Sunday, 13 December 2015

روح کاسکون .......................................................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی


















روح کاسکون


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی


درخت جب بہت زیادہ پھلدار ہوجاتا ہے تو تب وہ جھک جاتا ہے۔عجز وانکساری کا اظہار کرتا ہے۔چھاؤں دیتا ہے۔ آندھی طوفان کے تھپیڑوں سے بچاتا ہے۔اور اپنے وجود کے حصے پھل کو کھانے کے لیے دے دیتا ہے۔ اِتنی عظمتیں ورفعتیں اِس کے حصے میں آتی ہیں کہ ایسادرخت قابل رشک بن جاتا ہے۔ کسی درخت کی زندگی جتنی بھی دہائیوں پر مشتمل ہوتی ہے اُتنی گزارنے کے بعد وہ اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ لیکن جن جن انسانوں اور حیوانوں نے اُس درخت سے کچھ استفادہ کیا ہوتا ہے وہ وہ انسان اور حیوان اُس درخت کے مشکور رہتے ہیں۔انسان بھی اگر اپنی ذات کو دوسروں کے لیے نافع بنائے رکھے اور اپنے جیسے انسانوں اور چرند پرند جو اِس جہاں میں پائے جاتے ہیں اُن کے ساتھ حسن سلوک کرئے ۔کسی بھی انسان کے لیے اِس سے بڑھ کر طمانیت کا احساس اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے خالق کی رضا کی خاطر اپنے خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر انتہائی محدود وقت کے لیے ملنے والی زندگی کی سانسوں کو اپنے مالک و خالق کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔اگر تو انسان وفاداری کا پیکر ہے تو اُس کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ وفا کرئے۔ اور اِس مقصد کے لیے خدائے بزرگ و برتر کے ازلی دشمن شیطان کی جانب سے ڈالے جانے والے وسوسوں کو یکسر ٹھکرا دئے اور اپنے مالک و برتر کی واحدانیت کی سربلندی کے لیے اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھے اور شیطان کے ہر وار کا مقابلہ اپنے رب کی عطا کردہ مشیت سے کرئے۔ اور وقتی طور پر نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے اپنے رب کی ابدی رحمت سے محروم نہ ہو۔ یقینی طور ایک انسان کے لیے ایسی راہ پہ چلنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ایمان کی مضبوطی سے خالق کی 
ا طاعت کے وسیلے سے خود کو روحانی سکون کا پیکر بناسکتا ے اور اپنی چند روزہ زندگی کو بھی اور اپنی ابدی زندگی کو بھی روحانی سکون کو گہوارا بنا سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment