۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنا بچپن اپنے ماموں جان حضرت حکیم عنائت قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ گزارہ۔گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودہا سے بی کام کیا۔ معاشیات ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ایجوکیشن میں ماسٹرزکیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور ایل ایل ایم کریمنالوجی کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ اسلاملک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ ۔ ۔
Tuesday, 21 July 2015
Monday, 20 July 2015
عشق رسولﷺ کے تقاضے صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
عشق رسولﷺ کے تقاضے
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
عشقَ نبیﷺ وہ سحر ہے جسکی کوئی شام نہیں۔جہاں بھر میں بخشا گیا اِس کے سوا کسی کو دوام نہیں۔اویس کرنیؓہیں راہ عشق نبیﷺ کے مسافر۔جہاں بادشاہ بھی ڈگمگائیں وہ راہ کوئی عام نہیں۔عاشق و محبوبﷺ کا وصال ہوجہاں۔سدرہ پہ پہنچ کر بھی جبریلؑ کا وہاں کوئی کام نہیں۔ساری کائنات کی رفعتیں پاؤں کی ٹھوکر پہ۔عشقِ نبیﷺ جیسا جہاں بھر میں کوئی جام نہیں۔خالق کا عشق جسں ہستیﷺ کے ساتھ ہے وہی ہستی ﷺوجہِ تخلیق کائنات ہے وہی ہستی ﷺرب کے بعد کائنات کی سب سے بزرگ ترین ہستیﷺ ہے وہی ہستیﷺ جن کے توسط سے پوری کائنات کو خالص توحید سے آشنائی ہوئی۔ وہی ہستیﷺ کائنات کے ہر سوال کا جواب ہیں۔وہی ہستیﷺ سارئے جہانوں کے لیے عظیم انقلا ب ہیں۔ وہی ہستیﷺ وہ ہستیﷺ ہیں جو کہ خالق اور بندئے کے عشق کا مظہر ہیں۔وہی ہستی ﷺدنیا اور آخرت کے درمیان جو ربط ہے وہ اِسکا نصاب ہیں ۔وہ ہستیﷺ جہاں کائنات کے سارئے علوم سر نگوں ہوجاتے ہیں۔ وہ ہستیﷺ جو عشق کی کتاب ہے وہی ہستیﷺ جو خالق کی جانب سے بندوں کے لیے نازل کردہ ہدایت کی صاحب کتاب ہیں۔وہ ہستی عشق ﷺکی انتہاہیں۔ وہ ہستیﷺ خالق کی محبوب ترین ہستی ﷺوہ ہستی ﷺجو خالق کے وجود کا اظہار ہیں ۔کائنات ایسی ہستی ﷺکو پیش کرنے سے قاصر ہے کہ جن کا تخلیق کرنے والا یہ کہہ اُٹھا ہو کہ اگر میں محمدمصطفےﷺ کو پیدا نہ کرتا تو میں اپنے وجود کا اظہار نہ کرتا۔کائنات کے ذرئے ذرئے،جن وانس حیوان،پرند چرند پہاڑ، سمندر ،جنگال بیابان سب کی رہبر و رہنماء ہستیﷺ سب کی تخلیق کی وجہ۔انسانیت کا آغاز و اختتام اِسی ہستی کے سبب ہے۔سارئے انبیاء اور رسلؑ کی امامت فرمانی والی ہستیﷺ۔پتھروں کو زبان عطا فرمانے والی ہستیﷺ۔ رب کی جانب سے تقسیم کے منصب پر فائز ہستیﷺ۔جن کے متعلق عاشق رسولﷺ اعلیٰ حضرت احمد رضاخانؒ نے فرمایا تھا کہ خدا چاہتا ہے رضائے محمدﷺ۔ محمد مصطفےﷺ کی رضا اللہ پاک کی رضا، اللہ پاک کی رضا نبی پاکﷺ کی رضا۔ زندگی کو زندگی جس کے توسط سے ملی وہ ہستی نبی پاک ﷺ ہیں۔وہ ہستیﷺ جو ظاہر باطن ہر ہر شے ہر ہر مخلوق کے لیے تا ابد رحمت ہے۔اِس ہستی کے بغیر کائنات رحمت سے خالی ، نعمتوں محروم ، عقل و شعور ادراک آگہی کا منبع ہی تو ہے ذات نبی ﷺ۔اِس ہستیﷺ کے متعلق خالق فرمادیتا ہے کہ جس نے رسول کریمﷺ کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی۔وہ ہستی ﷺجو غزوہ بدر کے معرکے میں یہ کہہ اُٹھی کہ ائے خالق اگر آج یہ تین سو تیرہ بندئے کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئے تو پھر قیامت تک تیرا نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔ کیسا انداز کہ خالق کو اپنے محبوبﷺ کی جانب سے مدد کے لیے پکارا گیا اور خالق نے فرشتوں کو مدد کے لیے بھیج دیا۔رشد و ہدایت کے ایسے منصب پر فائز وہ شخصیت جو اول بھی ہے اور آخر بھی ۔ جیسا رب یکتا ایسی ہی وہ رب کی یکتا مخلوق جس کا کوئی ثانی نہیں۔معبود کی عبدیت کا شعور کائنات میں بانٹنے والی ہستیﷺ۔انسانیت کا بول بالا کرنے والی ہستی۔ بلالِ حبشیؓ کو شہنشاہوں سے بلند رتبے پر متمکن کروانے والی ہستیﷺ، اویس کرنیؓ کی محبوب ہستی، ابو بکر ؑ ،عمرؑ ، عثمانؑ ، ؑ علی، حسنینؓ کی محبوب ہستیﷺ۔کربلا کے میدان میں تجدیدِ دین الہی کی خاطر تاریخ رقم کرنے والے امام عالی مقام امام حسینؓ کی محبوب ہستیؑ ۔ امام جعفرصادقؓ، امام ابو حنیفہؓ،امام احمد بن حنبلؓ، امام شافعی کو علم کے سمندر رب کے توسط سے عطا کروانے والی ہستیﷺ۔صلاح الدین ایوبیؒ ، نوردین زنگیؒ ، محمود غزنویؒ ،محمد بن قاسمؒ ، داتا علی ہجویری ؒ ، خواجہ غریب نوازؒ ، نوشہ گنج بخشؒ ،میاں میرؒ ، میاں وڈا صاحبؒ کے دلوں کو عشقِ حقیقی کا منصب عطا کروانے والی ہستیﷺ۔اب کسی اور کو اپنا غم سُنانا نہیں کملیﷺ والے کے سوا کوئی اور ٹھکانہ نہیں۔یادِ خیرالبشرﷺ کے صدقے ہم زندہ ہیں۔محبوب خداﷺ کے سوا کسی اور کو منانا نہیں۔حضورﷺ کو بخشا ہے رب نے تقسیم کا منصب۔اُنﷺ کے در کے سوالی ہیں کہیں اور جانا نہیں نگاہ کرم ہوکشمیر و فلسطین و برمی مسلمانوں پہ۔آپﷺ کے در کے سوا کہیں اور آنسو بہانا نہیں۔عشق کے تقاضے تو پھر یہ ہی ہیں صاحبو کہ محبوب کے نقش پاء کو اپنی زندگی کا مرکز و محور بنایا جائے۔ صرف زبان سے اقرار کا فی نہیں۔ عمل بھی ہو۔ سماج میں پھیلی کدورتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے عشق نبی پاکﷺ سے استفادہ کیا جائے کہ کوڑا پھینکنے والی بوڑھی خاتون کے گھر کی صفائی کی اور اُسکی تیمارداری بھی کی۔ وادی طائف میں پتھر مار کر لہو لہان کرنے والوں کو دُعا دی۔فرما دیا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے گویا ملاوٹ کرنے والا نبی پاکﷺ کا اُمتی نہیں ہے۔اناج کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے لیے یہ تک کہہ دیا کہ ذخیرہ کرنے بعد اگر اُس مال کو خیرات بھی کردیا جائے تو بھی اُسکا گناہ معاف نہ ہوگا۔فرمادیا محمدﷺ نے کہ جس کے ہاتھ اور پاؤں سے مسلمان محفوظ نہیں وہ بھی مسلمان نہیں۔جب ایک ایک سماجی رویے کے حوالے سے نبی پاکﷺ نے نہ صرف بتا دیا بلکہ عملاً بھی کرکے دیکھایا۔ تو پھر عشقِ نبیﷺ کا دعویٰ کرکے اپنے جیسے انسانوں کا جینا دوبھر کرنے والوں کو تو آقا کریمﷺ نے بتا دیا کہ تم میرئے اُمتی نہیں ہو۔اگر تم میرئے اُمتی ہوتے تو یہ سب کچھ نہ کرتے۔ہمارئے سماج میں عبادات کو ہی دین سمجھ لیا گیا ہے اصل میں تو اِن عبادات کا عمل ہی سارئے دین کی بنیاد ہے۔ہمارئے سماج میں عبادات کو علیحیدہ اور عمال کو علحیدہ کر دیا گیا ہے۔ اِسی وجہ سے لوٹ مار ہوس ہے کہ رُکنے کانام ہی نہیں لے رہی۔عشق رسولﷺ ہی ہماری اول و آخر پناہ ہے اِسی لیے عشقِ رسولﷺ کے تقاضے ہم سے عملی نمونہ چاہتے ہیں۔ کلمہ گو مسلمانوں کو قتل کرنے والے کیا مسلمان ہیں۔عشق رسولﷺ تو امن کی خیرات کا سبق دیتا ہے۔
