ندہِ مومن کی دُعا۔ خالق کی رضا an article written by ashraf asmi
بندہِ مومن کی دُعا۔ خالق کی رضا
دُعا کی قبولیت کے حوالے سے عام طور پر یہ ہی تاثر پایا جاتا ہے کہ ہماری دُعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں شائد رب پاک ہم سے ناراض ہے۔ یا پھر یہ سوال اُ ٹھتا ہے کہ جناب ہماری تو قسمت ہی خراب ہے۔ ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ جی میرئے فلاں رشتے دار نے مجھ پر جادو کر دیا ہے۔بات یہاں تک نہیں رہتی بلکہ یاسیت کا یہ عالم ہو جاتاہے کہ انسان اپنے وجود کو ہی اِس زمین پہ بھاری محسوس کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں مادیت سے محبت اور روحانی اقدار سے دوری نے رب پاک پر بندئے کے اعتقاد کو اتنی بُری طرح کمزور کردیا ہے کہ رب پاک کے متعلق یہ گمان بندہ پیدا کر لیتا ہے کہ نہ معلوم ہماری دُعا کوئی سُنے گا یا نہیں۔بندے کی جانب سے اپنے خالق کے متعلق یہ گمان کہ نہ جانے اُس کی دعا سنی بھی جائے گی یا نہیں۔ اِس طرح کا رویہ اِس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم اپنے رب کو سمجھ کیوں نہیں پا رہے ۔عقیدہ توحید کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اپنے من کو وسوسوں سے پاک کر لیں۔اگر ہم نے رب کو سمجھا اور ماناہی نہیں تو پھر توحید کا مطلب تو سمجھ میں نہیں آیا۔ اللہ پاک فرماتا ہے کہ کہو کہ ا للہ ایک ہے نہ تو وہ کسی کا باپ ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا اور اُس کا کوئی ہم سر یا ثانی نہیں۔ اب اگر ہم اپنے رب کی بیان کردہ صفات کو دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رب کارساز ہے رب تنکے سے لے کر پہاڑ تک کا خالق بھی ہے اور مالک بھی ہے۔ پوری کائنات میں جسے بھی زوال ہے یا جسے بھی عروج ہے وہ رب پاک کی مرضی سے ہی ہے۔دُعا کی قبولیت تو تب ہی ہو سکتی ہے کہ جس سے مانگا جا رہا ہے اُس کے متعلق دعا مانگنے والے کا ذہنی طور پر قائل ہونا ضروری ہے۔ جب دُعا مانگتے وقت ہی انسان کی یہ کیفیت ہو کہ پتہ نہیں قبول بھی ہو گی یا نہیں تو اِس کا مطلب اعتقاد نہیں ہے کہ جس سے دعا مانگی جارہی ہے وہ عطا کرسکتا ہے۔جب مسافر کو منزل تک پہنچنے کا یقین ہی نہ ہو تو پھر اُس کے اندر وہ جذبہ ہی نہیں پیدا ہوتا جو اُس کو منزل تک پہنچانے کے اسباب کی تلاش کرنے کی سعی پیدا کرتا ہے۔جب بندہ دعا مانگتا ہے اور اُس کے اندر یہ جذبہ موجذن ہوتا ہے کہ اُس کی دعا قبول کرنے والا اُس کو سن رہا ہے اور اُس کی دُعا پوری کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے یقینی طور پر اِس جذبے کے اندر پھر تڑپ بھی پیدا ہو جاتی ہے اور چاہت بھی ۔ رب کی عنائتوں پہ مکمل ایمان دُعا کی قبولیت کا باعث بن جاتا ہے۔ وسوسوں چونکہ چنا چہ ایسا نہ ہوجائے یہ ہوگیا تو پھر کیا ہوگا اس طرح کے خیالات بندئے کے رب سے تعلق کو کمزور کر دیتے ہیں اور یوں رب کو مکمل طور پر اُس کو اُسکی صفات کا حامل نہ سمجھ پانا ۔ ہمارے ایمان کی کمزوری بن جاتا ہے یوں جب جس سے مانگا جارہا ہے اُس کے متعلق ہم یہ یقین ہی نہیں رکھتے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے تو پھر دعا قبول کیسے ہوگی۔جب بندہ کسی منزل کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے اور اُس کے لیے اپنے تمام اسباب کو بروئے کار لاتا ہے اور انتھک کو شش کرتا ہے اُس کے سامنے یہ مقصد ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی منزل کو حاصل کر نا ہی ہے اور اُس کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اُس کا کام تو کوشش کرنا ہے اصل کام تو رب کی جانب سے ہونا ہے جوقادرِمطلق ہے یہ بھروسہ ہی بندئے کو اپنی منزل تک لے جاتا ہے۔ بھروسہ کیے بغیر کچھ نہیں ہو پاتا۔اور اگر منزل تک پہنچنے کا یقین نہ ہو تو پھر بندئے کے اندر منزل کے حصول کی تڑپ کم ہو جاتی ہے جو اُس کو مطلوبہ معیار تک نہیں جا نے دیتی اور انسان راستے میں ہی ہچکولے کھانے لگتا ہے۔بات ساری اعتقاد کی پختگی کی ہے کہ بندے کا رب پر اعتقاد کیسا ہے۔بندہ رب کو خد ا سمجھے ناخدا نہ سمجھے کہ کشتی کنارئے تک جانی ہے یا نہیں۔ خالق انسان کے گمان کی طرح ہے جس طرح کی سوچ ہم اپنے خالق کے متعلق رکھیں گے اُسی طرح کی فیوض و برکات کا حصول ممکن ہو گا۔اگر ہم اپنی زندگی کا مرکز و محور اپنے خالق اور خالق کے محبوب نبی پاکﷺ کو بنالیں تو پھر تصور فرمالیں جب رب اور رب کے محبوب نبی پاکﷺ ہماری ہر سوچ ہر ساعت ہر عمل میں رہنماء ہوں تو پھر ہماری تدبیر تقدیر بن جاتی ہے پھر ہماری دُعا خالق کی رضا بن جاتی ہے۔خالق ہماری آنکھ بن جاتا ہے جب بندے کی آنکھ خالق کی آنکھ کا روپ دھار لیتی ہے تب پھر دُعا کی قبولیت کا عالم کیا ہوگا۔بندہِ مومن کے دل میں عشقِ رسول پاکﷺ وہ نور بھر دیتا ہے کہ خالق اپنے محبوب نبی پاک ﷺ سے محبت کرنے والوں کی دُعا کی لاج رکھ لیتا ہے۔ اسلام دین ہی اطا عت کا نام ہے ۔دراصل بات ہے بھی ساری اطاعت کی عبادات بھی تو خالق کے اندر اپنے رب کی اطاعت کا شعور بخشتی ہیں۔خالق کے بندئے سے محبت اِس شعور کو اِس نہج پر لے جاتی ہے کہ بندہ پھر داتا علی ہجویریؒ ،معین الدین چشتی ، میاں میرؒ ۔ نوشہ گنج بخشؒ بن جاتا ہے جو پھر خالق کی خلقت کی محبت میں خالق سے تعلق کی اُس نہج پہ پہنچ جاتا ہے کہ خالق اُس کی دعا اور رضا کو رد نہیں کرتا۔
No comments:
Post a Comment