صدیوں سے پھیلی منافقت کا
وہاں سایہ نہیں ہوتا
مجھے کوئی شکوہ ہے نہ کوئی شکایت ہے
میرئے ہوتے ہوئے کوئی پتہ ہرا نہیں ہوتا
میرا نصیب کہ
پھولوں سے میرئے ہاتھ آبلہ ہیں
جو کشتی ایک بار ڈوب جائے
اُسے کنارہ نہیں ملتا
صدیوں سے پھیلی منافقت کا
اِک میرئے سچ سے مداوا نہیں ہوتا
ازقلم : اشرف عاصمی
اِک میرئے سچ سے مداوا نہیں ہوتا
میں جہاں ہوتا ہوںوہاں سایہ نہیں ہوتا
مجھے کوئی شکوہ ہے نہ کوئی شکایت ہے
میرئے ہوتے ہوئے کوئی پتہ ہرا نہیں ہوتا
میرا نصیب کہ
پھولوں سے میرئے ہاتھ آبلہ ہیں
جو کشتی ایک بار ڈوب جائے
اُسے کنارہ نہیں ملتا
صدیوں سے پھیلی منافقت کا
اِک میرئے سچ سے مداوا نہیں ہوتا
ازقلم : اشرف عاصمی
No comments:
Post a Comment