Saturday, 18 April 2015

جس کا حُسن چاند کو بھی ماند کرئے حشر ہی ڈھائے گا عاصمی وہ تو نقاب میں اشرف عاصمی


ساقی رہا نہیں ہے اب مزا تیری شراب میں
وہ شخص ہی میرا نہ رہا آنا تھا جس نے خواب میں
خال خال مجھے وہ جینے کی تمنا سے نوازتا ہے
اندھیری راہیں مقدر ہیں، ہوں لیکن آفتاب میں
اُس کا اندازِبیاں دل گرفتہ ہے اتنا کہ
ملتی ہے فقط راحت اب تو عذاب میں
عشق کی راہ پہ چلنا اِس قدر آسان نہیں
کھائے ہیں پتھر قیس نے بے حساب جواب میں
جس کا حُسن چاند کو بھی ماند کرئے
حشر ہی ڈھائے گا عاصمی وہ تو نقاب میں
اشرف عاصمی

No comments:

Post a Comment