Friday, 17 July 2015
ندگی سفر اور موت زندگی بے یقین موت پُر یقین اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
زندگی سفر اور موت
زندگی بے یقین موت پُر یقین
اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
زندگی
پھول کی کو نپلیں جب صبح سویرئے شبنم کے قطروں سے وضو کرتی ہیں تو اپنے رب کی شان شان میں رطب للسان ہوتی ہیں۔ کوئل کی من بھاتی آواز ترنم سے فطرت کی تعریف و توصیف کرتی ہے۔صبح صادق کے وقت ہل چلاتے بیل کے گلے کے گھنگروں کی آواز رب کی مدح کرتی ہے تو زندگی مسکرانے لگتی ہے اور رب کی اِس کائنات میں محبتوں اور خلوص کا کارواں رواں دواں رہتا ہے۔زندگی وفا کا دوسرا نام ہے۔زندگی ہی رب کی پہچان کا سبب ہے۔ زندگی میں درپیش نشیب وفراز زندہ ہونے کی علامت ہیں۔ زندگی ماں کی گود، زندگی دادی اماں کی لوری زندگی باپ کا پیار زندگی بہن کی عقیدت زندگی کائنات کی سب سے محبوب ہستی رسالتِ مابﷺ کی وساطت کا سبب۔زندگی لہلہاتے کھیتوں میں اُگنے والے اناج کا پتہ دیتی ہے زندگی پہاڑوں، ریگستانوں، میدانوں میں رقص کرتی ہوئی وہ سہانی خوشبو ہے جوخالقِ کائنات کی عظمتوں کا ادراک بخشتی ہے۔ زندگی فقیر کی درگاہ سے لے کر بادشاہوں کے محلوں کی غلام گردشوں میں گھومنے والی وہ صدا جو سب کی ایک جیسی ہے جس میں نہ ذات کا فرق نہ مذہب کا فرق اور نہ ہی رنگ،امارت اور غربت کا تضاد۔کیونکہ زندگی تو رب کی شان کا ایسا اظہار ہے جس کی وجہ سے ربِ کائنات نے خود کو ظاہر کیا۔ ٭٭٭ سفر
روح پہ لگے کاری زخم ایسا گداز عطا کرتے ہیں کہ وہ زخم زندگی کے معنی تبدیل کردیتے ہیں۔ انسان کی جبلت میں خواہشات کا جو سمندر طوفان اُٹھائے ہوتا ہے اُس کے آگے بند باندھنے کے لیے وہی درد گدازیت کا سبب بنتا ہے جس درد نے انتہاء کی تکلیف میں مبتلا ررکھ چھوڑا ہوتا ہے۔جو لمحات درد کا سبب بنتے ہیں وہ ساعتیں زندگی کا حاصل قرار پاتی ہیں گویا گوہر نایاب کا وجود میں آنا بہت کچھ لُٹ جانے کے بعد ممکن ہو پاتا ہے لیکن فقیر کی صدا تو در حقیت اللہ پاک کی حضوری کے لیے ہوتی ہے۔ اِس میں مادیت کا عنصر نہیں ہوتا۔ فقیر تو بھٹکتی ہوئی راہوں پہ چلتا ہوا اپنا مقصد پالیتا ہے کیونکہ اُس کے اندر فطرت رچی بسی ہوتی ہے۔ فقیر کو ریاضیتیں نہیں بلکہ عشق کی تمازت منزلیں طے کرواتی ہے۔ دکھ میں تکلیف اور خوشی میں طمانیت کا احساس رب کے وجود کے اظہار کی سیڑھی ہے۔ جہاں مثبت اور منفی کھوٹا اور کھرا نئے وجود میں ڈھل جاتا ہے اور قلب میں موجود حدت اُسے بے نیازی کے سفر پہ ڈال دیتی ہے۔ جہاں خیر اور شر کے فرق کہ بات نہیں صرف اور صرف محبوب کی رضا ہی سب بڑا سنگ میل ہوتا ہے۔جس طرح بہار کی نوید خوشیوں کا پیامبر ہوتی ہے اُسی طرح محبوب کی جدائی بھی وصال کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ وصال کے لیے جدائی کے لمحات روح کو آہوں کی سُولی پہ لٹکائے رکھتے ہیں جو کہ روح کے سفر کو عشق کی مے کے ساتھ ہر لمحہ مدہوش رکھتے ہیں پھر وصال اور جدائی میں کچھ فرق محسوس نہیں ہوتا ہے۔پھر میں اور تو کی تمیز ہوا ہو جاتی ہے۔ جو من تن جاری جوروستم کو باعث نعمت سمجھتا ہے اُس من کو ملنا نہ ملنا، جدائی،حجاب کی کیفیات سرشاری سے محروم نہیں کرتیں۔ ٭٭٭
زندگی بے یقین موت پُر یقین
موت کی آمد کے حوالے سے انسانی مزاج اِس طرح کا بنا ہوا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ اُس کے دماغ میں یہ تاثر فروغ پاجاتا ہے کہ اُس کا باپ دادا تو اتنا عرصہ زندہ رہے۔اِس لیے ابھی وہ زندہ رہے گا۔ اُس کی سوچ میں ایک زینہ یہ بھی ہوتا ہے کہ فلاں شخص اتنا بیمار ہے اتنے عرصے سے لیکن وہ ابھی زندہ ہے۔گویا وہ تو صحت مند ہے اِس لیے ابھی کافی وقت پڑا ہوا ہے۔ اِس سوچ سے موت کا ڈر تو برقرار رہتا ہے لیکن موت کے ڈر کی بدولت انسان ہموار راستے کی بجائے غلط راستوں کا راہی بن جاتا ہے۔ وہ اپنے رب کی اطاعت کو چھوڑ کر لالچ زدہ ہوجاتا ہے ایک رب کو منانے کی بجائے کئی رب تخلیق کر لیتا ہے کہیں رب اُسکا روپیہ پیسہ بن جاتا ہے اور کہیں رب اُس کی جھوٹی آن بان شان، کہیں اُس کی عظمت کوٹھی کار بنگلے میں اٹک جاتی ہے اور کبھی ہوس زدہ بن کر مخلوق اور رب دونوں کا نافرمان بن جاتا ہے۔یہ سوچ کہ ابھی میرے مرنے میں وقت ہے اُسے اپنے حقیقی خالق سے دور کردیتی ہے۔ اُسے حقیقی خالق کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔وہ تونوٹ اکھٹے کر رہا ہوتا ہے۔ اولاد کی تربیت تو کجا اُس کی تو اپنی تربیت کسی بھی کھاتے میں نہیں ہوئی تھی۔بوڑھے والدین تو اُس کی اور اُسکی بیوی کی آنکھ میں کانٹے بن کر چھبتے ہیں۔ بڑا گھر بیوی بچوں کے لیے الگ الگ کاریں۔ شاپنگ دبئی میں۔ خواب کی طرح گزر جانے والی زندگی آخر ایک روز اچانک ختم ہوجاتی ہے۔ بیوی بچے باپ کی میت پر آنسو بہانے کے ساتھ مرئے ہوئے کی جائیداد بنک اکاونٹس کی چھینا چھپٹی شروع کر دیتے ہے۔ باپ کی میت قبرستان ابھی پہنچی نہیں ہوتی اولاد جائیداد کے حصے بخرئے کرنے کے لیے آپس میں دست و گریبان ہو چکی ہوتی ہے۔ بیٹوں کی بیویاں بھی اپنے میکے والوں کو بھی اپنی اِس کشمکش میں بطور کمک شامل کر لیتی ہیں۔یوں جس گھر کی خاطر مرنے والے نے بہت سے گھروں کو ڈسٹرب کیا ہوتا ہے وہ گھر اُس کے مرنے کے ساتھ ہی اور دفن ہونے سے پہلے ماچس کی تلیوں کی مانند بکھر جاتا ہے۔جس موت سے آنکھوں چُرائی ہوئی ہوتی ہیں وہ موت کے اتل حقیقت بن کر لمحوں میں اپنے اثرات دیکھا دیتی ہے اور قبرستان کے مکینوں میں ایک نیا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں زندگی بے یقین اور موت یقین کے پردئے میں چھپی ہوئی ہے۔اگر ہم خالق اور اُس کے بندئے کے تعلق کا سرسری سا بھی جائزہ لیں تو یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ بندئے کے جسم پہ موجود ایک ایک بال اُسکے رب کی رحمتوں اور نعمتوں کااحسان ہے۔ انسان کی زندگی میں پیش آنے والے نشیب وفراز قدرت کی جا نب سے اپنے بندئے کی زندگی میں ایک ارتعاش کے حامل ہیں۔ رب کی جانب سے ملی ہوئی سانسیں رب کی اس کائنات میں وقت پورا کرکے عالمِ برزخ کے راستے پہ رواں کر دیتی ہیں۔ انسان کو جوملا ہوتا ہے وہ رب کی ہی تو ہوتا ہے۔ رب اِس جہان میں گزاری ہوئی زندگی کو بے مقصدیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ اِس جہاں کے ایک ایک لمحے کو رب اپنے انداز میں جانچتا ہے اور اپنی ہی بنائی ہوئی مخلوق کو جزا و سزا کے عمل سے گزارتا ہے تاکہ زندگی کی گزری ہوئی ساعتیں بے ثمر قرار نہ پائیں۔ کیونکہ ہر عمل کا ردِ عمل ہے رب نے یہ زندگی کا نظام یونہی کھیل تماشے کے لیے ترتیب نہیں دئے دیا۔ سچائی اور جھوٹ کی قوتیں اپنے اپنے ہونے کی دلالت کرتی ہیں۔ دکھ مصیبتیں جھوٹ کا پلڑا دنیاوی لحاظ سے بھاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ دنیا میں وقت گزارنے والا انسان زندگی کے لیے اپنا معیار بنا لیتا ہے۔ حالانکہ جو اِس ِ زندگی جو خالق ہے اُس کے معیار کے مطابق زندگی بسر ہونی چاہیے۔
