۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنا بچپن اپنے ماموں جان حضرت حکیم عنائت قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ گزارہ۔گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودہا سے بی کام کیا۔ معاشیات ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ایجوکیشن میں ماسٹرزکیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور ایل ایل ایم کریمنالوجی کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ اسلاملک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ ۔ ۔
Saturday, 27 June 2015
MUEN KI DUNEAY KI JEET مَن کی دُ نیا کی جیت : فقر ۔سکون کی وادی صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ا...
MUEN KI DUNEAY KI JEET مَن کی دُ نیا کی جیت : فقر ۔سکون کی وادی صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ا...: فقر ۔سکون کی وادی صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ فقر بندئے کو اپنے خالق کے اتنا قریب کر دیتا ہے کہ بندئے کی خواہشا...
فقر ۔سکون کی وادی صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ.men ki duneaa ki jeet mein shamel article.
فقر ۔سکون کی وادی
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
فقر بندئے کو اپنے خالق کے اتنا قریب کر دیتا ہے کہ بندئے کی خواہشاتِ نفسانی کا وجود ہی مٹ جاتا ہے۔ رب کے نیک بندے ہمیشہ دنیاوی جاہ حشمت سے دور رہتے ہیں۔ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے کمائی کرنا ناممکن ہے کیونکہ آخرت میں رب پاک کی رضا کا حصول اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ رب پاک سے اور رب کی مخلوق سے تعلق اِس طرح کا استوار رکھا گیا ہو۔ جیسے رب کی رضا ہے۔ فقیر کا من اور تن ایک جیسا ہو جاتا ہے۔ظاہری اور پوشیدہ معاملات ایک دوسرئے کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں ۔جب خواہشات رب کی رضا پہ قربان ہو جاتی ہیں تو پھر بندئے کی رضا ہی رب کی رضا ٹھرتی ہے۔انسان پر رب بوجھ اُتنا ہی ڈالتا ہے جتنا اُس کے اندر اُٹھانے کی سکت ہو۔ خالق تو بندئے سے محبت کرتا ہے وہ تکلیف کیسے اپنے بندئے کو دئے سکتا ہے۔انسانی احتیاجات کا تعلق اُس کی جبلت کے ساتھ ہے بندئے کی یہ جبلت ہے کہ وہ ایک غرض پوری ہوتی ہے تو پھر کوئی اور غرض نمودار ہوجاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ تاوقتیکہ موت کی وادی اپنی آغوش میں بندے کو نہ لے لے۔ خالق کی رحمتیں نوازشیں تو شمار نہیں کی جاسکتیں اور خالق انسان کو عطا کر نے کے لیے ہر وقت تیار ہے وہ تو خود کہتا ہے کہ میں اِس انتظار میں رہتا ہوں کہ کب بندہ مجھے مانگے اور میں اُس عطا کروں۔جس بندے کی خواہشات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے تو اُن کی نفسیانی خواہشات کو لگام صرف موت ہی دیتی ہے ۔ لیکن جو بندہ اپنے رب کی عطا پر صابر و شاکر ہوجاتا ہے اور اپنے لیے اُتنا ہی طلب کرتا ہے جتنے سے اُس کی ضرورت پوری ہوجائے۔ایک چپاتی اور تھوڑئے سے سالن سے گزارہ اگر کیا جاسکتا ہے تو پھر تھوری سے زندگی کے لیے خود کو لامحدود خواہشات کی چکی میں پیستے رہنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ جو انسان مال و دولت جاہ و حشمت کے لیے خود کو ہلکان کیے رکھتا ہے اُس کے اندر لالچ کا بسیرا ہو جاتا ہے ۔ لالچ ایسی شے ہے جو انسان کے اندر کینہ، جھوٹ پیدا کر دیتی ہے۔ خواہشات انسان سے روحانیت چھین لیتی ہیں۔ اور بندہ کا لالچ اُسے اندھا کر دیتا ہے حلال اور حرام کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ بندہ پھر خالق کے رستے پہ چلنے کی بجائے شیطان کی ہمنوائی اختیار کر لیتا ہے۔ یہ انداز فطرت کے معیار کے سخت خلاف ہیں۔ زندگی میں ساری تگ و دو تو انسان سکون کی خاطر کرتا ہے اور سکون صرف رب کی بات ماننے میں پنہاں ہے۔