Tuesday, 18 August 2015

اشرف عاصمی کی کتاب من کی دنیا کی جیت سے اقتباس اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت, ASHRAF ASMI ADVOCATE


اشرف عاصمی کی کتاب من کی دنیا کی جیت سے اقتباساپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت


مزاج جب زیادہ برہم ہوجاتا ہے اور سب کچھ عجیب و غریب دیکھائی دیتا ہے۔ایسے میں نفس کے ساتھ جنگ شروع ہوجاتی ہے خالق کا بتایا ہوا سیدھا رستہ دشوار گزار دیکھائی دیتا ہے اور انسان کے ازلی دشمن ابلیس کا انداز دل کو بھاتا ہے۔ جو چاشنی جھوٹ مکر و فریب سے ملتی ہے اُس میں بندہ اتنا محو ہوجاتا ہے کہ اُسے یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ انسان ہے حیوان نہیں۔ محبتوں کے کارواں میں نفرتوں کے بیج بو دیے جاتے ہیں۔مخلوق خالق کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے ۔اِس درجے کی فروعونیت مخلوق اختیا ر کر لیتی ہے کہ خالق پھر بھی اُس کو رزق دینے سے انکاری نہیں ہوتا۔جن امکانات کو لے کر بندئے نے معاشرئے ئے کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی ہوتی ہے وہ امکانات وہ خواب اُسے چین نہیں لینے دیتے ۔ مخلوق اِس 
بھولپن میں رہتی ہے کہ اُسے تو دوام حاصل ہے اُس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سدا اُسی کا ہی ہے۔ لیکن جب تک تن کبڑا نہیں ہوجاتا بندئے کو سمجھ نہیں آتی۔ دل کے امراض،ذیابیطس کی بیماری، بلند فشار خون کا عارضہ لاحق ہوتو جاتا ہے لیکن بندہ پھر بھی خود کو ہر شے سے ماورا تصور کرتاہے اُس کی گردن مال وحشمت کے لیے اپنے سے بڑئے فرعون کے آگے تو جھک جاتی ہے لیکن خالق کو منانے میں اُسے خسارہ محسوس ہوتا ہے۔بندئے اور خالق کے تعلق کا یہ انداز انسانیت کو پستی کے سفر میں رواں رکھے رہتا ہے ۔ بندہ اپنی دولت اور اپنے دب دبے کو ہی خدا بنا لیتا ہے ۔ یوں جب قسمت زوال پذیر ہوتی ہے رزق کی کشادگی میں کمی اور زندگی کی ڈور تن جاتی ہے تو پھر بندہ خود سے چھن جانے والی جوانی مال ودولت اور اولاد کو یاد کرکر کے خود کو ہلکان کیے رکھتا ہے اُس کے دماغ کے کسی کونے میں اب بھی یہ امید جاگ رہی ہوتی ہے کہ اُسے کھویا ہو مال مل جائے گا جوانی اور دب دبہ اُسکے اختیار میں آجائے گا۔ اِنہیں اندیشوں کے ساتھ بندہ اپنی سانسوں کو خود سے جدا کر دیتا ہے اور منوں مٹی کے گڑھے میں چلا جاتا ہے دنیا کے سب سے بڑئے سچ موت کو وہ اپنی نادانی کی نظر کر دیتا ہے ۔ جو مال و دولت اور اولاد صرف زندگی تک کی ہی ساتھی ہوتی ہے وہ اُسی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو سکون اور اپنی روح کو اذیتوں میں مبتلا کر یتا 
ہے۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ اپنے پیارے نبی پاکﷺ کے طفیل ہم سب پر اپنا کرم خاص فرمائے۔ ہمیں مسلمان ہونے کا بھرم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہمیں باتیں کرنے کی بجائے باعمل مسلمان بنائے۔اکثر دوستوں سے جب گفتگو ہوتی ہے تو اُس میں ایک عنصر رعونت کا نظر آتا ہے۔ اِس رعونت کو فخر نہیں بلکہ فروعونیت کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ ہر کام کا خود کریڈٹ لینا اور خود ہر معاملے میں دوسرئے سے بہتر گرداننا۔مصلحت اور منافقت میں جو فرق ہے اُس کو اگر مد نظر رکھا جائے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اللہ پاک نے اِنسان کو جس طرح پیدا فرمایا اور جس عمل سے گزر کر وہ ایک خون کے لوتھرئے سے ایک زندہ انسان بنا۔ اور پھر اُسکو بچپن میں جس طرح رہنمائی ملی، شیر خوارگی کے ایام میں چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی اُسے محتاجی تھی اور پھر مرنے کے بعد منوں مٹی اُس کا مقدر بنی۔زندگی کے سارئے نشیب وفراز اُس خالق کی عطا سے ہی بہتر انداز میں گزرتے ہیں۔لیکن انسان کے خسارئے وہ جبلت کا کیا رونا رویا جائے کہ جس ماں نے پرورش کی ہوتی ہے اُسی کی نافرمانی کرتا ہے جس باپ نے اپنے کندھوں پر اُٹھا کر اُس کی رہنمائی کی ہوتی اُسی باپ کو وہ پھر بوجھ سمجھنا لگتا ہے ۔ جن ہونٹوں نے اُس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹیں بکھیری ہوتیں ہیں وہ اُن پر آہ زاریاں لے آتا ہے۔جب اولاد اور والدین کے ساتھ تعلق کو دنیاوی معاملات کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ اولاد کاکیا رویہ ہے اور کس طرح کا ہونا چاہیے۔

No comments:

Post a Comment