Saturday, 28 November 2015

فراق اور چاہت اشرف عاصمی..Fraq aur Cheaet.. by ashraf asmi







































فراق اور چاہت
اشرف عاصمی

چاہتوں کے سمندر کی آرزو میں سرگرداں رہنے کی سعی عاشق اور محبوب دونوں کے لیے امتحان ہے۔ عشق کا مطلب اپنی ذات کی نفی اور محبوب کی طلب ہے۔ جب اپنے آپ کو ہی سر بلند رکھنے کی حرص پیدا ہو جائے تو وہ پھر عشق نہیں بلکہ کاروبا ر بن جاتا ہے۔ اور عشق کی دکانداری ہونا شروع ہوجاتی ہے پھر نہ تو راہبر کی تکریم پیش نظر رہتی ہے اور نہ ہی اُس کی چاہت کی شدت کا سفر جاری رہتا ہے ۔ یوں عاشق ہونے کا دعویٰ ہو ا ہوجاتا ہے۔محبوب تک پہنچ تو دور کی بات عاشق توخود تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔محبوب کو بھی عاشق کے جذبات کی لوٰ کی حدت کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ امتحان اکیلے عاشق کا نہیں محبوب کا بھی ہوتا ہے۔ محبوب کا امتحان عاشق سے کئی گُنا زیادہ کڑھا ہوتا ہے۔ عاشق نے اپنے محبوب کو خود میں پناہ جو دینا ہوتی ہے۔فراق کی کیفیت جب پوری طرح انسان پر آشکار ہوجاتی ہے تو پھر جدائی کازخم خود آگاہی کے مرہم میں ڈھل جاتا ہے ۔یوں درد کا رشتہ منزلیں طے کرتا روح کی بالیدگی کا سبب بنتا اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ اِس سفر کی کوئی حد نہیں ۔حد تو اُسکی ہوتی ہو جس کا شمار کیا جاسکتا ہو۔ عشق کا شمار کرنا تو کُجا یہ سوچنا بھی کہ عشق کے معاملے کیا ہیں عشق و فاقہ مستی کے پُر پیچ راستوں کی تقدیس کے منافی عمل ہے۔ اِس لیے فرقت کی ساعتیں، خودی کی جلوتوں سے آراستہ ہوتے ہوئے اپنے آنے والے کل کو آج میں ڈھال لیتی ہیں۔








........چاہتوں کے سمندر کے باسی .....اشرف عاصمی کے زیر طبع ناول خواہشوں کا سمندر سے اقتباس



چاہتوں کے سمندر کے باسی

چاہتوں کے سمندر کی آرزو میں سرگرداں رہنے کی سعی عاشق اور محبوب دونوں کے لیے امتحان ہے۔ عشق کا مطلب اپنی ذات کی نفی اور محبوب کی طلب ہے۔ جب اپنے آپ کو ہی سر بلند رکھنے کی حرص پیدا ہو جائے تو وہ پھر عشق نہیں بلکہ کاروبا ر بن جاتا ہے۔ اور عشق کی دکانداری ہونا شروع ہوجاتی ہے پھر نہ تو راہبر کی تکریم پیش نظر رہتی ہے اور نہ ہی اُس کی چاہت کی شدت کا سفر جاری رہتا ہے ۔ یوں عاشق ہونے کا دعویٰ ہو ا ہوجاتا ہے۔محبوب تک پہنچ تو دور کی بات عاشق توخود تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔محبوب کو بھی عاشق کے جذبات کی لوٰ کی حدت کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ امتحان اکیلے عاشق کا نہیں محبوب کا بھی ہوتا ہے۔ محبوب کا امتحان عاشق سے کئی گُنا زیادہ کڑھا ہوتا ہے۔ عاشق نے اپنے محبوب کو خود میں پناہ جو دینا ہوتی ہے۔ 

