فراق اور چاہت
اشرف عاصمی
چاہتوں کے سمندر کی آرزو میں سرگرداں رہنے کی سعی عاشق اور محبوب دونوں کے لیے امتحان ہے۔ عشق کا مطلب اپنی ذات کی نفی اور محبوب کی طلب ہے۔ جب اپنے آپ کو ہی سر بلند رکھنے کی حرص پیدا ہو جائے تو وہ پھر عشق نہیں بلکہ کاروبا ر بن جاتا ہے۔ اور عشق کی دکانداری ہونا شروع ہوجاتی ہے پھر نہ تو راہبر کی تکریم پیش نظر رہتی ہے اور نہ ہی اُس کی چاہت کی شدت کا سفر جاری رہتا ہے ۔ یوں عاشق ہونے کا دعویٰ ہو ا ہوجاتا ہے۔محبوب تک پہنچ تو دور کی بات عاشق توخود تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔محبوب کو بھی عاشق کے جذبات کی لوٰ کی حدت کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ امتحان اکیلے عاشق کا نہیں محبوب کا بھی ہوتا ہے۔ محبوب کا امتحان عاشق سے کئی گُنا زیادہ کڑھا ہوتا ہے۔ عاشق نے اپنے محبوب کو خود میں پناہ جو دینا ہوتی ہے۔فراق کی کیفیت جب پوری طرح انسان پر آشکار ہوجاتی ہے تو پھر جدائی کازخم خود آگاہی کے مرہم میں ڈھل جاتا ہے ۔یوں درد کا رشتہ منزلیں طے کرتا روح کی بالیدگی کا سبب بنتا اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ اِس سفر کی کوئی حد نہیں ۔حد تو اُسکی ہوتی ہو جس کا شمار کیا جاسکتا ہو۔ عشق کا شمار کرنا تو کُجا یہ سوچنا بھی کہ عشق کے معاملے کیا ہیں عشق و فاقہ مستی کے پُر پیچ راستوں کی تقدیس کے منافی عمل ہے۔ اِس لیے فرقت کی ساعتیں، خودی کی جلوتوں سے آراستہ ہوتے ہوئے اپنے آنے والے کل کو آج میں ڈھال لیتی ہیں۔