جب سکون حاصل کرنے کے لیے مجوزہ طریقہ ہی درست نہ ہو جب درست سمت کا تعین ہی نہ ہو پارہا ہو تو پھر پچاس ساٹھ سال کی زندگی جو کہگزرتے خبرتک نہیں ہوتی اُس کی خاطر خود کو ہلاکت میں ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے۔فقر انسان کو ہر طرح کی خواہشات سے ماورا کر دیتا ہے رب کی ہر ہر عطا پہ لبیک۔ رب کی جانب سے ڈالے گئے امتحان میں شکر ادا کرنا گویا فقیر کا وطیرہ بن جاتا ہے۔انسان کی زندگی میں جتنے بھی نشیب وفراز آتے ہیں اُن سب کے محرکات میں رب کی جانب سے آزمائشیں بھی ہوتی ہیں اوربعض اوقات رب کا راستہ ترک کرنا بھی انسان کے لیے امتحان بن جاتا ہے۔سماجیات کے ماہرین کے مطابق جس سوسائٹی میں قناعت ہوتی ہے اُس سوسائٹی کے لوگوں کے سماجی، معاشی،عمرانی ،روحانی ، نفسیاتی معاملات بہت بہتر ہوتے ہیں ۔ اِیسے معاشروں میں امن بھائی چارہ ہوتا ہے۔ جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ انسان اپنی ضروریات کے حوالے سے ہوس کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ خود کے سارئے معاملات اپنے رب کے سپرد کیے ہوئے ہوتا ہے وہ شیطان کی بجائے رحمان کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہوتا ہے۔انسانی احتیاجات اُس کو اِس نہج تک نہیں لاتیں کہ وہ خود کو گمراہ کر لے اور سیدھا راستہ چھوڑ دے۔فقر کی دولت دنیاوی خواہشوں کو اِس طرح قناعت کے پنجرئے میں قید کر دیتی ہے کہ رب بندئے کی روح کو شاد رکھتا ہے۔ بندہ اپنے رب کی ہر نعمت پر شکرادا کرتا ہے اور اِسی طرح ہر مصیبت کا مقابلہ بھی مردانہ وار کرتا ہے۔جس طرح معاشیات کے قوانین کے مطابق جہاں طلب اور رسد کی قوتیں باہم ملتی ہیں تو اِس کی بدولت خطِ طلب خطِ رسد کو جس جگہ سے قطع کرتا ہے اُس مرکز کو توازنی مرکز کہتے ہیں۔یہ ہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں کسی بھی شے کی قدر و قیمت کا تعین ہوتا ہے۔بندے کی خواہشات بھی جب اِس نہج تک کنٹرول میں آجاتی ہیں کہ رب بندئے کی التجاؤں کو رد نہیں کرتا اصل بات یہ ہی ہے کہ بندہ اپنے معاملات کو توازن میں لائے۔ ہر معاملے میں اپنے نفسانی خواہشات کو بالائے طاق رکھے۔ جن معاشروں میں ہوس کا زور ، وہیں پھر جنسی حوالے سے بے راہ روی بھی عروج پر ہے۔ کائنات کی سب سے محبوب ترین ہستی نبی پاک ﷺ کا فرمانِ عالیٰ شان ہے۔کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرو۔خالق کا اپنے بندئے پر کتنا احسان ہے کہ وہ اپنے بندئے کو پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیتا بلکہ خالص توحید سے آشنائی بہت بڑا احسان ہے مسلمانوں پر کہ نبی پاکﷺ کی بدولت مسلمانوں کے پاس یہ اعزاز ہے کہ کہ نبی پاکﷺ نے بندوں کو اپنے حقیقی رب سے ملادیا۔بندہ جب بھی اپنے حقیقی رب کو پکارتا ہے تو خالق اپنی مخلوق کی آواز کو سنتا بھی ہے اور اُس کی مدد بھی فرماتا ہے۔فقر اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان تارک الدنیا ہو کر جنگلوں بیابانوں میں نکل جائے بلکہ اللہ پاک کی دنیا میں ہی رہ کر اللہ پاک کے بندوں کے درمیان رہ کرزندگی کی ساعتوں کو اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں سے فیض یاب ہوکر گزارئے اور راہبانیت اختیار نہ کرئے راہبانیت اختیا ر کرنے کی وجہ سے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بندہ دنیا سے روپوش ہونا چاہتا ہے وہ اپنے رب کی راستے سے راہِ فرار چاہتا ہے۔ فقر کی دولت سکون کی دولت عطا کرتی ہے اور انسان اِسی عاجزی کی بدولت اِسی خلوص و محبت کی بدولت اپنے خالق کی رضا کا دعویدار بن کر باعمل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف کا تعلق برصغیر کی عظیم روحانی درگاہ حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہورکے خانوادے سے ہے۔ مصنف عظیم روحانی بزرگ حضرت حکیم میاں محمد عنایت خان نوشاہیؒ آستانہ نوشاہیہ سرگودہا کے خلیفہِ مجاز بھی
ہیں۔
DAILY AFLAK LAHORE 28-6-2015
Sunday, 21 June 2015
ندہِ مومن کی دُعا۔ خالق کی رضا an article written by ashraf asmi
بندہِ مومن کی دُعا۔ خالق کی رضا
دُعا کی قبولیت کے حوالے سے عام طور پر یہ ہی تاثر پایا جاتا ہے کہ ہماری دُعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں شائد رب پاک ہم سے ناراض ہے۔ یا پھر یہ سوال اُ ٹھتا ہے کہ جناب ہماری تو قسمت ہی خراب ہے۔ ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ جی میرئے فلاں رشتے دار نے مجھ پر جادو کر دیا ہے۔بات یہاں تک نہیں رہتی بلکہ یاسیت کا یہ عالم ہو جاتاہے کہ انسان اپنے وجود کو ہی اِس زمین پہ بھاری محسوس کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں مادیت سے محبت اور روحانی اقدار سے دوری نے رب پاک پر بندئے کے اعتقاد کو اتنی بُری طرح کمزور کردیا ہے کہ رب پاک کے متعلق یہ گمان بندہ پیدا کر لیتا ہے کہ نہ معلوم ہماری دُعا کوئی سُنے گا یا نہیں۔بندے کی جانب سے اپنے خالق کے متعلق یہ گمان کہ نہ جانے اُس کی دعا سنی بھی جائے گی یا نہیں۔ اِس طرح کا رویہ اِس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم اپنے رب کو سمجھ کیوں نہیں پا رہے ۔عقیدہ توحید کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اپنے من کو وسوسوں سے پاک کر لیں۔اگر ہم نے رب کو سمجھا اور ماناہی نہیں تو پھر توحید کا مطلب تو سمجھ میں نہیں آیا۔ اللہ پاک فرماتا ہے کہ کہو کہ ا للہ ایک ہے نہ تو وہ کسی کا باپ ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا اور اُس کا کوئی ہم سر یا ثانی نہیں۔ اب اگر ہم اپنے رب کی بیان کردہ صفات کو دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رب کارساز ہے رب تنکے سے لے کر پہاڑ تک کا خالق بھی ہے اور مالک بھی ہے۔ پوری کائنات میں جسے بھی زوال ہے یا جسے بھی عروج ہے وہ رب پاک کی مرضی سے ہی ہے۔دُعا کی قبولیت تو تب ہی ہو سکتی ہے کہ جس سے مانگا جا رہا ہے اُس کے متعلق دعا مانگنے والے کا ذہنی طور پر قائل ہونا ضروری ہے۔ جب دُعا مانگتے وقت ہی انسان کی یہ کیفیت ہو کہ پتہ نہیں قبول بھی ہو گی یا نہیں تو اِس کا مطلب اعتقاد نہیں ہے کہ جس سے دعا مانگی جارہی ہے وہ عطا کرسکتا ہے۔جب مسافر کو منزل تک پہنچنے کا یقین ہی نہ ہو تو پھر اُس کے اندر وہ جذبہ ہی نہیں پیدا ہوتا جو اُس کو منزل تک پہنچانے کے اسباب کی تلاش کرنے کی سعی پیدا کرتا ہے۔جب بندہ دعا مانگتا ہے اور اُس کے اندر یہ جذبہ موجذن ہوتا ہے کہ اُس کی دعا قبول کرنے والا اُس کو سن رہا ہے اور اُس کی دُعا پوری کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے یقینی طور پر اِس جذبے کے اندر پھر تڑپ بھی پیدا ہو جاتی ہے اور چاہت بھی ۔ رب کی عنائتوں پہ مکمل ایمان دُعا کی قبولیت کا باعث بن جاتا ہے۔ وسوسوں چونکہ چنا چہ ایسا نہ ہوجائے یہ ہوگیا تو پھر کیا ہوگا اس طرح کے خیالات بندئے کے رب سے تعلق کو کمزور کر دیتے ہیں اور یوں رب کو مکمل طور پر اُس کو اُسکی صفات کا حامل نہ سمجھ پانا ۔ ہمارے ایمان کی کمزوری بن جاتا ہے یوں جب جس سے مانگا جارہا ہے اُس کے متعلق ہم یہ یقین ہی نہیں رکھتے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے تو پھر دعا قبول کیسے ہوگی۔جب بندہ کسی منزل کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے اور اُس کے لیے اپنے تمام اسباب کو بروئے کار لاتا ہے اور انتھک کو شش کرتا ہے اُس کے سامنے یہ مقصد ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی منزل کو حاصل کر نا ہی ہے اور اُس کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اُس کا کام تو کوشش کرنا ہے اصل کام تو رب کی جانب سے ہونا ہے جوقادرِمطلق ہے یہ بھروسہ ہی بندئے کو اپنی منزل تک لے جاتا ہے۔ بھروسہ کیے بغیر کچھ نہیں ہو پاتا۔اور اگر منزل تک پہنچنے کا یقین نہ ہو تو پھر بندئے کے اندر منزل کے حصول کی تڑپ کم ہو جاتی ہے جو اُس کو مطلوبہ معیار تک نہیں جا نے دیتی اور انسان راستے میں ہی ہچکولے کھانے لگتا ہے۔