پاکستان میں عدم برداشت وروادری کی وجہ خانقاہی نظام کا فعال نہ ہونا ہے, ARTICLE BY ASHRAF ASMI
پاکستان میں عدم برداشت وروادری کی وجہ خانقاہی نظام کا فعال نہ ہونا ہے
ASHRAF ASMI ADVO
پاکستان میں عدم برداشت وروادری کی وجہ خانقاہی نظام کا فعال نہ ہونا ہے
بندئے کا اپنے رب سے تعلق بہار کی طرح کا ہوتا ہے پھول جب تک بہار کے مزئے لوٹ رہا ہوتا ہے وہ مہکتا رہتا ہے جیسے ہی خزاں وارد ہوتی ہے پھول کی پتیاں بکھر جاتی ہیں۔ انسان جب تک اپنے رب سے امید باندھے رکھتا ہے تب تک اُس کے من کی دنیا آباد رہتی ہے جیسے ہی وہ اپنے رب سے ناامید ہوتا ہے اور یاسیت اُس سے روحانی قوت چھین لیتی ہے جس لمحے بھی بندئے کے دل میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ اُس کا یہ کام نہیں ہونا تو گویا وہ اپنے رب کی ربوبیت کوغیر ارادی طور پر ماننے سے انکاری ہوجاتا ہے یوں پھر امید کی کمزوری اُس کے ایمان کو اعتقاد کو اُسکے یقین کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ وہ پھر رب کی رحمتوں کے ہالے سے نکل کر وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے بلکل اِسی طرح جیسے مکڑا جال میں پھنسا ہوتا ہے۔ نہ تو امید بَر آتی ہے اور نہ وسوسے چین لینے دیتے ہیں۔عبادت گاہوں میں خاص اہتمام ہوتا ہے کیا رب کا صرف وہیں قیام ہوتا ہے گھر میں بازار میں دفتر میں کیا ایمان کا کام نہیں ہوتا ہے یونہی مذہب کا نام لے لے کے عقیدتوں کا دم بھر بھر کے عبادت کی رسم ادا ہوتی ہے علم و عمل سے رشتہ محال ہے زر کی ہوس نے اندھا کیا ہوا۔
پاکستان میں مروجہ خانقاہی نظام ملوکیت میں ڈھل چکا ہے؟ آستانے روپے پیسے کی ریل پیل میں اور مرید بھوک کے مارئے ہوئے غلام ابنِ غلام ایک رب پر ایمان کی بجائے ناسمجھی میں کم علمی کی وجہ مرید بھی استحصال شکار ہیں اور اُن کے نذرانے ایسے جگہ جاتے ہیں کہ کاروباری انداز میں چلائی جانے والی خانقاہیں پرائیوٹ لمیٹیڈ کمپنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرئے کے ساتھ نام نہاد پیر بھی اُس دائرئے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں پیسہ ہی ایمان، لوٹ مار استحصال کے لیے نام نہاد پیر بھی روایتی سیاست میں حصہ لے کر اپنے کاروبار چمکاتے ہیں۔ پاکستان میں خانقاہی نظام کی تباہی کی وجہ ہی یہ ہے کہ خود کو سوادِاعظم کہنے والوں کی آواز کہیں بھی نہیں۔ اگر کسی پیر یا مذہبی رہنماء نے رویتی سیاست کا ہی حصہ بننا ہے تو پھر سات دہائیوں سے جو چلا آرہا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا۔آستانے محبت و الفت کے گہوارئے ہوا کرتے تھے لوگ بلاتخصیص اپنے دکھ درد کے حل کے لیے خانقاہ میں بیٹھے اللہ کے نیک بندئے سے رہنمائی لیتے تھے۔ اِن خانقاہوں میں ہر آنے جانے والے کو روٹی ملتی اور روحانیت کی منازل بھی طے ہوتیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ داتا علی ہجویریؒ کو لاہور میں دفن ہوئے ایک ہزارسال ہونے کو ہے۔لیکن اللہ پاک کا فضل ہر ساعت اُن کے دربار پہ جاری و ساری ہے اور اللہ پاک کی خاص رحمتیں نازل ہو تی ہیں۔ لیکن وہ خانقاہیں جہاں باقاعدہ پیری مریدی کا نظام چل رہا ہے وہاں بالکل صورتحال عجیب ہو چکی ہے۔ دین سے محبت رواج و روایات کی نذر ہوچکی ہے۔ عظیم صوفی بزرگوں کی درگاہوں پہ ا یسی ایسی خرافات ہو رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اللہ کا نیک بندہ جہان دفن ہوتا ہے وہاں اللہ پاک کی رحمتوں کا نزول بہت زیاد ہوتا ہے لیکن ہندوانہ رسم رواج عجیب و غریب انداز میں جاری ہے۔دین کی روح کو خانقاہی نظام نے ہی ترویج دی اور برصغیر میں لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا اور پاکستان کو تو اولیا کا ہی فیضان کہا جاتا ہے لیکن اِن اولیاء اکرام کی خانقاہوں کو جس انداز میں کاروبار بنا دیا گیا ہے یہ سلسلہ بہت تکلیف دہ ہے جن درگاہوں سے رسمِ شبیری ادا ہونا تھی وہاں گدیوں کی لڑائیاں جاری ہیں۔اِن حالات میں کہ اُمت کو جہاں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور پوری امت مسلمہ ہمہ گیر زوال و انحطاط کا شکار ہے اِن خانقاہوں سے تو علم وہدائت کے سرچشمے پھوٹنے چاہییں کیلن عملی طور پر ایسا نہیں پارہا۔ جس کی وجہ سے پیٹرو اسلام کی حامل جماعتیں عوام الناس میں فلاحی کاموں کے ذریعے یا دیگر انداز میں نفوس پزیری حاصل کر گئی ہیں۔ گویا پاکستان میں نام نہاد طالبان کی جانب سے دہشت گردی بھی درحقیقت ہمارئے خانقاہی نظام کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔ رُشد و ہدایت کا منبع و مرکز جب اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو پھر لازمی طور پر خلاء پیدا ہوگا اور اِس خلاء نے ہی ہمارئے معاشرئے کو نفرتوں کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ فرقہ واریت، مذہب، زبان، علاقہ کی بنیاد پر گردنیں کا ٹنے کا سلسلہ چلا نکلا۔
فراق و ہجر کی حقیت .................................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ writeen by ashraf asmi advocate
فراق و ہجر کی حقیت
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
