Sunday, 26 April 2015

گزر گیا ہے جو جاں سے وہ نہ دوبارہ دیکھائی دے اشرف عاصمی

الجھا ہوں اِس طرح کہ نہ کوئی سہارا دیکھائی دے
چاندنی رات کو بھی نہ کوئی ستارہ دیکھائی دے
محفلِ یاراں میں اِس قدر قحط ہے محبتوں کا
کہ بھرئے ہجوم میں بھی نہ کوئی ہمارا دیکھائی دے
قسمت کے اتنے دھنی ہے میرئے لوگ
کہ سامنے منزل ہے پھر بھی نہ کنارا دیکھائی دے
چاہتوں کے سمندر میں ڈوبے ہیں شب و روز
تنہائی ہے پھر بھی اتنی کہ نہ کوئی پیارا دیکھائی دے
عاصمی وفا کی کسوٹی پہ اُترنا آسان نہیں
گزر گیا ہے جو جاں سے وہ نہ دوبارہ دیکھائی دے
اشرف عاصمی

Saturday, 18 April 2015

تلاشِ گمشدہ۔بھائی چار ہ دانشور حضرات اِسے مت پڑھیں یا خواص کا نہیں عوام کا دُکھ ہے۔ اشرف عاصمی کے قلم سے. ashraf asmi ki mein ki jeet

تلاشِ گمشدہ۔بھائی چار ہ

دانشور حضرات اِسے مت پڑھیں یا خواص کا نہیں عوام کا دُکھ ہے۔ اشرف عاصمی کے قلم سے

مندرجہ بالا لکھے دو الفاظ جو کہ نو حروف کا مرکب ہیں ۔جو ماضی بعید میں یقین کی حد تک سمجھے اورپڑھے جاتے تھے اور اِن الفاظ کے معنی ہر پاکستانی کی پہچان تھے بلکہ حکمران طبقہ بھی اِس حوالے سے نابلد نہ تھا۔ان الفاظ سے معاشرئے کو بکھرنے سے بچانے کا کام لیا جاتا تھا۔اب یہ دو الفاظ عام بول چال سے معدوم ہوتے چلے گئے ہیں بلکہ اب کتابوں میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ احباب دانش جو کہ اُردو زبان کو سمجھتے ہیں اور اُس کی کی ڈکشنری مرتب کرنے کے کام پر فائز ہیں اِن الفاط کو اُردو زبان سے متروک ہی نہ قرار دئے دیں۔کسی زمانے میں حضرت ناصح کا بیان بھی اِسی بھائی چارئے کے مرکزی خیال پر مبنی ہوتا تھا۔بعد ازاں اُن کے واعظ سے بھی بے چارہ بھائی چار ہ فضول قرار پایا۔بلکہ اِس کی بجائے پیسہ بناؤ اور گردنیں کاٹو کے الفاظ وجہِ تکریم ٹھرئے۔جب بچہ سنِ شعور کو پہنچتا تو اُسے یہ جب الفاظ سننے کو ملتے تو وہ ازخود گلی محلے میں رہنے والے افراد کو اپنا چچا ، ماموں خالہ سمجھنے لگ جاتا یوں محبت احترام اور رواداری و اخلاص چھوٹی عمر میں ہی بچے کے دل ودماغ میں الفاظ کی صورت میں اور بعدازاں اُسکے افعال میں راسخ ہو جاتا۔ معاشرئے میں بے چینی کم تھی اخلاص تھا حلال و حرام کا خیال اور چھوٹے بڑئے کا احترام لازم ہوا کرتا تھا۔لیکن موبائل فون انٹرنیٹ نے جہاں ادراک و آگہی کے دروازئے کھول دیے وہاں معاشرہ بے چینی اور ہیجان انگیزی کا شکار ہو گیا ہے۔ ٹی وی چیلنز نے مادر پدر آزادی اور معاشی ناہمواریوں کو فروغ دیا ہے۔ ڈگریاں دھڑا دھڑ تقسم ہورہی ہیں لیکن تربیت مفقود۔ہمارئے معاشرئے کو ان ایجادات نے فائدہ بھی دیا ہے لیکن اِس کے منفی اثرات زیادہ دیکھے جاسکتے ہیں۔محلے داروں کو چچا ماموں کہنے والے اپنے باب کو بھی باپ کا درجہ دینے سے گریزاں ہیں۔ قصور ان ایجادات کا نہیں بلکہ اِن کے بے تُکے استعمال کا ہے۔جس لباس کا مقصد جسم کو چھپانا ہے وہی لباس اب جسمانی اعضاء کی نمائش کر رہا ہے اِس کی وجہ چینلز کے ذریعے نام نہاد فیشن کی دوڑ ہے۔قناعت کھو گئی ہے ۔ بازاروں میں رونق اتنی کہ دکاندار اب مردہ مُرغیاں اور مردہ گدھے کا گوشت کھلا رہے ہیں۔ حکومت کس شے کا نام ہے وہ شا ئد گدھ کو کہتے ہیں جس کا کام پہلے سے مُردہ عوام کو مُردہ تر بناناتاکہ اتنا گوشت بھی نہ ہو کہ اِن کو بطور لاش دفن کیا جاسکے۔ضمیر بھائی چارئے اور غیرت کی گمشدگی نے پوری قوم کو گمشدہ اوراق بنا کر راکھ بنا چھوڑا ہے۔

جس کا حُسن چاند کو بھی ماند کرئے حشر ہی ڈھائے گا عاصمی وہ تو نقاب میں اشرف عاصمی


ساقی رہا نہیں ہے اب مزا تیری شراب میں
وہ شخص ہی میرا نہ رہا آنا تھا جس نے خواب میں
خال خال مجھے وہ جینے کی تمنا سے نوازتا ہے
اندھیری راہیں مقدر ہیں، ہوں لیکن آفتاب میں
اُس کا اندازِبیاں دل گرفتہ ہے اتنا کہ
ملتی ہے فقط راحت اب تو عذاب میں
عشق کی راہ پہ چلنا اِس قدر آسان نہیں
کھائے ہیں پتھر قیس نے بے حساب جواب میں
جس کا حُسن چاند کو بھی ماند کرئے
حشر ہی ڈھائے گا عاصمی وہ تو نقاب میں
اشرف عاصمی

hogeaa meraa raqeeb........mein ki duneay ki jeet