بات ساری اعتقاد کی پختگی کی ہے کہ بندے کا رب پر اعتقاد کیسا ہے۔بندہ رب کو خد ا سمجھے ناخدا نہ سمجھے کہ کشتی کنارئے تک جانی ہے یا نہیں۔ خالق انسان کے گمان کی طرح ہے جس طرح کی سوچ ہم اپنے خالق کے متعلق رکھیں گے اُسی طرح کی فیوض و برکات کا حصول ممکن ہو گا۔اگر ہم اپنی زندگی کا مرکز و محور اپنے خالق اور خالق کے محبوب نبی پاکﷺ کو بنالیں تو پھر تصور فرمالیں جب رب اور رب کے محبوب نبی پاکﷺ ہماری ہر سوچ ہر ساعت ہر عمل میں رہنماء ہوں تو پھر ہماری تدبیر تقدیر بن جاتی ہے پھر ہماری دُعا خالق کی رضا بن جاتی ہے۔خالق ہماری آنکھ بن جاتا ہے جب بندے کی آنکھ خالق کی آنکھ کا روپ دھار لیتی ہے تب پھر دُعا کی قبولیت کا عالم کیا ہوگا۔بندہِ مومن کے دل میں عشقِ رسول پاکﷺ وہ نور بھر دیتا ہے کہ خالق اپنے محبوب نبی پاک ﷺ سے محبت کرنے والوں کی دُعا کی لاج رکھ لیتا ہے۔ اسلام دین ہی اطا عت کا نام ہے ۔دراصل بات ہے بھی ساری اطاعت کی عبادات بھی تو خالق کے اندر اپنے رب کی اطاعت کا شعور بخشتی ہیں۔خالق کے بندئے سے محبت اِس شعور کو اِس نہج پر لے جاتی ہے کہ بندہ پھر داتا علی ہجویریؒ ،معین الدین چشتی ، میاں میرؒ ۔ نوشہ گنج بخشؒ بن جاتا ہے جو پھر خالق کی خلقت کی محبت میں خالق سے تعلق کی اُس نہج پہ پہنچ جاتا ہے کہ خالق اُس کی دعا اور رضا کو رد نہیں کرتا۔
Thursday, 18 June 2015
تقدیر۔تدبیر۔رضا صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
تقدیر۔تدبیر۔رضا
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
تدبیر اور تقدیر دونوں کا سفر ساتھ ساتھ چلتا ہے جب تدبیر اختیار کی جاتی ہے تو تقدیر کے کئی پہلو تدبیر کے ہمنوا بن جاتے ہیں تدبیر ایسے پھول کی مانند ہے جو تقدیر کے جلو میں ہی پنپتی ہے لیکن تقدیر کو نئے آہنگ سے آشنا کروا دیتی ہے اور تدبیر اور تقدیر کے معاملات ایسے ہوجاتے ہیں کہ خالق مخلوق کی اپنائی ہوئی تدبیر کو ہی تقدیر کا درجہ دئے دیتا ہے ۔خوبصور ت سے خوبصورت شے جب گندگی میں گر تی ہے تو اُس کے اردگرد گندگی لگ جاتی ہے۔ بے شک وہ گندگی بعد میں اُتر جاتی ہے۔ لیکن اُس گندگی کا جتنا وقت اُس شے کے ساتھ گزرا ہوتا ہے وہ اُس خوبصورت شے کو بھی کسی حد تک آلودہ کر دیتا ہے خوبصورت شے کی خوبصورتی پر بھی اُنگلیاں اُٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ یوں خوبصورتی کا محور شے کسی طور بھی اُتنی پاکیزہ نہیں گردانی جاسکتی جتنا وہ گندگی میں گرنے سے پہلے تھی۔ لیکن خالق کا اپنے بندئے سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ کہتا ہے جب کافر مرنے بھی لگے اور کلمہ پڑھ کر رب کی واحدنیت کا اقرار کرلے تب بھی وہ اُسے بخش دیتا ہے۔حالانکہ اُس کی ساری زندگی کفر میں گزری ہوتی ہے۔بندے اور خالق کا تعلق اتنا محبت سے بھرپور ہے کہ خالق کفر کی حالت میں کیے گئے اُس کے سارئے گناہ معاف کردیتا ہے۔بندہ خالق کا نائب جو ہے۔ ایک رب کی وحدانیت کا اقرار کافر کو وہ سفر طے کروا دیتا ہے جو کہ بڑا کٹھن ہے۔بندے کے ساتھ رب کی محبت اتنی عظیم ہے کہ بندہ رب کی رحمتوں کا شمار نہیں کر سکتا۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے رب کے بندوں سے پیار کرنا سیکھ جائیں کیونکہ رب تو بندئے سے بے انتہا پیار کرتا ہے۔ وہ سب کا رازق ہے وہ بلاتخصیص رنگ و ملت و مذہب سب کو روزی عطا کرتا ہے جو اُس کو مانتے ہیں اُن کو بھی دیتا ہے اور جو نہیں مانتے اُن کو بھی دیتا ہے۔ہر انداز اور عمل کا جو بھی ردِ عمل پیدا ہوتا ہے وہ خالق کی ہی رضا بنتا چلا جاتا ہے ۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ خالق اور مخلوق کے رشتے میں کتنی محبت ہے کہ خالق اپنے بندئے کی رضا کو اپنی رضا بنا لیتا ہے۔ محبت کا یہ سفر بندئے اور خالق کے درمیان اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ خالق بندے کی دعا کو رد نہیں کرتا بلکہ لوحِ تقدیر پہ لکھا ہوا بھی بدل دیتا ہے ۔ بندئے کی رب کے ساتھ محبت کا یہ عالم کہ بندہ خود کو فراموش کر دیتا ہے اور اپنی ایک ایک خواہش کو اپنے خالق کی رضا پہ قربان کر دیتا ہے ۔ بندہ پھر خاکی اور نوری کے سفر سے نکل جاتا ہے نہ ہی وہ حیات اور ممات کا محتاج رہ جاتا ہے۔خالق اُس کی روح کی حقیقتوں کو جب اُس پر آشکار کرتاہے تو پھر اِس دنیا یا اُس دنیا میں فرق صرف ایک سفر کا ہی رہ جاتا ہے۔ تب بندئے کو صوفی کہہ لیا جائے ولی کہہ لیا جائے ۔ اللہ کا دوست کہہ لیا جائے۔ ایک ہی بات ہے۔ دُکھ کو سُکھ بُھلائے اور درد کو چین بدی کا مداوا نیکی سے ہوتا ہے نفرت کو محبت مٹا دیتی ہے خالق کی محبت روح میں نیا جہاں بسا دیتی ہے خالق کے بندوں کی محبت عبد ہونے کا احساس دلادیتی ہے محبت امن محبت سُکھ، محبت چین محبت لازوال روح لازوال محبت کا مسکن روح روح کو موت نہیں آتی محبت کو بھی موت نہیںآتی۔دل اپنا ہی اپنے اختیار میں نہیں اُس سے شکوہ عبث ہے پہلے خود سے تو کچھ منوا لوں پھر اُس کی جانب نگاہ جائے عشق کی راہ کا سفر انوکھا ہے وہ عشق ہی عشق ہے جس میں من اور تن ایک جیسا ہو جائے۔عشق کی جیت ہر حال میں ہی ہے وصل بھی کامیابی ٹھرا ہجر بھی کسی امتیاز سے کم نہیں عشق کی جیت تو ہر حال میں ہی ہے کتنا اعزاز بخشتا ہے یہ عشق اِس کی حقیقت ہر حال میں بقا ہی بقا، وفا ہی وفا۔خواب ادھورئے کس کام کے جب راہوں کا تعین ہی نہ ہو تب منزلِ مراد کی کیا حقیقت اِس گورکھ دھندے سے نکلنا نہ یا نکلنا بے معنی ہے خود کی پہچان ہوئے بغیر ۔قبر کا تصور اُس وقت کیا جائے جب اپنے پیاروں کے ساتھ خوشیاں منائی جارہی ہوں۔ جب اپنے گھر میں سکون کے ساتھ محو خواب ہو۔جب ساری حیاتی کا حاصل سمجھی جانے والی منزل مل جائے تو اُس وقت جب ابدی گھر پکار رہا ہو اور انسان یہ سوچے کہ بس میں نے اب قبر میں اُتر جانا ہے۔تب زندگی کی بناوٹی خوشیاں کتنی پھیکی پڑ جائیں ۔ شائد تب زندگی کے ہونے یا نہ ہونے کا مطلب بھی سمجھ میں آجائے۔ صوفیاء کے ہاں تو زندگی کا مقصد صرف ایک سفر ہے۔جس لمحے سورج کی کرنیں خالق کا پیغام کائنات میں بکھیرتی ہیں کوئل کی من بھاتی آواز خالق کی خدائی میں رنگ بھرتی ہے جب چاند اندھیری گُھپ رات میں ٹم ٹماتا ہے جگنو بھی اِس روشنی کا ننھا مسافر ہوتا ہے اِن لمحوں میں بندئے ا مانگتے ہیں کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں جو اپنے لیے سب کچھ خالق سے ہی طلب کرتے ہیں۔تدبیر اور تقدیر کے سفر میں بندے اور خالق کی رضا تب ایک ہی بن جاتی جب بندہ بندگی کے پیمانے پہ پورا اُترتا ہے۔بندگی پہ پورا اُترنا اتنا مشکل نہیں ہے بس جو خالق کی رضا اُس کو بندہ اپنی رضا بنالے۔ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہی ہے کہ بندہ خالق کا قُرب پاسکتا ہے لیکن اُس کے لیے اتنی سے بات ہے کہ خالق کے بندوں کا قُرب حاصل ہوجائے۔ یہ ہی اللہ کے نیک بندوں کا دستور ہے۔
Monday, 8 June 2015
Saturday, 6 June 2015
احساس عبدیت .......................................اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
احساس عبدیت
اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
جب بندہ اہتمام کے ساتھ اپنے خالق ومالک کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے اور
اپنے دُکھوں کا بوجھ خالق کے دربا رمیں عرض کی صورت میں رکھتا ہے تب خالق
اپنے بندے کی عاجزی اور انکساری کو بہت پسند کرتا ہے اور بندے کے دکھوں کا
مداوا کرتا ہے ۔رب پاک اور بندے کا تعلق اسی طرح ہے جس طرح ایک بے حس وحرکت
تصویر کو بنا نا والا جیسے مرضی رنگ بھردے اور اِن رنگوں کی بدولت وہ
تصویر ایک خوبصورت نظر آنے لگے ۔اب مصور اور تصویر کا جو تعلق ہوتا ہے وہ
خالق اور محلوق والا ہے ۔انسان کی پیدائش سے موت تک کے تمام تر حالات
وواقعات اِس بات کے شاہد ہیں کہ انسان کی حثیت کیا ہے ۔محبت کے ساتھ نفرت
بھی انسان کی جبلت میں ہے ۔چاہے جانے کا جذبہ انسان سے نیکیاں بھی کرواتا
ہے اور انسان کو بدی کی طرف بھی لے جاتا ہے ۔بندے کی ساری تگ و دو ایک