عشق اور وصال دونوں ایک دوسرئے کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے۔بلکہ عشق کی حدت کو وصال ٹھنڈا کر دیتا ہے اورہجر عشق کی راہوں کو جلا بخشتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے تعلق میں جومخلوق کو دوری محسوس ہوتی ہے وہی اُس کی طلب میں اضافہ کرتی ہے اور یوں خالق کی عطا پر صابر و شاکر اور خالق کی تلاش میں سرگرداں رہنا مومن کو ہمیشہ عشق کی وادیوں کا مسافر بنائے رکھتا ہے اِس سفر میں ٹھراؤ نہیں ہوتا۔ اگر عشقِ حقیقی کے سفر میں قیام کی حالت رونما ہوجائے تو پھر سفر کی منزل وہیں تکمیل پا جاتی ہے اور یوں عشق اختتام پذیری کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔ایسا قیام ایسا وصال ایسا ٹھراؤ عشق کی موت ہے۔ اِس لیے کہ خالق کے عشق میں رواں دواں رہنا ہی تو بندہ مومن کی وہ صفت ہے جسے شاہین سے مماثلت حاصل ہے۔ شاہین صحرا و دریا، سمندروں پہاڑوں،جنگلوں بیابانوں،شرق و مغرب افریقہ ویورپ، ایشیا ہر جگہ ہی تو اپنی منزل کی تلاش میں خود کو محو پرواز رکھتا ہے اور وہ کسی کے آگے سوال نہیں کرتا خود ہی وہ اپنے اسباب پیدا کرتا ہے اُسے کسی کی منزل کو اپنی منزل کہنا ہی نہیں آتا وہ تو اپنے راستوں میں ہی خود ہی روشن مثال ہوتا ہے۔خالق کا عشق کسی بھی طور اختتام کی جانب سفر نہیں کرتا۔ رب پاک تو اپنے بندئے کو کائنات کی سب سے افضل ترین ہستی بنائے ہوئے ہے۔اور خالق کے عشق کی انتہا یہ ہے کہ نبی پاکﷺ کو ختم الرسلﷺ کا مقام عطا فرما دیا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی بھی ہدایت کا سرچشمہ نہیں ہے۔ گویا نبی پاکﷺ کا خاتم النبینﷺ کے منصب پر موجود ہونا بھی ربِ کائنات کا انسان کے اوپر اپنے بھر پور اعتماد کا مظہر ہے کہ رب پاک نے انسان کو ہی پوری کائنات میں سے اشرف رکھا ہے۔علی ہجویریؒ کا داتا علی ہجویریؒ بننا بھی عشق کی راہ پر مسلسل گامزن رہنے کا سبب ہی تو ہے کہ ایک ہزار سال ہونے کو آیا ہے کہ پوری دنیا علی ہجویریؒ کے تصرفات سے بہرہ مند ہورہی ہے۔صاحب کمال کا سفر نہ تو زندگی کے تابع ہوتا ہے اور نہ ہی موت اُس کے لیے رکاوٹ بنتی ہے۔عشق کاکام تو جاری و ساری رہنا ہی تو ہے۔نبی پاکﷺ کا تاابد پوری کا ئنا ت کے لیے تما م جہانوں کے رحمت ہونا بھی تو اِسی عشق کے سفر کا ہی تو انداز ہے۔ ابوبکر ؓ، عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ کے عشق سے اولیا ء اکرام کا مالامال ہونا بھی توعشق کا سفر ہی تو ہے جمود تو نہیں ہے۔بلال حبشیؓ، اویس کرنیؓ، سلمان فارسیؓ کے عشق کے علمبردار میاں میرؒ، نوشہ گنج بخشؒ، خواجہ غریب نوازؓ،داتا علی ہجویریؒ ہی تو ہیں۔ عشق کا سفر کہاں رُکا ہے اِسی سفر میں تو کائنات کی جان ہے اور اگر عشق کا سفر ہی رُک گیا تو کائنات پُرزہ پُرزہ ہوجائے گی۔امام عالیٰ مقام جناب حضرت امام حسینؓ کی موت کیساحیات کا جام ہے کہ دنیا بھر کی حریت کو جناب امام عالیٰ مقامؓ سے ہی حریت کی میراث مل رہی ہے۔ 1857 سے 1947 تک کے اسلامیان ہندوستان پر ظلم وستم کے دور کے ہوتے ہوئے بھی قحط الرجال کے دور میں بھی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ، اقبال ؒ، محمد علی جناحؒ جیسی عظیم ہستیاں غلامی سے نجات کے لیے جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کو میسر آئیں۔یہ ہی تو ہے وہ عشق جس کا سفر ہر حال ہر دور میں جاری رہتا ہے اِسکے آگے رکاوٹوں کی کیا مجال ہے۔
Friday, 10 July 2015
امرتسر کا جانورام اور محمد بخش۔ تقسیمِ ہند کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ, A STORY WRITTEN BY ASHRAF ASMI , I WITH SPECIAL REFERENCE DIVISION
امرتسر کا جانورام اور محمد بخش۔
تقسیمِ ہند کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی
میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
آم کے درخت پر طوطے میٹھے گیت گا رہے تھے اور ساتھ ہی کنویں سے بیلوں کی جوڑی پانی نکال کرچھوٹی کھتیوں کو سراب کررہی تھی۔جانورام کے ساتھ اُس کی بیوی نیتوبھی کھیتوں میں آج آئی ہوئی تھی۔اُسے آج کچھ تازہ سبزیاں کھیتوں میں سے لینا تھیں۔جانو رام نے اپنے ڈیرئے پہ پہنچ کر بھینسوں کا دودھ دوہنے کے لیے چارہ ڈالا۔جانو رام نے یہ تینوں بھنسیں بڑئے شوق سے پالی تھیں۔ بھوری بھینس میں تو جیسے اُس کی جان تھی۔جانو رام کا باپ مرتے وقت گزارہ قابل زمین جانو رام کے نام کر گیا تھا۔ جانو کی ایک ہی بہن تھی جسے اُس کے باپ چھوٹو رام نے اپنی زندگی میں ہی چار گاؤں چھوڑ کر ایک قصبہ دولت پور کے نام کا تھا وہاں درپن مانڈئے کے ساتھ بیاہ دیا تھا ۔ درپن مانڈئے ساہو کار تھا اور گندم، چاول کی خرید و فروخت کرتا ہے۔ جسے آڑھت کہا جاتا ہے۔
درپن مانڈئے کا بیٹا گوتم اپنے قصبے کا شیر جوان تھا۔ ایک ہی ایک بیٹا تھا درپن مانڈئے کا۔آج گوتم اپنے مامے سے ملنے بیلی پور آرہا تھا اِس لیے نیتو تازہ سبزیاں لینے خود کھیتوں میں جانو رام کے ساتھ ہی آئی ہوئی تھی۔جانو رام کو بھگوان نے ایک بیٹی اور ایک بیٹا عطا کیے تھے بیٹا دو ماہ اور چار دن کے بعدمرگیا تھا۔ بہتیرا روئی تھی نیتو۔ بیٹی بیٹے کے بعد ہوئی تھی اب وہ سولہویں سال میں تھی۔نیتو کو اپنے ننھے معصوم بیٹے کی موت نے بہت عرصہ تکلیف میں رکھا۔ زمانے کے مرہم نے بیٹے کی موت کے زخم کو تھوڑا بہت مندمل کر دیا تھا۔آج گوتم آرہا تھا تو نیتو کے دل کے زخم اپنے بیٹے کی یاد میں پھر ہرئے ہوگئے تھے۔نیتو سوچ رہی تھی کہ اگر بھگوان اُس کے راجیش پتر کو زندہ رکھتا تو وہ اب گوتم سے دو سال ہی چھوٹا ہونا تھا۔گوتم کیساتھ اُس کی ماں بھی آرہی تھی۔ دوپہر کا کھانا اِن لوگوں نے اکھٹے کھانا تھا۔جانو رام نے دو دیسی مرغوں کا گوشت تتار کروایا تھا۔ دہی کے آلو اور بیگن کا بھرتھہ اور دیسی گھی کی روٹیاں خاص طور پر تیار کروائی تھیں۔نیتو نے چار پائیوں پہ نئی چادریں بچھوادیں تھیں۔جانو رام نے اپنی بہن سنیتا کو کہلا بھیجا تھا کہ کافی عرصے سے درپن مانڈئے سے ملاقات نہیں ہوئی وہ کچھ وقت نکال کر آجائے۔سورج جس وقت عین سر پہ تھا کہ دولت پور سے درپن اُسکی ماں سُنیتا اور گوتم اپنے ذاتی ٹانگے پر سوار ہوئے اُنکا رخ بیلی پور کی طرف تھا۔ گھوڑا کیا تھا پوری شاہی سواری تھی۔ آدھے گھنٹے میں ہی وہ دولت پور گاؤں کے اندر داخل ہورہے تھے۔جیسے ہی وہ جانو رام کے گھر کے باہر پہنچے تو جانور رام ، نیتو اور اُن کی بیٹی اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ سُنیتا اپنے بھائی کے قدموں کو چھو نے لگ گئی۔کافی وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے باپو کے گھر آئی تھی۔گوتم کن اکھیوں سے اپنی ماموں زاد ریشم کو دیکھ رہا تھا۔ ریشم کا حسن اُس کے نہ صرف تن پہ تھا بلکہ ریشم تو من کی بھی بہت ہی خوبصورت تھی۔ریشم شرم سے سر جھکا کر کھڑی ہوگئی۔درپن مانڈئے اور جانو رام دیس کی باتیں کرنے لگ گئے۔ درپن مانڈئے نے جب جانو رام کو بتایا کہ مسلمان ہم سے الگ وطن بنانا چاہ رہے ہیں تو جانو رام نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ یہ اُن کا حق ہے۔درپن مانڈئے کسی گہری سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحوں بعد گویا ہوا دیکھو جانو رام ،مسلمانوں کا الگ وطن ہم کیسے برداشت کر پائیں گے ؟ اور بھارت ماتا کی تقسیم کیسے ہونے دیں ؟۔ جانو رام نے خاموشی سادھ لی تھی۔ پھر درپن مانڈھے نے کہا کہ مسلمان تو سات سمندر پار سے آئے تھے اُن کا ہندوستان تو نہیں ہے۔ جانو رام گہری سوچ میں تھا اور آہستہ سے بولا لیکن اِنھی مسلمانوں نے اِسی ہندوستان پر ایک ہزار سال تک بھی تو حکومت کی تھی۔ درپن کو جانو رام کی جانب سے مسلمانوں کی مسلسل وکالت بہت بُری لگ رہی تھی۔درپن نے اونچی آواز میں کہا کہ مسلمانوں نے لوٹ مار بھی تو بہت کی ہے ہمارئے ہندوستان میں۔جانورام درپن کے لہجے سے سمجھ گیا کہ درپن کو جانو رام کی باتیں بہت بُری لگی ہیں۔جانو رام کے آباواجداد امرتسر میں ہی رہے تھے۔ امرتسر میں ہی جانو رام کی بہت جان پہچان تھی۔اُسکی دوستی محمد بخش سے بچپن سے تھی اور وہ اُن کے ساتھ کافی محبت رکھتا تھا۔ جانورام نے کبھی بھی محمد بخش کے ساتھ چھوت چھات والا سلوک نہیں کیا تھا جانو رام ہمیشہ کہا کرتا کہ محمد بخش ہم دوست ہیں یاری میں ایسی باتوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔محمد بخش کی بیلی پور گاؤں میں کریانے کی دکان تھی اور وہ بہت ملنسار اور خدا ترس تھا۔محمد بخش کی بیوی شادی کے ڈیرھ سال بعد ہی فوت ہوگئی تھی اُس کا یک بیٹا دین محمد بیس سال کا ہو چلا تھا وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ دکان پہ ہی ہوتا تھا۔ دن گزررہے تھے گرمیاں جیسے ہی آئیں پتہ چلا کہ انگریز ملک چھوڑ کر جا رہا ہے اور ہندوستان کا بٹوارا ہورہا ہے۔ پاکستان کے نام کی گونج میں بہت شدت آچکی تھی۔ محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے مطالبے میں جان پیدا کر دی تھی۔ اِسی لیے جب تقسیم کی بات چلی تو پتہ چلا کہ امرتسر پاکستان کا حصہ ہے درپن مانڈئے اور نیٹو نے بہتیرا جانو رام کو سمجھایا کہ وہ ہندوستان میں سب مل کر رہیں گے اور امرتسر کو چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن جانو رام کی جان تو گویا امرتسر میں تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ امرتسر پاکستان میں جائے یا ہندوستان اُسے امرتسر کو نہیں چھوڑنا۔ فسادات پھوٹ پڑئے تھے۔ ہندو مسلم قتل و غارت شروع ہو گئی تھی امرتسر میں سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔اسی دوران اعلان ہوگیا کہ امرتسر پاکستان میں نہیں بھارت کا حصہ رہے گا۔ محمد بخش اور اُسکا بیٹا دین محمد فسادات کی لپیٹ میں تھے۔محمد بخش کی دکان کو لوٹ لیا گیا تھا۔ جانو رام نے محمد بخش اور اُسکے بیٹے کو اپنے گھر چھپا لیا تھا۔جانو رام کا خیال تھا کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے وہ محمد بخش اور اُس کے بیٹے کو پاکستان روانہ کردئے گا۔فسادات کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پوری ہندوستان میں پھیل گئی تھیں۔ سنیتا اپنے بھائی جانو رام کی خریت کی بابت بہت فکر مند تھی ۔ وہ لوگ دولت پور سے درپن ماندئے، سُنیتا اور اُن کا بیٹا گوتم اپنے ٹانگے میں سوار رات کے اندھیرئے میں بیلی پور جانو رام کے گھر پہنچ گئے۔رات گہری ہو چکی تھی جب وہ جانو رام کے گھر آئے تو نیتو نے فوراً اُن کے کھانے کا بندوبست کیا۔ سنیتا بھائی اور اُس خاندان کو سلامت دیکھ کر بھگوان کے آگے جھک گئی۔ تھوری دیر کے بعد درپن مانڈئے کو ساتھ والی کوٹھری میں سے کسی کے کھانسے کی آواز ائی تو ۔ جانو رام کا ارنگ اُڑ گیا۔ درپن مانڈئے اور گوتم کہنے لگے کہ کون ہے جانو رام نے کہا کوئی بھی نہیں ہے۔لیکن درپن مانڈئے کا شک دور نہ ہوا تھا۔اُس نے تھوری دیر بعد اُسی کوٹھری کا رخ کیا تو اُسے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔ درپن مانڈئے نے جانو رام کو آواز دی جانو رام یہ کون ہیں ۔ اتنے میں نیتو بھاگی ہوئی آگئی اُس نے ہکلاتے ہوئے کہا کہ یہ محمد بخش اور اُس کا بیٹا ہے جان کے خوف سے چھپے ہیں جلد چلے جائیں گے۔درپن مانڈئے کا خون کھولنے لگا اُس نے ڈنڈا پکڑا اور محمد بخش اور اُسکے بیٹے دین محمد کو مارنے لگ گیا اور ساتھ ہی درپن نے جانو رام کو بھی مارنا شروع کردیا۔ جانور ام کو وہ چیخ چیخ کر کہ رہا تھا کہ تم نے ایک مسلے کو پناہ دی ہے اچھوت کو پناہ دی ہے۔جب جانو رام پر گوتم اور درپن نے ہاتھ اُتھایا تو جانو رام کی بیٹی ریشم چیختی ہوئی اپنے باپ کے ساتھ آکر لگ گئی۔ گوتم نے جانو رام کو مارنے کے لیے ریشم کو الگ کرنا چاہا لیکن ریشم الگ نہ ہوئی۔گوتم ریشم کو اُٹھا کر ساتھ والی کوٹھری میں چھوڑنے آگیا۔ اتنے میں حالات نے پلٹا کھایا دین محمد نے اپنی حفاظت کے لیے کچھ خنجر ساتھ رکھے تھے اُس نے خنجر درپن مانڈئے کے دل کی جگہ مارا درپن مانڈئے تڑپنے لگا۔ گوتم ریشم بدینت ہو چکا تھا اُس نے موقع جانا کہ سب اُدھر مصروف ہیں اُس نے ریشم کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی ٹھان لی ۔ ریشم کی آواز دین محمد تک بھی پہنچ چکی تھی دین محمد نے آکر ریشم کو گوتم سے آزاد کرویا ایک ہی خنجر کا وار گوتم کی گردن پہ لگا اور گوتم وہیں ڈھیر ہوگیا۔ جانو رام کا خون بہت بہہ چکا تھا اُس نے محمد بخش کو کہا محمد بخش تو نیتو ریشم اور میری بہن سنیتا کو لے کر بھاگ جا ،پاکستان چلا جا۔ لیکن دین محمد اور محمد بخش جانو رام کو اِس حالت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ جانو کو اپنے یار محمد بخش کی کمزوری کا پتہ تھا اُ س نے کہا محمد بخش تمھیں اپنے نبیﷺ کا واسطہ اِن کو لے کر جان بچا لے۔ ساتھ دو گھوڑئے بندھے ہوئے ہیں وہ لے جا۔ باہر کافی شور بپا تھا لوٹ مار ہوری تھی۔ محمد بخش اور دین محمد نے تینوں خواتین کو اپنے ساتھ لیا اور گھوڑئے پر سوار ہوگئے تیں دن اور تین راتیں وہ چھپتے چھپاتے لاہور بارڈر پر پہنچ گئے۔بارڈر پر پہنچتے پہنچتے محمد بخش کی حالت غیر ہو گئی تھی۔ اور سنیتا سکھوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔ یوں محمد بخش بارڈر سے چند کوس پہلے ہی اپنے خالق کے پاس چلا گیا اور مرتے وقت اُس نے دین محمد سے قسم لی کہ وہ نیتو اور ریشم کا خیال رکھے گا۔چند دن وہ واہگہ بارڈر میں مہاجرین کے کیمپ میں رہے ۔ نیتو اور ریشم نے اپنی وضع قطع مسلمانوں والی بنالی۔ اِن تینوں کو بھاٹی گیٹ لاہور میں ایک مکان الاٹ کردیا۔نیتو نے ریشم سمیت اسلام قبول کرلیا۔ریشم کی شادی دین محمد سے کردی گئی۔یوں جانو رام کا خاندان اور محمد بخش کا بیٹا ایک ہی خاندان کی صورت میں لاہور میں قیام پذیر رہے۔
Wednesday, 8 July 2015
MUEN KI DUNEAY KI JEET مَن کی دُ نیا کی جیت : خود آگاہی ۔رب شناسی صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ...
