حضرت سید عبدالرزاق المعروف شاہ چراغ لاہورؒ ی۔تاریخ کا ایک ورق
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
اللہ پاک کے نیک بندوں نے خالق کے پیغام کو سسکتی ہوئی انسانیت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نبی پاکﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد اللہ کے ولی اِس ذمہ داری کو نبھاتے ہیں۔کہ اللہ پاک اور نبی پاکﷺ کے پیغام کو دنیا میں پھلاتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں اولیا اکرامؒ نے اسلما کی اشاعت کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔مسجد شاہ چراغ، عہد شاہ جہانی کے ایک بزرگ حضرت شاہ چراغ ؒ کے نام سے نسبت رکھتی ہے۔ ان کا پیدائشی نام سید عبدالرزاق تھا بعدازاں اپنے دادا کے دیئے پیار کے نام کے باعث دنیا بھر میں شاہ چراغ کے نام سے جانے گئے۔ ان کا شمار لاہور میں مدفون ان اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جن کے معتقدین میں اس وقت کے بادشاہ اور اہل حکم بھی رہے۔ ان کے آباواجداد اوچ شریف ریاست بہاولپور سے تھے۔ نقوش لاہور نمبر (ص305) کے مطابق’’ان کا اصل نام سید عبدالرزاقؒ تھا۔ والد کا نام عبدالوہاب بن سید عبدالقادر ثالث بن محمد غوث بالا پیر سادات گیلان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بزرگ قصبہ اوچ (بہاولپور) سے ست گرہ (منٹگمری) میں آئے۔ ست گرہ سے ان کے جد امجد محمد غوثؒ بالا پیر پہنچے۔ یہ زمانہ غالباً ہمایوں بادشاہ کا تھا۔آپ نے شہر سے باہر جنوب مشرق کی طرف قیام کیا اور اپنے علاقے کا نام (بقول صاحب تحقیقات چشتی) رسول پورہ رکھا۔ لیکن جب ہمایوں نے لنگر خان بلوچ کو لاہور میں جاگیر دی اور لنگر خان نے یہاں اپنے عالیشان مکانات تعمیر کرائے اور رفتہ رفتہ یہاں ایک محلہ آباد ہو گیا تو رسول پورہ کی جگہ لنگر خان نے لے لی۔ اب نہ رسول پورہ ہے نہ محلہ لنگر خان، نہ عالیشان مکانات کے کوئی آثار، جب سید عبدالرزاق پیدا ہوئے تو ان کے جد امجد صاحب حیات تھے۔ انہوں نے فرمایا ’’در خانہ چراغے پیدا شدہ است کہ خانہ خاندان ماز منور گردد‘‘۔ اس لئے شاہ چراغ کے خطاب سے مشہور ہو گئے اور یہ نام کچھ ایسا مشہور ہوا کہ عوام اصل نام کو بھی بھول گئے‘‘۔جگہوں اور مقامات کے نام کو تبدیل کرنے کی روایت دنیا بھر میں موجود رہی۔ جس طرح حضرت شاہ چراغ ؒ کی وفات 1068ھ بمطابق 1657ء کو ہوئی۔ مزار کی تعمیر کے حوالے سے مورخین کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ مزار کی تعمیر بحکم شاہ جہاں ہوئی اور کچھ مورخین کا یہ کہنا ہے کہ مزار مبارک کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر کے احکامات سے ہوئی اگر وفات کے ان کے ایام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو شاہجہاں اتنی طاقت ہی میں نہیں تھا جس سے ایسے احکامات جاری کئے جاتے۔ اسی لئے اورنگزیب کے حوالے سے جڑی روایت زیادہ مستند دکھائی دیتی ہے۔مزار اور اس سے ملحقہ مسجد کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص26) پر یوں تحریر کیا۔’’یہ مقبرہ مربع صورت کا پختہ چونے کی عمارت کا بنایا گیا ہے۔ دروازہ جنوب کی سمت ہے۔ مقبرے کے اندر آٹھ قبریں ہیں۔ ایک تو شاہ چراغ کی اور سات ان کی اولاد کی۔ چھ خشتی قالبوتی داد اور اوپر عالی شان گنبد ہے۔ مسجد بھی چونہ گچ ہے جس کی پانچ محرابیں اور پانچ گنبد ہیں۔ انگریزوں کی عمل داری ہوئی تو اس کو کوٹھی بنا لیا گیا اور میجر میگریگر صاحب و ویڈربرن صاحب وسمم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنران اس میں رہتے رہے۔ پھر اکاونٹنٹ کا دفتر اس میں مقرر ہو گیا۔ اب کوٹھی یعنی مسجد کا احاطہ علیحدہ ہے اور مقبرے کا علیحدہ اور مقبرے پر قبضہ سادات گیلانی کا ہے۔ ہر سال یہاں میلہ ربیع الثانی کی سترھویں تاریخ کو ہوتا ہے اور خلقت بہت جمع ہوتی ہے۔‘‘نواب زکریا خان کی والدوہ بیگم جان کو حضرت شاہ چراغؒ کے مزار سے انتہائی عقیدت تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اس مزار کے ساتھ ملحقہ جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کروائی اور ساتھ ساتھ یہ بھی وصیت کی کہ اگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی تو ان کے بعد ان کے زیورات بیچ کر مسجد کی تعمیر مکمل کی جائے۔لاہور میں مساجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار شہنشاہ اکبر کی بیگم مہارانی جودھا بائی سے شروع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی تعمیر کردہ مسجد ’’بیگم شاہی مسجد‘‘ آج بھی قلعہ لاہور کی مشرقی سیدھ میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے بعد یہ سلسلہ دائی لاڈو‘ دائی انگہ‘ رانی موراں کی تعمیر کردہ مساجد میں دکھائی دیتا ہے۔ کچھ تذکرہ بیگم جان کا کرتے ہیں جن کے نام پر لاہور میں بیگم پورہ کی آبادی ہے۔ وہ تو نواب عبدالصمد خان کی اہلیہ اور نواب زکریا خان کی والدہ تھیں۔ نواب زکریا خان والی لاہور کا عہد 1726۔1745ء تک کا ہے۔ اس لئے قرین قیاس ہے کہ مسجد کی تعمیر اس عہد کی ہے۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش سالنامہ 1989 (ص83) پروفیسر اسلم لکھتے ہیں’’بیگم جان بڑی عالمہ، فاضلہ اور خداشناس خاتون تھی۔ اس کا نسب بھی خواجہ ناصر الدین عبیداللہ امرادؒ سے جا ملتا ہے۔ اس نے اپنی وفات سے پہلے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے زیورات فروخت کر کے ان کی آمدنی سے ایک مسجد بنوا دی جائے۔ چنانچہ حضرت شاہ چرا غ ؒ کے مزار سے ملحقہ مسجد ان ہی زیورات کی آمدنی سے پایہء تکمیل کو پہنچی۔نواب زکریا خان کے عہد کے بعد اس مسجد نے بے شمار حوادث دیکھے۔ ان حوادث کے باعث مسجد کی اصل عمارت محض پرانی کتابوں کی تحریروں کا حصہ بن کر رہ گئی۔ لاہور کی کئی دیگر مساجد کی مانند سکھی عہد میں یہ مسجد بھی بارود سے بھری رہی۔ انگریز سرکار کے عہد میں انتظامی مسائل کے باعث کئی تاریخی مساجد کو افسران کی رہائش گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا اور اسی مقام پر سیشن جج کی عدالت بھی لگنے لگی۔ اکاونٹنٹ جنرل کا دفتر بھی قائم رہا۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر(ص307) سے درج ذیل ہے۔’’