ایسے ٹائم فریم کے اندرہے جس کے متعلق کچھ بھی حتمی نہیں ۔اگر ایک جہا ز
لاہور سے پرواز کرتا ہے اُسے ساوتھ افریقہ جانا ہے ۔اب راستے میں تو کچھ
بھی ہوسکتا ہے ۔کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے ۔یہ ہی انہونی یا Probility کا
جو فیکٹر ہے یہ ہی خالق کے وجودکی گوا ہی دیتا ہے اور خالق کے ہونے کی
دلالت کرتا ہے ۔سفر منزل کی جانب جب شروع ہو اور سفر کرنے والے کو منزل تک
پہنچنے کی بے یقینی ہو تو در حقیقت یہ بے یقینی رب پاک پر حق الیقین ہے
خالق کے معبود ہونے کی پہچان ہر اُس عمل سے ہو تی ہے جو بندے کے ارادوں کے
مخالف ہو ۔ذرا تصور فرمائیے اگر انسان دوسرئے سے عاجزی اور انکساری سے
ملتا ہے اور اُس کے سامنے اپنا دکھ بیان کرتا ہے تو جس کے سامنے یہ سب
کچھ کیا جاتا ہے وہ بھی اپنے دل میں نرمی پیدا کر لیتا ہے ۔یہ حال تو ایک
دنیا دار شخص ہے لیکن خالق کے سامنے جب عجز و انکساری ہو اور خالق اپنے
بندئے سے بے پناہ محبت کرتا ہے وہ اپنے بندئے کو خالی نہیں لوٹاتا۔عبد کا
اختیار اُسکی عبدیت پر منحصر ہے جیسے جیسے وہ اپنے رب کے رستے پر چلتا ہے
ویسے ویسے وہ ایک مقبول عبد کی حثیت حاصل کرلیتاہے ۔ ہو۔انبیا ء اکرام تو
گنا ہوں سے پاک ہیں وہ بشری لبادے میں رب پاک کے خاص عبد ہیں ۔اُن پر اُس
طرح کے قوانین فطر ت کا اطلاق نہیں جس طرح ہم پر ہے ۔
خالصتااپنے خالق کی رضا کو اپنا لینا بندے کو رب کا دوست بنا دیتا ہے ۔خالق اُ س بندے پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول کرتا ہے ۔حتی کے خالق اپنے بندے کے نازبھی اُٹھاتاہے ۔بندہِ مومن کی آنکھ خالق کی آنکھ قرارپاتی ہے ۔بند ہ مو من کی خواہش کی تکمیل خالق فرما دیتا ہے۔انسانی رویے کے حوالے سے اگر ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو یہاں معاشیات کا ایک مفروضہ جسے لائف سائیکل ہائی پوتیسیزکا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور اُس کی حالت اِیسی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کماء سکے لیکن اُس کی ذات پر اخراجات کافی آتے ہیں۔ اُس کی خوراک اُس کے لیے میڈیکل کی سہولیات، کپڑئے وغیرہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے نگہداشت کے لیے کُل وقتی ایک عدد سہارئے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے لیے ہورہا ہوتا ہے اب آئیے اِس نقطے پہ غور کرتے ہیں کہ ایک انسان کے بچے کی نگہداشت کا معاملہ خالق نے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ خالق تو جانوروں پرندوں سب کی پرورش پر قادر ہے اور وہ ایسا کرتا ہے ۔اِسی لائف سائیکل مفروٖضے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت وہ اِس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کمائی کرئے اور اُس کی اپنی ذات پر اتنا خرچ نہیں ہوتا جتنا وہ کما رہا ہوتا ہے۔ اب اگرہم خالق کے نظام کو دیکھیں کہ کس طرح ہر ذی روح کو اُس نے ایک دوسرئے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اور کائنات کا نظام جاری و ساری ہے بلکل اِسی طرح جیسے اگر کمپیوٹر کا کوئی بھی سافٹ ویرء استعمال کرنا ہو۔ تو کمپیوٹر میں اُس سافٹ وےئر کے ڈرائیورز اپ لوڈ کرنا پڑتے ہیں۔ اِسی طرح رب نے انسانوں کو اِس طرح ایک دوسرئے کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرئے کے جزولاینفک گردانے جاتے ہیں۔ متذکرہ بالا معاشی مفروضے کی آخری سٹیج میں اِس بات کاذکر ملتا ہے کہ انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو پھر سے اُس کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں ادویات خوراک وغیرہ لیکن بڑھاپے کی وجہ سے اُس کے اندر کام کرنے کی سکت کم ہوجاتی ہے جس سے اُس کی معاشی استعدادِکار کمزور ہو جاتی ہے۔ تینوں درجات کا تذکرہ اِس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خالق کا اپنے عبد کے لیے ہمیشہ رویہ عطا ہی عطا ہے۔
