا کی جیت : خود آگاہی ۔رب شناسی صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ...

MUEN KI DUNEAY KI JEET مَن کی دُ نیا کی جیت : خود آگاہی ۔رب شناسی صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ...: خود آگاہی ۔رب شناسی صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نفسِ  باطنی کو خالق کی عطا کے مطابق ڈھال لینا اور زیست کے ایک...

خود آگاہی ۔رب شناسی صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ AN ARTICLE ABOUT THE KUDI

خود آگاہی ۔رب شناسی


صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

نفسِ
 باطنی کو خالق کی عطا کے مطابق ڈھال لینا اور زیست کے ایک ایک طحے کو     
            خالق کے حکم پر قربان کردینا یہ بندے کی وہ حالت ہے ۔جو اُسے ہر دُیناوی شے سے بیگانہ کر دیتی ہے ۔اُسے اپنے خالق پر یقین محکم ہوتا ہے ۔اُسکی زندگی میں درپیش کسی طرح کے طوفان اُسے حق کی راہ سے نہیں ہٹا پاتے ۔گویا بندے کا اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجانا اپنے خالق سے آگاہ ہونے کا سب بنتا ہے ۔انسان جب یہ سمجھ لینا ہے ۔کہ اُس کا رب ہی اُس کاصرف رب ہے تو اُس کی زندگی میں کوئی کسک نہیں رہ جاتی ۔وہ خور کو اپنے خالق کی رضا کے تابع بنا لیتا ہے ۔اُسکی نگاہیں اپنی ایک ایک ضرورت کے لئے صرف خالق کی طرف اُٹھی ہیں ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ بندے کا اول اور آ خرمالک صرف اُس کا خدا ہی ہے اپنے آپ کو زندگی کے سفر میں سیدھی راہ کا راہی بنا لینا اور قدرت کی خاطر خود کو خبردار رکھنا ۔انسان کی فطرت میں گناہ کی طرف مِائل ہونا عام سے بات ہے ۔لیکن جب بندہِ مومن کو خود آگاہی ہوجاتی ہے ۔ہمارئے معاشرئے جو تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے اور جس طرح معا شرتی ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے مذہبی فرقہ ورانہ منافرت نے بھائی چارئے امن دوستی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اِسی طرح سیاسی رواداری سے عاری ماحول بھی سوسائٹی کے لیے زہرِ قاتل بنا ہوا ہے۔ جو قوم ایک اللہ پاک کے نام ایک نبی پاکﷺ اور ایک قران پاک کے نام پر بھی اکھٹی نہ ہوپائے اِس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ سرمایہ داروں نام نہاد مذہبی رہنماؤں، سیاسی آقاؤں نے قوم کو جو جس طرح سے اپنے اپنے دائرئے میں یرغمال بنا رکھا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت ہے لیکن اِسی وجہ سے خطے میں بدامنی بھی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ معاشرہ ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔کوئی شخص محفوظ نہیں جان مال کی حُرمت پامال ہوچکی ہے۔ انسانی خون اتنا ارزاں ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شھید ہوچکے ہیں ان میں عام لوگ بھی شامل ہیں اور افوجِ پاکستان کے جانباز بھی ۔بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ اِسی ملک میں لیڈری کرنے والے قاتل اور مقتول کے درمیان فرق روا نہیں رکھے ہوئے۔ ہزاروں معصوم افراد کے قاتل دہشت گردوں کو شھید قرار دیا جارہا ہے قوم کو شدید قسم کی کنفیوزن میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔ پاکستانی ریاست جس طرح کے خطرات سے دوچار ہے یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ اِس کے لیے ایسی لیڈر شپ درکار ہے جو کہ اقتدار کے ایوانوں کی بجائے عوام سے دلی اُنس رکھتی ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں۔ قلندر میلِ تقریر نہ دارد بجز ایں نکتہ اکسیر نہ دارد ازاں کشتِ خرابے حاصلے نیشت کہ آب از خون شبیر ندارد (ارمغانِ حجاز)حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ قلندر لمبی چوڑی تقریر کی طرف رغبت نہیں رکھتا۔