آج سے چند سال پیشتر یہ جگہ بالکل اجاڑ اور غیر آباد سی تھی۔ احاطے میں جھاڑیاں اور درخت اگے ہوئے تھے۔ چار دیواری خستہ حال تھی۔ لیکن 1935ء میں مسجد شہید گنج کی ایجی ٹیشن کے بعد جب مسجد شاہ چراغ مسلمانوں کو مل گئی اور سرکار نے اپنا قبضہ اس پر سے اٹھا لیا تو اس جگہ ریزو بینک کی عالیشان عمارت تعمیر ہو گئی اور اس چار دیواری کو جس میں والدہ نواب خان بہادر کی قبر بیان کی جاتی ہے، از سر نو تعمیر کر کے اس کے گرد جنگلہ لگا دیا گیا۔‘‘تحقیقات چشتی میں لکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس چار دیواری کے گرد ایک چھوٹا سا باغ تھا اس لئے کہ اس جگہ اب بھی پختہ خیابان کے آثار نظر آتے ہیں۔ درختوں کے جھنڈ میں ون کے درخت زیادہ نہ تھے۔مقبرہ شاہ چراغ، مسجد شاہ چراغ اور اس مختصر سی چار دیواری کی حالت نسبتا بہتر ہے۔ جمعہ اور جماعت کی نمازوں میں اچھی خاصی رونق ہوتی ہے۔‘‘جب مال رورڈ پر جی پی او چوک میں پہنچا جائے تو بائیں جانب ایک سڑک نیچے کو پرانے اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ کو جاتی ہے جس سے آگے ایک چرچ ’’سکینڈ بیوز پریسن کیبرین چرچ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ پرانے اسٹیٹ بینک کی یہ عمارت اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے استعمال میں ہے۔ اس بلڈنگ سے بائیں جانب ایک انتہائی خوبصورت عمارت دکھائی دیتی ہے جس میں مغل اور انگریز طرز تعمیر ملا جلا دکھائی دیتا ہے۔یہ جگہ کچھ برس قبل تک سڑک سے گزرنے والے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہائی کورٹ کے داخلی دروازے سے مغربی سیدھ تک سرکار کی مدح سرائی میں بڑے بڑے سائن بورڈ نصب تھے جو کہ بعدازاں ہٹا دیئے گے اور وہاں پر لوہے کے جنگلے نصب کر دیئے گئے جس کی وجہ سے اب یہ عمارت عوام کی نظروں میں ہے۔ لب سڑک لوہے کے ایک جنگلے پر ’’ایوان اوقاف‘‘ ماتھے پر تحریر دکھائی دیتا ہے۔ اندر داخل ہوں تو بائیں جانب اکاونٹنٹ جنرل کے پرانے دفاتر اب وکلاء اور چیمبرز کے استعمال میں ہیں۔ان سے پیچھے مشرقی سیدھ میں محکمہ اوقاف کے دفاتر‘ لائبریری ہے۔ لاہور جیسے عظیم تاریخی ورثے کے مالک اس شہر میں کیونکہ زیادہ تر تاریخی عمارتیں، آثار قدیمہ اور مذہبی تاریخی عمارتیں محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی ہیں۔ ان دفاتر میں وہ تمام سہولتیں اوردور جدید کے ذرائع موجود ہونے چاہئیں جو اس طرح کی تاریخی عمارات کی حفاظت کے لئے دنیا کے کئی دیگر ممالک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ محکمے پرانے فائلوں کے نظام میں گڑ ے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں کام کرنے والے افراد کی ان جدید علوم تک رسائی تو کجا ان میں سے اکثریت شہر لاہور کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔دفاتر سے آگے گاڑیوں کی پارکنگ‘ اے جی آفس اور لاہور ہائیکورٹ کی عمارت کی شمال جنوب سیدھ کا پچھلا حصہ ہے۔ اوقاف کے دفاتر کے سامنے ہی چند سیڑھیاں اوپر کو جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر بائیں جانب حضرت شاہ چراغؒ کا مزار شریف ہے اور بائیں جانب مسجد کی عمارت ہے۔