Sunday, 26 April 2015

گزر گیا ہے جو جاں سے وہ نہ دوبارہ دیکھائی دے اشرف عاصمی

الجھا ہوں اِس طرح کہ نہ کوئی سہارا دیکھائی دے
چاندنی رات کو بھی نہ کوئی ستارہ دیکھائی دے
محفلِ یاراں میں اِس قدر قحط ہے محبتوں کا
کہ بھرئے ہجوم میں بھی نہ کوئی ہمارا دیکھائی دے
قسمت کے اتنے دھنی ہے میرئے لوگ
کہ سامنے منزل ہے پھر بھی نہ کنارا دیکھائی دے
چاہتوں کے سمندر میں ڈوبے ہیں شب و روز
تنہائی ہے پھر بھی اتنی کہ نہ کوئی پیارا دیکھائی دے
عاصمی وفا کی کسوٹی پہ اُترنا آسان نہیں
گزر گیا ہے جو جاں سے وہ نہ دوبارہ دیکھائی دے
اشرف عاصمی

No comments:

Post a Comment