سوائے اُس نکتے کہ جو میں تمھارئے لیے کہنے والا ہوں کہ اِس ویران کھیت سے کوئی پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی کہ جس کی حضرت امام حسینؓ(شبیرؓ) کے خون سے آبیاری نہ کی جائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر یا باطل کے مقابلے میں عملاً نکلے بغیر کسی قسم کی عزت اور وقار حاصل نہیں کرسکتے۔جہاد کے حق میں اور باطل کے خلاف زبانی کلامی باتیں کرنے سے تمہاری اجڑی ہوئی دنیا آباد نہیں ہو سکتی اس کا ایک ہی طریقہ ہے جو کہتے ہو اِس پر عمل کرو۔مگو از مدعائے زندگانی ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست من از ذو ق سفر آنگونہ مستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست ( پیام مشرق)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔فرشتہ گرچہ بروں از طلسم افلاک است ، نگاہِ او بتماشائے ایں کف خا ک است (زبوررِعجم)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں فرشتہ اگرچہ انسانوں کی طرح آسمان کے جادو یعنی قوانینِ فطرت سے آزاد ہے ۔اس کے باوجود اس کی نظر مٹھی بھر خاک کے پتلے(انسان) پر ہے یعنی وہ انسان کی رفعت کی طرف دیکھتا ہے جو اُسے عشق کے سوزوگداز کی بدولت حاصل ہے۔ ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم) حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔ زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل،بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری است (زبور عجم) حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عقل جو کچھ تراشتی ہے اُسے لمحہ بہ لمحہ تورتی رہتی ہے کیونکہ وہ درست نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ اب عقل کی باتیں چھوڑ کر عشق اختیار کرلے کیونکہ عشق مسلمان ہے صحیح راستے پر ہے اور عقل برہمن کا زنار ہے یہ کفر کی راہ چلتی ہے عشق معرفتِ حق کی طرف لے جاتا ہے۔ مگو از مدعائے زندگانی،رابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست من از ذو ق سفر آنگونہ مستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست ( پیام مشرق)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔جناب اقبالؒ کی سوچ کاو یہ ادراک تھا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے مردِ مومن کو یہ سبق دیا ہے کہ جس کو تو منزل سمجھ رہا ہے یہ تو پڑاؤ ہے منزل نہیں ہے یہ حیات سکوت کا نام نہیں ، یہ زندگی تو حرکت کا نام ہے اِسی لیے علامہؒ اپنے مقصد سے اتنی لگن رکھتے ہیں کہ وہ ستارون سے آگے جہاں اور بھی ہے کا پیغام دیتے ہیں۔ اقبالؒ کے ہاں مایوسی کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں اقبال بندہِ مومن کو عقلی تقاضوں سے بہت آگے عشق کے میدان میں لے جاتے ہین وہ کہتے ہیں کہ عشق ہی تمھاری منزل ہے۔حتیٰ کہ جنابِ اقبالؒ یہاں تک پکار اُٹھے ہیں کہ وہ انسان کو یہ بتلاتے ہیں کہ کیونکہ تیرے اندر عشق کی وجہ سے سوز و گداز ہے اِس لیے فرشتے آسمانوں کے باسی ہونے کے باوجود انسان کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں۔ اقبالؒ کے خیالات یہ ہیں کہ وہ عمل پر زور دیتے ہیں وہ گفتار کے غازی کی بجائے کردار کے غازی بننے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی فرماتے ہین کہ اگر تم نے دُنیا میں عزت واحترام سے رہنا ہے تو پھر جنابِ حضرت امام حسینؓ کی طرح جہاد کرو اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دو۔ بندہ جب خود کو پہچان لیتا ہے تو پھر اپنے رب کو پہچان لیتا ہے اپنی حقیقت پہچان لیتا ہے ۔ مقصدِ زیست کے حوالے سے پھر ابہام کا شکار نہیں ہوتا۔اُس کی آنکھوں میں اپنے خالق کے علاوہ اورپھر کوئی نہیں جچتا۔زندگی اور موت کے ہونے یا نہ ہونے کی حدود قیود سے ماورا ہوجات ہے۔ خودی تو عرفان خداوندی ہے۔جفا وفا تو بس کیفیات کے نام ہیں۔عشق کی راہ سچی راہ ہوتی ہے۔ بندہ خود کو جو پہچان جاتا ہے۔