دائیں جانب مزار کے گنبد کی چار دیواری اور عمارت میں عالمگیری عہد کی تعمیر کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ مزار کی عمارت کے چاروں کونوں پر انتہائی چھوٹے مینار ہیں جن کے نیچے محرابی طرز تعمیر دیواروں میں نمایاں ہے اور یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ کبھی ان پر کاشی کاری کا کام ضرور موجود ہو گا۔ مگر اب وہاں پر سوائے سفیدی کے اور کچھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے اوپر مزار کا خوبصورت گنبد ہے جس پر سبز رنگ کا روغن کر کے قدامت کے تمام نشان ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اندرونی احاطے میں ایک سے زائد قبور ہیں اور ایک قبر کے سرہانے یہ تختی نصب ہے۔مرقد انوار ،سید عبدالرزاق، المعروف حضرت بابا شاہ چراغؒ لاہوری،گنبد کے اندرونی حصوں میں کاشی کے پرانے کام کو از سر نو کیا گیا ہے جو کہ عہد رفتہ سے ہرگز میل نہیں کھاتے۔ مزار کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی باہر معلوماتی تختیاں نصب ہیں۔ مزار کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں دیگر افراد کی قبور بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان قبور کے ساتھ مغربی سیدھ میں ایک قدیم درخت آج بھی موجود ہے۔ مسجد کے صحن میں لوہے کے جنگلے نصب کرکے نمازیوں کی سہولت کے لئے پنکھے لگائے گئے ہیں۔مسجد کی پانچ پرانی محرابیں آج بھی پھول پتیوں کے کام سے منقش ملتی ہیں۔ لیکن کاشی کا تمام پرانا کام سفیدی کی تہوں میں گم ہو چکا ہے۔ محرابوں سے سجی عمارت طولانی سیدھ میں زیادہ اور چوڑائی میں انتہائی کم ہے۔ محرابوں کے ساتھ اور اندرونی درمیانی عمارت مقطع ہے۔ ان کی چھت کے نیچے سے اوپر نمایاں طور پر گنبد مترور تعمیر کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ چھت کے اوپر گنبد اردگرد کی عمارات کی چھتوں ہی سے دکھائی دے سکتے ہیں۔اگر مسجد کی تمام موجودہ عمارت سے سفیدی کو کھرچا جائے اور پرانی عمارات کے ماہرین کے ذریعے قدیم رنگ بحال کرنے کی کوشش کی جائے تو مسجد اپنے ابتدائی ایام کی مانند دکھائی دینے لگے۔ مسجد کی پانچ محرابوں میں سے وسطی محراب کلاں ہے اور دیگر خورد، وسطی محراب کے ماتھے پر مشرقی سیدھ میں کلمہ شریف اور دور جدید کی خطاطی میں اللہ اور محمد ﷺ دائیں اور بائیں سیدھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔لاہور کے عین وسط میں ہائی کورٹ سے ملحقہ جی پی او چوک و سپریم کورٹ سے متصل حضرت شاہ چراغ لاہوری ؒ کا مزار مبارک ہے اور ساتھ ہی مسجد بھی ہے۔ انتہائی اہم جگہ پر واقع ہونے کی وجہ سے مسجد میں نماز جمعہ اور نماز پنجگانہ کے اوقات میں کافی رش ہوتا ہے۔ مغلیہ خاندان کے دور میں بننے والی اِس عظیم مسجد کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔اِس مسجد اور مزار مبارک کو ثقافتی ورثہ کی حثیت حاصل ہے۔ راجہ رنجیت سنگھ نے اس مسجد کو کافی نقصان پہنچایا لیکن اِس نقصان کی تو شائد تلافی نہ ہوسکے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ اوقاف کے زیر انتظام انصرام اِس مسجد اور مزار مبارک کی شکستہ حالی پر نہایت افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان بن گیا لیکن اپنی روایات کا امین بننے کی بجائے اِس مسجد میں نہ تو صفائی کا انتظام ہے اور نہ ہی اِس کی ضروری مرمت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ حتی کہ پنکھے بھی کام نہیں کرتے ۔ اور جمعہ والے دن دھوپ سے بچاؤ کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا۔ اِس مسجد سے محکمہ اوقاف کی بلدنگ ہے جہاں محکمہ اوقاف کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل صاحبان تشریف فرما ہوتے ہیں۔ یعنی اوقاف کے محکمے کا صدر دفتر اور مسجد کا ایک دروازہ آپس میں جُڑا ہوا ہے۔ سخت گرمی میں ہوا کا انتظام نہیں۔ باتھ روم کی صفائی نہیں ہوتی۔ باتھ روم میں روشنی کا انتظام نہیں برسوں سے باتھ روم کے بلب فیوز ہو چکے ہیں۔ مسجد کے قالین کی صفائی کا عالم یہ ہے کہ اِس میں سے بد بو آرہی ہے اِس قالین کو بارہ سال پیشتر دھلوایا گیا تھا۔ جب اوقاف کے اہلکاروں کو قالین کی صفائی کی بابت کہا گیا تو اُن کا ستدالال یہ تھا کہ چونکہ ہمارئے پاس اِس مد میں رقم نہیں ہے۔ اِس لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لاہور میں اور دیگر شہروں میں ایسا ہی ہے کہ بزرگوں کے مزارات کے ساتھ مساجد بھی ہیں محکمہ اوقاف مزارات سے بہت زیادہ کمائی کرتا ہے لیکن مزارات اور مساجد کی دیکھ بھال کے حوالے سے انتہائی بُری صورتحال ہے۔شاہ چراغ مسجد میں رات کے وقت بے شمار لوگ آکر سوجاتے ہیں۔ مسجد اور مزار کا تقدس پامال کرتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ مزار مبارک کے ساتھ ہائی کورٹ کی عمارت ہے۔ امن و عامہ کے موجودہ حالت کے پیش نظر دہشتگردی کا خطرہ ہے۔ حکومت پنجاب کی گڈ گورنس کے حالات سب کے سامنے ہیں کہ نوکر شاہی نے اداروں کو تباہ برباد کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین رشوت کے رسیا بن چکے ہیں۔ ملازمین کی بڑی تعداد کام چور ہے اور دفتری اوقات میں دفتر بیٹھنا اُن کے لیے سوہاں روح بن جاتا ہے۔ بغیر رخصت لیے کئی کئی دن غیر حاضر رہتے ہیں۔ یوں پاکستان بھر کے سرکاری ادارئے اپنی ساکھ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ نہ جانے ہماری نوکر شاہی نے خود کو اوتار کیوں سمجھ لیا ہے وجہ یہی ہے کہ سرمایہ داروں ، وڈیروں کے ہاتھوں حکومت ہے وہ اپنے ہر طرح کے اللے تللے قومی وسائل سے پورا کرتے ہیں۔ یوں حلال حرام کی تمیز ختم کرکے نوکر شاہی نے اپنے پیروکاروں اور چھوتے ملازمین کو بھی حرام کھانے کا راستہ دیکھا دیا ہے۔ یوں بڑاڈاکو چھوٹے چور کی چوریوں سے صرف نظر کیے ہوئے ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری اوقاف، ڈائریکٹر جنرل اوقاف پنجاب کو اِس تاریخی مسجد اور دربار کی دیکھ بھال کے لیے ایماندا آفیشلز کی تعیناتی کرنی چاہیے۔ راقم نے تو صرف ایک مسجد اور مزار کا ذکر کیا ہے یہاں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا پڑا ہے۔