MUEN KI DUNEAY KI JEET مَن کی دُ نیا کی جیت : خود آگاہی ۔رب شناسی صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ...: خود آگاہی ۔رب شناسی صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نفسِ باطنی کو خالق کی عطا کے مطابق ڈھال لینا اور زیست کے ایک...
خود آگاہی ۔رب شناسی صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ AN ARTICLE ABOUT THE KUDI
خود آگاہی ۔رب شناسی
صاحبزادہ میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
نفسِ
باطنی کو خالق کی عطا کے مطابق ڈھال لینا اور زیست کے ایک ایک طحے کو
خالق کے حکم پر قربان کردینا یہ بندے کی وہ حالت ہے ۔جو اُسے ہر دُیناوی شے سے بیگانہ کر دیتی ہے ۔اُسے اپنے خالق پر یقین محکم ہوتا ہے ۔اُسکی زندگی میں درپیش کسی طرح کے طوفان اُسے حق کی راہ سے نہیں ہٹا پاتے ۔گویا بندے کا اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجانا اپنے خالق سے آگاہ ہونے کا سب بنتا ہے ۔انسان جب یہ سمجھ لینا ہے ۔کہ اُس کا رب ہی اُس کاصرف رب ہے تو اُس کی زندگی میں کوئی کسک نہیں رہ جاتی ۔وہ خور کو اپنے خالق کی رضا کے تابع بنا لیتا ہے ۔اُسکی نگاہیں اپنی ایک ایک ضرورت کے لئے صرف خالق کی طرف اُٹھی ہیں ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ بندے کا اول اور آ خرمالک صرف اُس کا خدا ہی ہے اپنے آپ کو زندگی کے سفر میں سیدھی راہ کا راہی بنا لینا اور قدرت کی خاطر خود کو خبردار رکھنا ۔انسان کی فطرت میں گناہ کی طرف مِائل ہونا عام سے بات ہے ۔لیکن جب بندہِ مومن کو خود آگاہی ہوجاتی ہے ۔ہمارئے معاشرئے جو تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے اور جس طرح معا شرتی ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے مذہبی فرقہ ورانہ منافرت نے بھائی چارئے امن دوستی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اِسی طرح سیاسی رواداری سے عاری ماحول بھی سوسائٹی کے لیے زہرِ قاتل بنا ہوا ہے۔ جو قوم ایک اللہ پاک کے نام ایک نبی پاکﷺ اور ایک قران پاک کے نام پر بھی اکھٹی نہ ہوپائے اِس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ سرمایہ داروں نام نہاد مذہبی رہنماؤں، سیاسی آقاؤں نے قوم کو جو جس طرح سے اپنے اپنے دائرئے میں یرغمال بنا رکھا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت ہے لیکن اِسی وجہ سے خطے میں بدامنی بھی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ معاشرہ ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔کوئی شخص محفوظ نہیں جان مال کی حُرمت پامال ہوچکی ہے۔ انسانی خون اتنا ارزاں ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شھید ہوچکے ہیں ان میں عام لوگ بھی شامل ہیں اور افوجِ پاکستان کے جانباز بھی ۔بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ اِسی ملک میں لیڈری کرنے والے قاتل اور مقتول کے درمیان فرق روا نہیں رکھے ہوئے۔ ہزاروں معصوم افراد کے قاتل دہشت گردوں کو شھید قرار دیا جارہا ہے قوم کو شدید قسم کی کنفیوزن میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔ پاکستانی ریاست جس طرح کے خطرات سے دوچار ہے یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ اِس کے لیے ایسی لیڈر شپ درکار ہے جو کہ اقتدار کے ایوانوں کی بجائے عوام سے دلی اُنس رکھتی ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں۔ قلندر میلِ تقریر نہ دارد بجز ایں نکتہ اکسیر نہ دارد ازاں کشتِ خرابے حاصلے نیشت کہ آب از خون شبیر ندارد (ارمغانِ حجاز)حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ قلندر لمبی چوڑی تقریر کی طرف رغبت نہیں رکھتا۔سوائے اُس نکتے کہ جو میں تمھارئے لیے کہنے والا ہوں کہ اِس ویران کھیت سے کوئی پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی کہ جس کی حضرت امام حسینؓ(شبیرؓ) کے خون سے آبیاری نہ کی جائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر یا باطل کے مقابلے میں عملاً نکلے بغیر کسی قسم کی عزت اور وقار حاصل نہیں کرسکتے۔جہاد کے حق میں اور باطل کے خلاف زبانی کلامی باتیں کرنے سے تمہاری اجڑی ہوئی دنیا آباد نہیں ہو سکتی اس کا ایک ہی طریقہ ہے جو کہتے ہو اِس پر عمل کرو۔مگو از مدعائے زندگانی ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست من از ذو ق سفر آنگونہ مستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست ( پیام مشرق)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔فرشتہ گرچہ بروں از طلسم افلاک است ، نگاہِ او بتماشائے ایں کف خا ک است (زبوررِعجم)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں فرشتہ اگرچہ انسانوں کی طرح آسمان کے جادو یعنی قوانینِ فطرت سے آزاد ہے ۔اس کے باوجود اس کی نظر مٹھی بھر خاک کے پتلے(انسان) پر ہے یعنی وہ انسان کی رفعت کی طرف دیکھتا ہے جو اُسے عشق کے سوزوگداز کی بدولت حاصل ہے۔ ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم) حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔ زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل،بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری است (زبور عجم) حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عقل جو کچھ تراشتی ہے اُسے لمحہ بہ لمحہ تورتی رہتی ہے کیونکہ وہ درست نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ اب عقل کی باتیں چھوڑ کر عشق اختیار کرلے کیونکہ عشق مسلمان ہے صحیح راستے پر ہے اور عقل برہمن کا زنار ہے یہ کفر کی راہ چلتی ہے عشق معرفتِ حق کی طرف لے جاتا ہے۔ مگو از مدعائے زندگانی،رابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست من از ذو ق سفر آنگونہ مستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست ( پیام مشرق)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔جناب اقبالؒ کی سوچ کاو یہ ادراک تھا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے مردِ مومن کو یہ سبق دیا ہے کہ جس کو تو منزل سمجھ رہا ہے یہ تو پڑاؤ ہے منزل نہیں ہے یہ حیات سکوت کا نام نہیں ، یہ زندگی تو حرکت کا نام ہے اِسی لیے علامہؒ اپنے مقصد سے اتنی لگن رکھتے ہیں کہ وہ ستارون سے آگے جہاں اور بھی ہے کا پیغام دیتے ہیں۔ اقبالؒ کے ہاں مایوسی کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں اقبال بندہِ مومن کو عقلی تقاضوں سے بہت آگے عشق کے میدان میں لے جاتے ہین وہ کہتے ہیں کہ عشق ہی تمھاری منزل ہے۔