کیا ہم ایک خود دار قوم ہیں؟
میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
ہمارئے معاشرئے جو تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے اور جس طرح معا شرتی ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے مذہبی فرقہ ورانہ منافرت نے بھائی چارئے امن دوستی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اِسی طرح سیاسی رواداری سے عاری ماحول بھی سوسائٹی کے لیے زہرِ قاتل بنا ہوا ہے۔ جو قوم ایک اللہ پاک کے نام ایک نبی پاکﷺ اور ایک قران پاک کے نام پر بھی اکھٹی نہ ہوپائے اِس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ سرمایہ داروں نام نہاد مذہبی رہنماؤں، سیاسی آقاؤں نے قوم کو جو جس طرح سے اپنے اپنے دائرئے میں یرغمال بنا رکھا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت ہے لیکن اِسی وجہ سے خطے میں بدامنی بھی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ معاشرہ ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔کوئی شخص محفوظ نہیں جان مال کی حُرمت پامال ہوچکی ہے۔ انسانی خون اتنا ارزاں ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شھید ہوچکے ہیں ان میں عام لوگ بھی شامل ہیں اور افوجِ پاکستان کے جانباز بھی ۔بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ اِسی ملک میں لیڈری کرنے والے قاتل اور مقتول کے درمیان فرق روا نہیں رکھے ہوئے۔ ہزاروں معصوم افراد کے قاتل دہشت گردوں کو شھید قرار دیا جارہا ہے قوم کو شدید قسم کی کنفیوزن میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔ پاکستانی ریاست جس طرح کے خطرات سے دوچار ہے یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ اِس کے لیے ایسی لیڈر شپ درکار ہے جو کہ اقتدار کے ایوانوں کی بجائے عوام سے دلی اُنس رکھتی ہو۔
موجودہ حالات میں اقبالؒ کی فکر کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اقبال ؒ اللہ پاک کے بتائے ہوئے رستے ہر چلنے میں ہی مسلمانوں کی فلاح سمجھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
قلندر میلِ تقریر نہ دارد
بجز ایں نکتہ اکسیر نہ دارد
ازاں کشتِ خرابے حاصلے نیشت
کہ آب از خون شبیر ندارد (ارمغانِ حجاز)
حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ قلندر لمبی چوڑی تقریر کی طرف رغبت نہیں رکھتا۔سوائے اُس نکتے کہ جو میں تمھارئے لیے کہنے والا ہوں کہ اِس ویران کھیت سے کوئی پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی کہ جس کی حضرت امام حسینؓ(شبیرؓ) کے خون سے آبیاری نہ کی جائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر یا باطل کے مقابلے میں عملاً نکلے بغیر کسی قسم کی عزت اور وقار حاصل نہیں کرسکتے۔جہاد کے حق میں اور باطل کے خلاف زبانی کلامی باتیں کرنے سے تمہاری اجڑی ہوئی دنیا آباد نہیں ہو سکتی اس کا ایک ہی طریقہ ہے جو کہتے ہو اِس پر عمل کرو۔
مگو از مدعائے زندگانی
ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست
من از ذو ق سفر آنگونہ مستم
کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست
( پیام مشرق)
حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔
فرشتہ گرچہ بروں از طلسم افلاک است
نگاہِ او بتماشائے ایں کف خا ک است (زبوررِعجم)
حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں فرشتہ اگرچہ انسانوں کی طرح آسمان کے جادو یعنی قوانینِ فطرت سے آزاد ہے ۔اس کے باوجود اس کی نظر مٹھی بھر خاک کے پتلے(انسان) پر ہے یعنی وہ انسان کی رفعت کی طرف دیکھتا ہے جو اُسے عشق کے سوزوگداز کی بدولت حاصل ہے۔
ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است
وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم)
حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔
زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل
بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری است (زبور عجم)
حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عقل جو کچھ تراشتی ہے اُسے لمحہ بہ لمحہ تورتی رہتی ہے کیونکہ وہ درست نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ اب عقل کی باتیں چھوڑ کر عشق اختیار کرلے کیونکہ عشق مسلمان ہے صحیح راستے پر ہے اور عقل برہمن کا زنار ہے یہ کفر کی راہ چلتی ہے عشق معرفتِ حق کی طرف لے جاتا ہے۔
مگو از مدعائے زندگانی
ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست
من از ذو ق سفر آنگونہ مستم
کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست
( پیام مشرق)
حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔جناب اقبالؒ کی سوچ کاو یہ ادراک تھا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے مردِ مومن کو یہ سبق دیا ہے کہ جس کو تو منزل سمجھ رہا ہے یہ تو پڑاؤ ہے منزل نہیں ہے یہ حیات سکوت کا نام نہیں ، یہ زندگی تو حرکت کا نام ہے اِسی لیے علامہؒ اپنے مقصد سے اتنی لگن رکھتے ہیں کہ وہ ستارون سے آگے جہاں اور بھی ہے کا پیغام دیتے ہیں۔ اقبالؒ کے ہاں مایوسی کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں اقبال بندہِ مومن کو عقلی تقاضوں سے بہت آگے عشق کے میدان میں لے جاتے ہین وہ کہتے ہیں کہ عشق ہی تمھاری منزل ہے۔حتیٰ کہ جنابِ اقبالؒ یہاں تک پکار اُٹھے ہیں کہ وہ انسان کو یہ بتلاتے ہیں کہ کیونکہ تیرے اندر عشق کی وجہ سے سوز و گداز ہے اِس لیے فرشتے آسمانوں کے باسی ہونے کے باوجود انسان کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں۔ اقبالؒ کے خیالات یہ ہیں کہ وہ عمل پر زور دیتے ہیں وہ گفتار کے غازی کی بجائے کردار کے غازی بننے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی فرماتے ہین کہ اگر تم نے دُنیا میں عزت واحترام سے رہنا ہے تو پھر جنابِ حضرت امام حسینؓ کی طرح جہاد کرو اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دو۔قوموں کی زندگی میں لیڈرشپ کا بہت اہم کردار ہوا کرتا ہے۔جس قوم میں اعلیٰ قومی قیادت موجود ہو اُس قوم کو ہر طرح کے خطرات سے نبردآزما ہونے کی ہمت مل جاتی ہے۔ گویا قومی سطح پر قیادت ہی پوری قوم کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہوتی ہے ہر کس و نا کس کی رائے کا احترام کرنا بھی درحقیت لیڈر شپ کا کمال ہوتا ہے۔موجودہ دور کو قحط الرجال کا دور کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا۔پاکستان کے سیاسی سفر کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ اور حضرت اقبالؒ کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اسکندر مرزا، غلام محمد، ایوب خان۔ یحیےٰ خان، بھٹو، ضیاء ا لحق، مشرف وہ کردار ہیں جن کی وجہ سے ہماری قومی زندگی کو بہت سے کڑئے ادوار سے گزرنا پڑا۔دُنیا بھر میں اُنھی قوموں نے معاشی ، سماجی، عمرانی، اخلاقی ترقی کی منازل طے کی ہیں جن کی قومی قیادت نے اُن کی بروقت رہنمائی کی نہ کہ ہماری سیاسی قیادتوں کی طرح قوم کو لوٹا۔ حیرت ہے کہ جب راہبر ہی راہزن بن جائیں تو پھر اُس قوم کا حشر وہی ہوتا ہے جو بھیڑیا میمنے کا کرتا ہے۔ہماری قومی زندگی جو کے حادثات کا شاخسانہ بنی پڑی ہے اِس میں امن و سکون اور شانتی ناپید ہے۔ سیاسی تماشبینوں کے ہاتھ جمہوریت اور اسلام کے الفاظ ہیں جس سے وہ قوم کو دھوکہ دیتے ہیں۔ رہی سہی کسر فوجی مارشل لاء پوری کرے رہے ہیں۔ اس سے بڑی بد نصیبی اور کیا ہو گی کہ ہر آنے والا حکمران اپنے پیشرو کو گالیوں سے نوازتا ہے اور خود کو پارساء اور عوام کا خیرخواہ گردانتا ہے۔ کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب حضرت اقبالؒ اور قائد اعظمؒ نے دیکھا تھا۔ ہماری قومی سوچ اس لیے نہیں بن سکی کہ قوم کو باوقار قومی قیادت میسر نہیں آسکی۔ کراچی کے حالات، خون کی ارزانی، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اقبالؒ کے پاکستان میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے سبب ہمیں بطور قوم بہت ذمہ دار ہونا چاہیے لیکن قومی مفادات کو تو پسِ پشت ڈال کر حکمران عوام کا لہو چوس رہے ہیں اور پوری قوم کو غربت کے منحوس چکر میں پھنسا رکھا ہے۔حضرتَ علامہ اقبال مسلمانِان َ عالم کے لیے وہ مینارہ نور ہیں جن کی بدولت بیسویں صدی میں جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے ایک عظیم وطن پاکستان حاصل کیا تھا۔ اقبالؒ کی شاعری درحقیت انسانیت کے لیے ہمت اور حوصلے کی علامت ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں نے پِسی ہوئی قوم ہونے کے باوجود انگریز اور ہندو کی غلامی سے نجات حاصل کی اسی لیے حضرت قائد اعظم ؒ نے اقبالؒ کو یہ کہہ کر خراجِ عقیدت پیش کیا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے حضرت علامہ ا قبالؒ کی زیرِقیادت بطور ایک سپاہی کے کام کیا ہے۔ اسی لیے جب پاکستان بن گیا تو حضرت قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ کاش حضرت اقبالؒ اس وقت ہوتے تو اُنہیں علحیدہ وطن کے اپنے خواب کی تکمیل پر بہت خوشی ہوتی۔ اقبالؒ سرمایہ دارنہ اور سوشلزم کے حق میں نہ تھے بلکہ وہ ایک صوفی منش انسان تھے اور نبی پاکﷺ کی سنتِ مطہرہ کو ہی تمام مسائل کا حل گردانتے۔ حضرتِ اقبال کا پیغام لوٹ کھسوٹ اور ظالمانہ نظام کے خلاف اُٹھ کھڑئے ہونے کا ہے۔ اس لیے حضرتِ اقبال پاکستانی قوم کے صرف قومی شاعر ہی نہیں درحقیت وہ ایک بہت بڑے انقلابی رہنما تھے اور اُن کی سوچ کا واضع اثر قیام پاکستان کی صورت میں موجود ہے۔ اقبال جیسے عظیم انسان کو رب تعالیٰ نے ایسی اوصافِ حمیدہ سے سرفراز فرمایا تھا جس کی بدولت آپ کو پوری دُنیا کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا گہرا ادراک تھا اور وہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک اُمتِ مسلمہ کے زوال و انحطاط پر مغموم رہتے۔ پاکستانی معاشرے سے جھوٹ، نفرت، چوربازاری،اقربا پروری کو ختم کرکے اور سچائی کو فروخ دے کر ہم اکیسویں صدی کے پاکستان کو ایک عظیم فلا حی مملکت بنا سکتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں نے تعلیم کو کئی طبقاتی حصوں میں تقسیم کررکھا ہے وجہ ا س کی صرف یہ ہی ہے کہ ریاست نے عوام کو بے یارومدد گار چھوڑ رکھا ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ اقرباء پروری ہر شعبے میں پائی جا رہی ہے۔ کیا یہ عام انسانوں کے رہنے کا ملک ہے کیا اس ملک میں سچ کا بول بالا ہے کیا اس ملک میں انصاف ملتا ہے۔ کیا اس ملک میں مساوات ہے کیا اس ملک میں امن ہے۔ کیا غریب امیر یکساں حقوق کے حامل ہیں اگر یہ سب کچھ نہیں اور یقینی طور پر ایسا نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملک عام انسانوں کے لیے نہیں بلکہ یہ تو اشرافیہ کے لیے بنا تھا اور اشرافیہ اٹھانوے فی صد عوام کو ایک ریوڑ کی مانند ہانک رہی ۔ قائد اور اقبال نے ایک بکھری ہوئی قوم کو متحد کیا لیکن افسوس ہمارے ا حکمرانوں نے ایک پُرعزم قوم کو ریوڑ بنا کے رکھ دیا۔ ہمارے قومی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن مجال ہے کہ اقبالؒ کے خواب کو ٹوٹنے سے بچانے کی خاطر کوئی راہ عمل میں آئے۔ اے رب
کا ئنات ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے اور ہمیں مخلص اورسچی قومی قیادت فراہم کردے کیونکہ تو ہر عمل پر قادر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ گزشتہ دو دہائیوں سے سماجی قانونی معاشی موضوعات پر لکھتے ہیں ہائی کورٹ میں وکالت کرتے ہیں برصغیر کی عظیم روحانی شخصیت حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہورکے خانوادے سے تعلق ہے۔
No comments:
Post a Comment