خالصتااپنے خالق کی رضا کو اپنا لینا بندے کو رب کا دوست بنا دیتا ہے ۔خالق اُ س بندے پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول کرتا ہے ۔حتی کے خالق اپنے بندے کے نازبھی اُٹھاتاہے ۔بندہِ مومن کی آنکھ خالق کی آنکھ قرارپاتی ہے ۔بند ہ مو من کی خواہش کی تکمیل خالق فرما دیتا ہے۔انسانی رویے کے حوالے سے اگر ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو یہاں معاشیات کا ایک مفروضہ جسے لائف سائیکل ہائی پوتیسیزکا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور اُس کی حالت اِیسی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کماء سکے لیکن اُس کی ذات پر اخراجات کافی آتے ہیں۔ اُس کی خوراک اُس کے لیے میڈیکل کی سہولیات، کپڑئے وغیرہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے نگہداشت کے لیے کُل وقتی ایک عدد سہارئے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے لیے ہورہا ہوتا ہے اب آئیے اِس نقطے پہ غور کرتے ہیں کہ ایک انسان کے بچے کی نگہداشت کا معاملہ خالق نے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ خالق تو جانوروں پرندوں سب کی پرورش پر قادر ہے اور وہ ایسا کرتا ہے ۔اِسی لائف سائیکل مفروٖضے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت وہ اِس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کمائی کرئے اور اُس کی اپنی ذات پر اتنا خرچ نہیں ہوتا جتنا وہ کما رہا ہوتا ہے۔ اب اگرہم خالق کے نظام کو دیکھیں کہ کس طرح ہر ذی روح کو اُس نے ایک دوسرئے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اور کائنات کا نظام جاری و ساری ہے بلکل اِسی طرح جیسے اگر کمپیوٹر کا کوئی بھی سافٹ ویرء استعمال کرنا ہو۔ تو کمپیوٹر میں اُس سافٹ وےئر کے ڈرائیورز اپ لوڈ کرنا پڑتے ہیں۔ اِسی طرح رب نے انسانوں کو اِس طرح ایک دوسرئے کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرئے کے جزولاینفک گردانے جاتے ہیں۔ متذکرہ بالا معاشی مفروضے کی آخری سٹیج میں اِس بات کاذکر ملتا ہے کہ انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو پھر سے اُس کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں ادویات خوراک وغیرہ لیکن بڑھاپے کی وجہ سے اُس کے اندر کام کرنے کی سکت کم ہوجاتی ہے جس سے اُس کی معاشی استعدادِکار کمزور ہو جاتی ہے۔ تینوں درجات کا تذکرہ اِس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خالق کا اپنے عبد کے لیے ہمیشہ رویہ عطا ہی عطا ہے۔
Monday, 1 June 2015
دیوانگی ۔شق ۔ایمان. an article written by ashraf asm i advocate
دیوانگی ۔شق ۔ایمان
دیوانگی اگر حلال و حرام میں امتیاز ملحوظِ خاطر رکھے تو وہ عشق ہے
لیکن ایسی کیفیت جو انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا کر حیوانیت کی سطح پر
لے آئے تو وہ پھرعشق نہیں رہتا بلکہ وہ تو حیوانیت بن جاتی ہے جس کا
مظاہرہ سور سمیت بہت سے جانور ہمہ وقت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جو کیفیت
انسان سے شعور چھین لے انسان سے فہم وادراک نوچ لے انسان سے اُس کے انسان
ہونے کا شرف جاتا رہے تو پھر تو نہ ایمان رہا اور نہ اِسکا کوئی پاس۔خالق
نے انسان کو جس صورتحال سے دوچار کر نا ہوتا ہے اُس کے لیے اُس کو اُس طرح
کے ماحول کے لیے ہمت عطا فرما دیتا ہے لیکن یہ سب کچھ تو تب ہوتا ہے جب
انسان کے اندر ایمان کی کوئی رتی باقی ہو۔ اگر انسان کے اندر ایمان نہ رہا
ہو تو پھر رب سے رحمت مانگنا عجب نہیں ہوگا کہ جس خالق کو مانا ہی نہیں
جارہا ہواُس سے پھر اپنے لیے کیسی مددمانگی جائے۔ خالق تو انتظار میں ہوتا
ہے کہ کب اُس سے مانگا جائے اور وہ عطا فرمادئے۔ جس طرح پھول اُس وقت تک
مہکتا رہتا ہے جب تک اُسے روشنی پانی ملتی رہے ایمان بھی اُس وقت تک انسان
کے اندر حلول رہتا ہے جب تک انسان خود انسان سمجھے اور انسان ہونے کے
مرتبے پر فائز رہے۔جب انسان اپنے خالق کو بھلا کر خود کو حیات وممات کے