حتیٰ کہ جنابِ اقبالؒ یہاں تک پکار اُٹھے ہیں کہ وہ انسان کو یہ بتلاتے ہیں کہ کیونکہ تیرے اندر عشق کی وجہ سے سوز و گداز ہے اِس لیے فرشتے آسمانوں کے باسی ہونے کے باوجود انسان کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں۔ اقبالؒ کے خیالات یہ ہیں کہ وہ عمل پر زور دیتے ہیں وہ گفتار کے غازی کی بجائے کردار کے غازی بننے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی فرماتے ہین کہ اگر تم نے دُنیا میں عزت واحترام سے رہنا ہے تو پھر جنابِ حضرت امام حسینؓ کی طرح جہاد کرو اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دو۔ بندہ جب خود کو پہچان لیتا ہے تو پھر اپنے رب کو پہچان لیتا ہے اپنی حقیقت پہچان لیتا ہے ۔ مقصدِ زیست کے حوالے سے پھر ابہام کا شکار نہیں ہوتا۔اُس کی آنکھوں میں اپنے خالق کے علاوہ اورپھر کوئی نہیں جچتا۔زندگی اور موت کے ہونے یا نہ ہونے کی حدود قیود سے ماورا ہوجات ہے۔ خودی تو عرفان خداوندی ہے۔جفا وفا تو بس کیفیات کے نام ہیں۔عشق کی راہ سچی راہ ہوتی ہے۔ بندہ خود کو جو پہچان جاتا ہے۔
Monday, 6 July 2015
کیا ہم ایک خود دار قوم ہیں؟ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ,ashrf asmi advocate is writer of this colum
کیا ہم ایک خود دار قوم ہیں؟
میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
ہمارئے معاشرئے جو تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے اور جس طرح معا شرتی ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے مذہبی فرقہ ورانہ منافرت نے بھائی چارئے امن دوستی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اِسی طرح سیاسی رواداری سے عاری ماحول بھی سوسائٹی کے لیے زہرِ قاتل بنا ہوا ہے۔ جو قوم ایک اللہ پاک کے نام ایک نبی پاکﷺ اور ایک قران پاک کے نام پر بھی اکھٹی نہ ہوپائے اِس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ سرمایہ داروں نام نہاد مذہبی رہنماؤں، سیاسی آقاؤں نے قوم کو جو جس طرح سے اپنے اپنے دائرئے میں یرغمال بنا رکھا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت ہے لیکن اِسی وجہ سے خطے میں بدامنی بھی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ معاشرہ ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔کوئی شخص محفوظ نہیں جان مال کی حُرمت پامال ہوچکی ہے۔ انسانی خون اتنا ارزاں ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شھید ہوچکے ہیں ان میں عام لوگ بھی شامل ہیں اور افوجِ پاکستان کے جانباز بھی ۔بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ اِسی ملک میں لیڈری کرنے والے قاتل اور مقتول کے درمیان فرق روا نہیں رکھے ہوئے۔ ہزاروں معصوم افراد کے قاتل دہشت گردوں کو شھید قرار دیا جارہا ہے قوم کو شدید قسم کی کنفیوزن میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔ پاکستانی ریاست جس طرح کے خطرات سے دوچار ہے یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ اِس کے لیے ایسی لیڈر شپ درکار ہے جو کہ اقتدار کے ایوانوں کی بجائے عوام سے دلی اُنس رکھتی ہو۔
موجودہ حالات میں اقبالؒ کی فکر کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اقبال ؒ اللہ پاک کے بتائے ہوئے رستے ہر چلنے میں ہی مسلمانوں کی فلاح سمجھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
قلندر میلِ تقریر نہ دارد
بجز ایں نکتہ اکسیر نہ دارد
ازاں کشتِ خرابے حاصلے نیشت
کہ آب از خون شبیر ندارد (ارمغانِ حجاز)
حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ قلندر لمبی چوڑی تقریر کی طرف رغبت نہیں رکھتا۔سوائے اُس نکتے کہ جو میں تمھارئے لیے کہنے والا ہوں کہ اِس ویران کھیت سے کوئی پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی کہ جس کی حضرت امام حسینؓ(شبیرؓ) کے خون سے آبیاری نہ کی جائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر یا باطل کے مقابلے میں عملاً نکلے بغیر کسی قسم کی عزت اور وقار حاصل نہیں کرسکتے۔جہاد کے حق میں اور باطل کے خلاف زبانی کلامی باتیں کرنے سے تمہاری اجڑی ہوئی دنیا آباد نہیں ہو سکتی اس کا ایک ہی طریقہ ہے جو کہتے ہو اِس پر عمل کرو۔
مگو از مدعائے زندگانی
ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست
من از ذو ق سفر آنگونہ مستم
کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست
( پیام مشرق)
حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔
فرشتہ گرچہ بروں از طلسم افلاک است
نگاہِ او بتماشائے ایں کف خا ک است (زبوررِعجم)
حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں فرشتہ اگرچہ انسانوں کی طرح آسمان کے جادو یعنی قوانینِ فطرت سے آزاد ہے ۔اس کے باوجود اس کی نظر مٹھی بھر خاک کے پتلے(انسان) پر ہے یعنی وہ انسان کی رفعت کی طرف دیکھتا ہے جو اُسے عشق کے سوزوگداز کی بدولت حاصل ہے۔
ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است
وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم)
حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔
زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل
بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری است (زبور عجم)
حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عقل جو کچھ تراشتی ہے اُسے لمحہ بہ لمحہ تورتی رہتی ہے کیونکہ وہ درست نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ اب عقل کی باتیں چھوڑ کر عشق اختیار کرلے کیونکہ عشق مسلمان ہے صحیح راستے پر ہے اور عقل برہمن کا زنار ہے یہ کفر کی راہ چلتی ہے عشق معرفتِ حق کی طرف لے جاتا ہے۔
مگو از مدعائے زندگانی
ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست
من از ذو ق سفر آنگونہ مستم
کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست
( پیام مشرق)
حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کرِ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔جناب اقبالؒ کی سوچ کاو یہ ادراک تھا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے مردِ مومن کو یہ سبق دیا ہے کہ جس کو تو منزل سمجھ رہا ہے یہ تو پڑاؤ ہے منزل نہیں ہے یہ حیات سکوت کا نام نہیں ، یہ زندگی تو حرکت کا نام ہے اِسی لیے علامہؒ اپنے مقصد سے اتنی لگن رکھتے ہیں کہ وہ ستارون سے آگے جہاں اور بھی ہے کا پیغام دیتے ہیں۔ اقبالؒ کے ہاں مایوسی کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں اقبال بندہِ مومن کو عقلی تقاضوں سے بہت آگے عشق کے میدان میں لے جاتے ہین وہ کہتے ہیں کہ عشق ہی تمھاری منزل ہے۔حتیٰ کہ جنابِ اقبالؒ یہاں تک پکار اُٹھے ہیں کہ وہ انسان کو یہ بتلاتے ہیں کہ کیونکہ تیرے اندر عشق کی وجہ سے سوز و گداز ہے اِس لیے فرشتے آسمانوں کے باسی ہونے کے باوجود انسان کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں۔ اقبالؒ کے خیالات یہ ہیں کہ وہ عمل پر زور دیتے ہیں وہ گفتار کے غازی کی بجائے کردار کے غازی بننے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی فرماتے ہین کہ اگر تم نے دُنیا میں عزت واحترام سے رہنا ہے تو پھر جنابِ حضرت امام حسینؓ کی طرح جہاد کرو اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دو۔قوموں کی زندگی میں لیڈرشپ کا بہت اہم کردار ہوا کرتا ہے۔جس قوم میں اعلیٰ قومی قیادت موجود ہو اُس قوم کو ہر طرح کے خطرات سے نبردآزما ہونے کی ہمت مل جاتی ہے۔ گویا قومی سطح پر قیادت ہی پوری قوم کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہوتی ہے ہر کس و نا کس کی رائے کا احترام کرنا بھی درحقیت لیڈر شپ کا کمال ہوتا ہے۔موجودہ دور کو قحط الرجال کا دور کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا۔پاکستان کے سیاسی سفر کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ اور حضرت اقبالؒ کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اسکندر مرزا، غلام محمد، ایوب خان۔ یحیےٰ خان، بھٹو، ضیاء ا لحق، مشرف وہ کردار ہیں جن کی وجہ سے ہماری قومی زندگی کو بہت سے کڑئے ادوار سے گزرنا پڑا۔دُنیا بھر میں اُنھی قوموں نے معاشی ، سماجی، عمرانی، اخلاقی ترقی کی منازل طے کی ہیں جن کی قومی قیادت نے اُن کی بروقت رہنمائی کی نہ کہ ہماری سیاسی قیادتوں کی طرح قوم کو لوٹا۔ حیرت ہے کہ جب راہبر ہی راہزن بن جائیں تو پھر اُس قوم کا حشر وہی ہوتا ہے جو بھیڑیا میمنے کا کرتا ہے۔ہماری قومی زندگی جو کے حادثات کا شاخسانہ بنی پڑی ہے اِس میں امن و سکون اور شانتی ناپید ہے۔ سیاسی تماشبینوں کے ہاتھ جمہوریت اور اسلام کے الفاظ ہیں جس سے وہ قوم کو دھوکہ دیتے ہیں۔ رہی سہی کسر فوجی مارشل لاء پوری کرے رہے ہیں۔ اس سے بڑی بد نصیبی اور کیا ہو گی کہ ہر آنے والا حکمران اپنے پیشرو کو گالیوں سے نوازتا ہے اور خود کو پارساء اور عوام کا خیرخواہ گردانتا ہے۔ کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب حضرت اقبالؒ اور قائد اعظمؒ نے دیکھا تھا۔ ہماری قومی سوچ اس لیے نہیں بن سکی کہ قوم کو باوقار قومی قیادت میسر نہیں آسکی۔ کراچی کے حالات، خون کی ارزانی، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اقبالؒ کے پاکستان میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے سبب ہمیں بطور قوم بہت ذمہ دار ہونا چاہیے لیکن قومی مفادات کو تو پسِ پشت ڈال کر حکمران عوام کا لہو چوس رہے ہیں اور پوری قوم کو غربت کے منحوس چکر میں پھنسا رکھا ہے۔حضرتَ علامہ اقبال مسلمانِان َ عالم کے لیے وہ مینارہ نور ہیں جن کی بدولت بیسویں صدی میں جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے ایک عظیم وطن پاکستان حاصل کیا تھا۔ اقبالؒ کی شاعری درحقیت انسانیت کے لیے ہمت اور حوصلے کی علامت ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں نے پِسی ہوئی قوم ہونے کے باوجود انگریز اور ہندو کی غلامی سے نجات حاصل کی اسی لیے حضرت قائد اعظم ؒ نے اقبالؒ کو یہ کہہ کر خراجِ عقیدت پیش کیا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے حضرت علامہ ا قبالؒ کی زیرِقیادت بطور ایک سپاہی کے کام کیا ہے۔ اسی لیے جب پاکستان بن گیا تو حضرت قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ کاش حضرت اقبالؒ اس وقت ہوتے تو اُنہیں علحیدہ وطن کے اپنے خواب کی تکمیل پر بہت خوشی ہوتی۔ اقبالؒ سرمایہ دارنہ اور سوشلزم کے حق میں نہ تھے بلکہ وہ ایک صوفی منش انسان تھے اور نبی پاکﷺ کی سنتِ مطہرہ کو ہی تمام مسائل کا حل گردانتے۔ حضرتِ اقبال کا پیغام لوٹ کھسوٹ اور ظالمانہ نظام کے خلاف اُٹھ کھڑئے ہونے کا ہے۔ اس لیے حضرتِ اقبال پاکستانی قوم کے صرف قومی شاعر ہی نہیں درحقیت وہ ایک بہت بڑے انقلابی رہنما تھے اور اُن کی سوچ کا واضع اثر قیام پاکستان کی صورت میں موجود ہے۔ اقبال جیسے عظیم انسان کو رب تعالیٰ نے ایسی اوصافِ حمیدہ سے سرفراز فرمایا تھا جس کی بدولت آپ کو پوری دُنیا کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا گہرا ادراک تھا اور وہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک اُمتِ مسلمہ کے زوال و انحطاط پر مغموم رہتے۔ پاکستانی معاشرے سے جھوٹ، نفرت، چوربازاری،اقربا پروری کو ختم کرکے اور سچائی کو فروخ دے کر ہم اکیسویں صدی کے پاکستان کو ایک عظیم فلا حی مملکت بنا سکتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں نے تعلیم کو کئی طبقاتی حصوں میں تقسیم کررکھا ہے وجہ ا س کی صرف یہ ہی ہے کہ ریاست نے عوام کو بے یارومدد گار چھوڑ رکھا ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ اقرباء پروری ہر شعبے میں پائی جا رہی ہے۔ کیا یہ عام انسانوں کے رہنے کا ملک ہے کیا اس ملک میں سچ کا بول بالا ہے کیا اس ملک میں انصاف ملتا ہے۔ کیا اس ملک میں مساوات ہے کیا اس ملک میں امن ہے۔ کیا غریب امیر یکساں حقوق کے حامل ہیں اگر یہ سب کچھ نہیں اور یقینی طور پر ایسا نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملک عام انسانوں کے لیے نہیں بلکہ یہ تو اشرافیہ کے لیے بنا تھا اور اشرافیہ اٹھانوے فی صد عوام کو ایک ریوڑ کی مانند ہانک رہی ۔ قائد اور اقبال نے ایک بکھری ہوئی قوم کو متحد کیا لیکن افسوس ہمارے ا حکمرانوں نے ایک پُرعزم قوم کو ریوڑ بنا کے رکھ دیا۔ ہمارے قومی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن مجال ہے کہ اقبالؒ کے خواب کو ٹوٹنے سے بچانے کی خاطر کوئی راہ عمل میں آئے۔ اے رب
کا ئنات ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے اور ہمیں مخلص اورسچی قومی قیادت فراہم کردے کیونکہ تو ہر عمل پر قادر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ گزشتہ دو دہائیوں سے سماجی قانونی معاشی موضوعات پر لکھتے ہیں ہائی کورٹ میں وکالت کرتے ہیں برصغیر کی عظیم روحانی شخصیت حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہورکے خانوادے سے تعلق ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)