اشرف عاصمی کے زیر طبع ناول خواہشوں کا سمندر سے اقتباس

Monday, 9 November 2015

صاحبزادہ اشرف عاصم. an article by ashraf asmi advocate مصطفائی رنگ


مصطفائی رنگ 

صاحبزادہ اشرف عاصمی

زندگی کے تھوڑئے سے عرصے کو چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی خاطر سوہانِ روح بنانے کی بجائے اِن لمحات کو حیوانوں کی بجائے اگر انسانی انداز میں ہی گزار لیا جائے توانسان کامیاب ہوسکتا ہے ۔کامیابی کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ کس طرح اپنا وقت صرف کیا گیا۔کائنات کروڑوں سالوں سے قائم ہے اور اِن کروڑوں سالوں میں سے سو پچاس سال کی زندگی انسان کو عطا ہوتی ہے ۔زندگی کو قائم ہوئے کروڑوں سال بیت گئے ہیں اور اِس زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ یہ عارضی ترین شے ہے اور اِس کا خاتمہ کسی لمحے بھی ہو سکتا ہے۔حسن کا پرستار بننا، دولت کے انبار اکھٹے کرنا، دہشت و ظلم پھیلانا لیکن نتیجہ یہ ہی ہے کہ دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو مال اسباب و جائیداد کو ساتھ لے کر اپنی اصلی منزل قبر میں گیا ہو۔ اربوں انسانوں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں نے اپنا مال ساتھ لے لیا ہے۔ انسانی زندگی کے ختم ہونے کے بعد ہمیشہ اُسی کی بات ہوتی ہے جس کے بود و باش اچھے رہے ہوں۔گویا انسان مر جاتا ہے لیکن اُس کا کردار زندہ رہ جاتا ہے اور جس نے مال و اسباب کی بجائے انسانوں سے محبت کی ہوتی ہے اُس نے خالق کی منشاء حاصل کر لی ہوتی ہے۔ جو اپنے خالق کی رضا حاصل کر لیتا ہے۔ اُس کی زندگی کو رائیگاں نہیں کہا جاتا بلکہ یہی صدا اُس کے لیے بلند ہوتی ہے کہ کہ وہ سراغ زندگی پا گیا اُس کا کردار حیات جاوداں کا جام پی لیتا ہے اور پھر اُس کی یاد اُس کے افعال امر ہو جاتے ہیں جیسے سید داتا علی ہجویریؒ ایک ہزار سال پہلے لاہور میں دفن ہوئے لیکن اللہ پاک کی رحمتوں کا نزول اُن کی قبر اطہر پہ جاری و ساری ہے اور اُن کا فیض جاری ہے۔ سید علی ہجویریؒ اللہ کے پاکباز بندئے تھے وفات پاء گئے لیکن اُن کے نام کا ڈنکا ایسے بج رہا ہے جیسے وہ زندہ ہیں۔بندہِ مومن جب خالق کی عطا حاصل کرلیتا ہے اور اپنے فرائض ادا کرتا ہے تو اِس کے لیے سب سے بڑا انعام خالق کے لیے یہ ہی ہوتا ہے کہ خالق اُس کے نام کو بلند کر دیتا ہے۔مصطفے کریمﷺ کی اطاعت کی زندگی مصطفائی رنگ جوچڑھا دیتی ہے بندئے پر۔وہ پھر داتا علی ہجویریؒ ،خواجہ غریب نوازؒ بن جاتا ہے۔روحانیت صرف اُس روح پر آشکار ہوتی ہے جو پاکیزہ ہو،حرص سے دور ہو، جسے دنیاوی جاہ و حشمت کی طلب نہ ہو۔ جو انانیت کے بت کی قید میں نہ ہو۔وہی پھر خواجہ غریب نواز ہوجاتا ہے۔زمانے کی ٹھوکریں انسان کو کندن بنادیتی ہیں اور انسان زندہ ہو یا مرجائے اُس کی قسمت کا ستارہ اُسے نایاب بنائے ہوئے ہوتا ہے۔جس طرح حضرت غالب نے کہا تھا کہ کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں۔ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں۔اِس لیے یہ کسوٹی قرار پاتی ہے کہ جو اچھا ہو گا دنیا اُسے برا قرار دیتی ہے اور یوں پھر اچھوں کو زہر کا پیالہ پینا پڑ جاتا ہے۔غربت،امارت دونوں حالتیں انسان کے لیے امتحان گاہ ہیں۔ غربت میں رب کا شکر بجا لانا اور اپنی قسمت پر شاکر رہنا اور امارت میں رب کا احسان مند رہنا اور ظالم نہ بننا۔فی زمانہ تعصب کی انتہاء کی وجہ انسانیت کا ناپید ہوجاتا اِس بات کی دلالت ہے کہ ہوس نے چاروں جانب ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