Friday, 17 July 2015

فراق و ہجر کی حقیت .................................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ writeen by ashraf asmi advocate

فراق و ہجر کی حقیت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

عشق اور وصال دونوں ایک دوسرئے کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے۔بلکہ عشق کی حدت کو وصال ٹھنڈا کر دیتا ہے اورہجر عشق کی راہوں کو جلا بخشتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے تعلق میں جومخلوق کو دوری محسوس ہوتی ہے وہی اُس کی طلب میں اضافہ کرتی ہے اور یوں خالق کی عطا پر صابر و شاکر اور خالق کی تلاش میں سرگرداں رہنا مومن کو ہمیشہ عشق کی وادیوں کا مسافر بنائے رکھتا ہے اِس سفر میں ٹھراؤ نہیں ہوتا۔ اگر عشقِ حقیقی کے سفر میں قیام کی حالت رونما ہوجائے تو پھر سفر کی منزل وہیں تکمیل پا جاتی ہے اور یوں عشق اختتام پذیری کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔ایسا قیام ایسا وصال ایسا ٹھراؤ عشق کی موت ہے۔ اِس لیے کہ خالق کے عشق  میں رواں دواں رہنا ہی تو بندہ مومن کی وہ صفت ہے جسے شاہین سے مماثلت حاصل ہے۔ شاہین صحرا و دریا، سمندروں پہاڑوں،جنگلوں بیابانوں،شرق و مغرب  افریقہ ویورپ، ایشیا ہر جگہ ہی تو اپنی منزل کی تلاش میں خود کو محو پرواز رکھتا ہے اور وہ کسی کے آگے سوال نہیں کرتا خود ہی وہ اپنے اسباب پیدا کرتا ہے اُسے کسی کی منزل کو اپنی منزل کہنا ہی نہیں آتا وہ تو اپنے راستوں میں ہی خود ہی روشن مثال ہوتا ہے۔خالق کا عشق کسی بھی طور اختتام کی جانب سفر نہیں کرتا۔ رب پاک تو اپنے بندئے کو کائنات کی سب سے افضل ترین ہستی بنائے ہوئے ہے۔اور خالق کے عشق کی انتہا یہ ہے کہ نبی پاکﷺ کو ختم الرسلﷺ کا مقام عطا فرما دیا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی بھی ہدایت کا سرچشمہ نہیں ہے۔ گویا نبی پاکﷺ کا  خاتم النبینﷺ کے منصب پر موجود ہونا بھی ربِ کائنات کا انسان کے اوپر اپنے بھر پور اعتماد کا مظہر ہے کہ رب پاک نے انسان کو ہی پوری کائنات میں سے اشرف رکھا ہے۔علی ہجویریؒ کا داتا علی ہجویریؒ بننا بھی عشق کی راہ پر مسلسل گامزن رہنے کا سبب ہی تو ہے کہ ایک ہزار سال ہونے کو آیا ہے کہ پوری دنیا علی ہجویریؒ کے تصرفات سے بہرہ مند ہورہی ہے۔صاحب کمال کا سفر نہ تو زندگی کے تابع ہوتا ہے اور نہ ہی موت اُس کے لیے رکاوٹ بنتی ہے۔عشق کاکام تو جاری و ساری رہنا ہی تو ہے۔نبی پاکﷺ کا تاابد پوری کا ئنا ت کے لیے تما م جہانوں کے رحمت ہونا بھی تو اِسی عشق کے سفر کا ہی تو انداز ہے۔ ابوبکر ؓ، عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ  کے عشق سے اولیا ء اکرام کا مالامال ہونا بھی توعشق کا سفر ہی تو ہے جمود تو نہیں ہے۔بلال حبشیؓ، اویس کرنیؓ، سلمان فارسیؓ  کے عشق کے علمبردار میاں میرؒ، نوشہ گنج بخشؒ، خواجہ غریب نوازؓ،داتا علی ہجویریؒ ہی تو ہیں۔ عشق کا سفر کہاں رُکا ہے اِسی سفر میں تو کائنات کی جان ہے اور اگر عشق کا سفر ہی رُک گیا تو کائنات پُرزہ پُرزہ ہوجائے گی۔امام عالیٰ مقام جناب حضرت امام حسینؓ کی موت کیساحیات کا جام ہے کہ دنیا بھر کی حریت کو جناب امام عالیٰ مقامؓ سے ہی حریت کی میراث مل رہی ہے۔ 1857 سے  1947 تک کے اسلامیان ہندوستان پر ظلم وستم کے دور کے ہوتے ہوئے بھی قحط الرجال کے دور میں بھی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ، اقبال ؒ، محمد علی جناحؒ جیسی عظیم ہستیاں غلامی سے نجات کے لیے جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کو میسر آئیں۔یہ ہی تو ہے وہ عشق جس کا سفر ہر حال ہر دور میں جاری رہتا ہے اِسکے آگے رکاوٹوں کی کیا مجال ہے۔

No comments:

Post a Comment