تمام مسلمہ اصولوں سے بالادست سمجھ لیتا ہے تو پھر آگہی و ادراک انسان سے
روٹھ جاتا ہے۔ محبت اُنس کے جذبے ، نفرت اور لالچ کی گرداب میں پھنس جاتے
ہیں۔ اِن حالات میں فہم وفراست کا انسان کے دماغ میں سے گزر بند ہوجاتا ہے۔
ایمان انسان کو جذبہ عطا کرتا ہے ایمان انسان کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ
پہاڑ اُس کی ہیبت سے رائی بن جاتا ہے۔ صحرا و دریا اُس کے سامنے نہیں
ٹھرتے۔رب پر بھروسہ عشق کی ایسی سیڑھی پر انسان کو گامزن کرتا ہے کہ دنیاوی
لالچ دنیاوی رکھ رکھاؤ دنیا شان و شوکت انسان کے پاؤں کی ٹھوکر پہ ہوتے
ہیں۔پھر اویس کرنیؓ،بلال حبشی،سلمان فارسی،ؓ سلطان صلاح ا لدین ایوبیؒ ،
عبدالقادر جیلانیؒ ،سائیں سُچل سرمست، بابا فریدؒ ،داتا علیٰ ہجویریؒ
۔سلطان باہوؒ ، حضرت میاں میرؒ ، حضرت میاں وڈا صاحبؒ ،بابا بلھے شاہؒ ،شاہ
حسینؒ بنتے دیر نہیں لگتی۔بس خالق کی عطا ہوتی ہے وہ جب جب چاہتا ہے تب
تب عطا کرتا چلا جاتا ہے۔اِس کے لیے اُس نے کونسا کسی سے اجازت لینی ہوتی
ہے۔ وہ تو قادرِ مطلق ہے۔ سراپاِ محبت،وہی وقت ہے وہی خوشبو ہے وہی دن ہے
وہی رات ہے وہ ہر ہر رنگ میں ہے۔ وہ ہر ہر لمحے میں ہے۔ اُس کی لاپروائی
کی کوئی حد نہیں ۔اُس کا کوئی ہم سر نہیں۔ اُس جیسا کوئی بھی تو نہیں۔
انسانی تمدن کی ہزاروں سالوں کی
تاریخ بتاتی ہے کہ چاند ستارئے موسم دن رات سب کچھ تو ایک معین نظام کے تحت
جاری وساری ہے ۔کون ہے جو اُس کی طاقت کو للکار سکے کون ہے جس کی زندگی
رب کے طفیل نہ ہو ہر کوئی تو محتاج ہے سور ج ہے تو محتاج، زمین ہے تو
محتاج۔چاند بھی اپنی مرضی نہیں کرسکتا۔لیکن جب ہم عشق و محبت اور ایمان کی
کسوٹی کے حوالے سے جائزہ لیں تو ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے
کہ خالق کو بھی کسی سے عشق ہے خالق بھی کسی کو محبوب رکھتا ہے حتیٰ کے خالق
کا یہ فرمان کہ میں نےاے محبوبﷺ اگر آپ ﷺ پیدا نہ کرتا تو یہ کائنات پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے
رب ہونے کا اظہار نہ کرتا۔ ذرا رُکیے خالق اور مخلوق کی محبت کس رنگ میں کہ
خالق اپنے محبوب کے لیے چاند کے ٹکرئے فرما رہا ہے۔ خالق اپنے محبوبﷺکو
کہہ رہا کہ وہ ہاتھ جس سے بیتِ رضوان لی تھی وہ ہاتھ ائے میرئے محبوبؒ ﷺ
آپکا نہیں میرا ہاتھ تھا۔ یہ ہے وہ عشق جو خالق اپنے محبوب کی ہستی سے فرما
رہا ہے اور اپنے محبوب کے ناز اُٹھارہا ہے ۔ ہے کوئی دنیا میں کوئی ایسی
شخصیت جو خالق کو سب سے زیادہ محبوب ہو تو وہ صرف نبی پاکﷺ کی ہی ہستی ہے۔
گویا عشق کا ایمان کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ایمان انسان کو وحشت سے دور رکھتا
ہے۔ بندئے کا اپنے رب سے تعلق بہار کی طرح کا ہوتا ہے پھول جب تک بہار
کے مزئے لوٹ رہا ہوتا ہے وہ مہکتا رہتا ہے جیسے ہی خزاں وارد ہوتی ہے پھول
کی پتیاں بکھر جاتی ہیں۔ انسان جب تک اپنے رب سے امید باندھے رکھتا ہے تب
تک اُس کے من کی دنیا آباد رہتی ہے جیسے ہی وہ اپنے رب سے ناامید ہوتا ہے
اور یاسیت اُس سے روحانی قوت چھین لیتی ہے جس لمحے بھی بندئے کے دل میںیہ
بات راسخ ہو جاتی ہے کہ اُس کا یہ کام نہیں ہونا تو گویا وہ اپنے رب کی
ربوبیت کوغیر ارادی طور پر ماننے سے انکاری ہوجاتا ہے یوں پھر امید کی
کمزوری اُس کے ایمان کو اعتقاد کو اُسکے یقین کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ وہ
پھر رب کی رحمتوں کے ہالے سے نکل کر وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے بلکل
اِسی طرح جیسے مکڑا جال میں پھنسا ہوتا ہے۔ نہ تو امید بَر آتی ہے اور نہ
وسوسے چین لینے دیتے ہیں۔ عبادت گاہوں میں خاص اہتمام ہوتا ہے کیا رب کا
صرف وہیں قیام ہوتا ہے گھر میں بازار میں دفتر میں کیا ایمان کا کام
نہیں ہوتا ہے یونہی مذہب کا نام لے لے کے عقیدتوں کا دم بھر بھر کے عبادت
کی رسم ادا ہوتی ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)