Sunday, 26 June 2016

حضرت سید عبدالرزاق المعروف شاہ چراغ لاہورؒ ی۔تاریخ کا ایک ورق ...BY صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


حضرت سید عبدالرزاق المعروف شاہ چراغ لاہورؒ ی۔تاریخ کا ایک ورق

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

اللہ پاک کے نیک بندوں نے خالق کے پیغام کو سسکتی ہوئی انسانیت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نبی پاکﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد اللہ کے ولی اِس ذمہ داری کو نبھاتے ہیں۔کہ اللہ پاک اور نبی پاکﷺ کے پیغام کو دنیا میں پھلاتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں اولیا اکرامؒ نے اسلما کی اشاعت کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔مسجد شاہ چراغ، عہد شاہ جہانی کے ایک بزرگ حضرت شاہ چراغ ؒ کے نام سے نسبت رکھتی ہے۔ ان کا پیدائشی نام سید عبدالرزاق تھا بعدازاں اپنے دادا کے دیئے پیار کے نام کے باعث دنیا بھر میں شاہ چراغ کے نام سے جانے گئے۔ ان کا شمار لاہور میں مدفون ان اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جن کے معتقدین میں اس وقت کے بادشاہ اور اہل حکم بھی رہے۔ ان کے آباواجداد اوچ شریف ریاست بہاولپور سے تھے۔ نقوش لاہور نمبر (ص305) کے مطابق’’ان کا اصل نام سید عبدالرزاقؒ تھا۔ والد کا نام عبدالوہاب بن سید عبدالقادر ثالث بن محمد غوث بالا پیر سادات گیلان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بزرگ قصبہ اوچ (بہاولپور) سے ست گرہ (منٹگمری) میں آئے۔ ست گرہ سے ان کے جد امجد محمد غوثؒ بالا پیر پہنچے۔ یہ زمانہ غالباً ہمایوں بادشاہ کا تھا۔آپ نے شہر سے باہر جنوب مشرق کی طرف قیام کیا اور اپنے علاقے کا نام (بقول صاحب تحقیقات چشتی) رسول پورہ رکھا۔ لیکن جب ہمایوں نے لنگر خان بلوچ کو لاہور میں جاگیر دی اور لنگر خان نے یہاں اپنے عالیشان مکانات تعمیر کرائے اور رفتہ رفتہ یہاں ایک محلہ آباد ہو گیا تو رسول پورہ کی جگہ لنگر خان نے لے لی۔ اب نہ رسول پورہ ہے نہ محلہ لنگر خان، نہ عالیشان مکانات کے کوئی آثار، جب سید عبدالرزاق پیدا ہوئے تو ان کے جد امجد صاحب حیات تھے۔ انہوں نے فرمایا ’’در خانہ چراغے پیدا شدہ است کہ خانہ خاندان ماز منور گردد‘‘۔ اس لئے شاہ چراغ کے خطاب سے مشہور ہو گئے اور یہ نام کچھ ایسا مشہور ہوا کہ عوام اصل نام کو بھی بھول گئے‘‘۔جگہوں اور مقامات کے نام کو تبدیل کرنے کی روایت دنیا بھر میں موجود رہی۔ جس طرح حضرت شاہ چراغ ؒ کی وفات 1068ھ بمطابق 1657ء کو ہوئی۔ مزار کی تعمیر کے حوالے سے مورخین کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ مزار کی تعمیر بحکم شاہ جہاں ہوئی اور کچھ مورخین کا یہ کہنا ہے کہ مزار مبارک کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر کے احکامات سے ہوئی اگر وفات کے ان کے ایام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو شاہجہاں اتنی طاقت ہی میں نہیں تھا جس سے ایسے احکامات جاری کئے جاتے۔ اسی لئے اورنگزیب کے حوالے سے جڑی روایت زیادہ مستند دکھائی دیتی ہے۔مزار اور اس سے ملحقہ مسجد کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص26) پر یوں تحریر کیا۔’’یہ مقبرہ مربع صورت کا پختہ چونے کی عمارت کا بنایا گیا ہے۔ دروازہ جنوب کی سمت ہے۔ مقبرے کے اندر آٹھ قبریں ہیں۔ ایک تو شاہ چراغ کی اور سات ان کی اولاد کی۔ چھ خشتی قالبوتی داد اور اوپر عالی شان گنبد ہے۔ مسجد بھی چونہ گچ ہے جس کی پانچ محرابیں اور پانچ گنبد ہیں۔ انگریزوں کی عمل داری ہوئی تو اس کو کوٹھی بنا لیا گیا اور میجر میگریگر صاحب و ویڈربرن صاحب وسمم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنران اس میں رہتے رہے۔ پھر اکاونٹنٹ کا دفتر اس میں مقرر ہو گیا۔ اب کوٹھی یعنی مسجد کا احاطہ علیحدہ ہے اور مقبرے کا علیحدہ اور مقبرے پر قبضہ سادات گیلانی کا ہے۔ ہر سال یہاں میلہ ربیع الثانی کی سترھویں تاریخ کو ہوتا ہے اور خلقت بہت جمع ہوتی ہے۔‘‘نواب زکریا خان کی والدوہ بیگم جان کو حضرت شاہ چراغؒ کے مزار سے انتہائی عقیدت تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اس مزار کے ساتھ ملحقہ جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کروائی اور ساتھ ساتھ یہ بھی وصیت کی کہ اگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی تو ان کے بعد ان کے زیورات بیچ کر مسجد کی تعمیر مکمل کی جائے۔لاہور میں مساجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار شہنشاہ اکبر کی بیگم مہارانی جودھا بائی سے شروع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی تعمیر کردہ مسجد ’’بیگم شاہی مسجد‘‘ آج بھی قلعہ لاہور کی مشرقی سیدھ میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے بعد یہ سلسلہ دائی لاڈو‘ دائی انگہ‘ رانی موراں کی تعمیر کردہ مساجد میں دکھائی دیتا ہے۔ کچھ تذکرہ بیگم جان کا کرتے ہیں جن کے نام پر لاہور میں بیگم پورہ کی آبادی ہے۔ وہ تو نواب عبدالصمد خان کی اہلیہ اور نواب زکریا خان کی والدہ تھیں۔ نواب زکریا خان والی لاہور کا عہد 1726۔1745ء تک کا ہے۔ اس لئے قرین قیاس ہے کہ مسجد کی تعمیر اس عہد کی ہے۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش سالنامہ 1989 (ص83) پروفیسر اسلم لکھتے ہیں’’بیگم جان بڑی عالمہ، فاضلہ اور خداشناس خاتون تھی۔ اس کا نسب بھی خواجہ ناصر الدین عبیداللہ امرادؒ سے جا ملتا ہے۔ اس نے اپنی وفات سے پہلے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے زیورات فروخت کر کے ان کی آمدنی سے ایک مسجد بنوا دی جائے۔ چنانچہ حضرت شاہ چرا غ ؒ کے مزار سے ملحقہ مسجد ان ہی زیورات کی آمدنی سے پایہء تکمیل کو پہنچی۔نواب زکریا خان کے عہد کے بعد اس مسجد نے بے شمار حوادث دیکھے۔ ان حوادث کے باعث مسجد کی اصل عمارت محض پرانی کتابوں کی تحریروں کا حصہ بن کر رہ گئی۔ لاہور کی کئی دیگر مساجد کی مانند سکھی عہد میں یہ مسجد بھی بارود سے بھری رہی۔ انگریز سرکار کے عہد میں انتظامی مسائل کے باعث کئی تاریخی مساجد کو افسران کی رہائش گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا اور اسی مقام پر سیشن جج کی عدالت بھی لگنے لگی۔ اکاونٹنٹ جنرل کا دفتر بھی قائم رہا۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر(ص307) سے درج ذیل ہے۔’’آج سے چند سال پیشتر یہ جگہ بالکل اجاڑ اور غیر آباد سی تھی۔ احاطے میں جھاڑیاں اور درخت اگے ہوئے تھے۔ چار دیواری خستہ حال تھی۔ لیکن 1935ء میں مسجد شہید گنج کی ایجی ٹیشن کے بعد جب مسجد شاہ چراغ مسلمانوں کو مل گئی اور سرکار نے اپنا قبضہ اس پر سے اٹھا لیا تو اس جگہ ریزو بینک کی عالیشان عمارت تعمیر ہو گئی اور اس چار دیواری کو جس میں والدہ نواب خان بہادر کی قبر بیان کی جاتی ہے، از سر نو تعمیر کر کے اس کے گرد جنگلہ لگا دیا گیا۔‘‘تحقیقات چشتی میں لکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس چار دیواری کے گرد ایک چھوٹا سا باغ تھا اس لئے کہ اس جگہ اب بھی پختہ خیابان کے آثار نظر آتے ہیں۔ درختوں کے جھنڈ میں ون کے درخت زیادہ نہ تھے۔مقبرہ شاہ چراغ، مسجد شاہ چراغ اور اس مختصر سی چار دیواری کی حالت نسبتا بہتر ہے۔ جمعہ اور جماعت کی نمازوں میں اچھی خاصی رونق ہوتی ہے۔‘‘جب مال رورڈ پر جی پی او چوک میں پہنچا جائے تو بائیں جانب ایک سڑک نیچے کو پرانے اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ کو جاتی ہے جس سے آگے ایک چرچ ’’سکینڈ بیوز پریسن کیبرین چرچ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ پرانے اسٹیٹ بینک کی یہ عمارت اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے استعمال میں ہے۔ اس بلڈنگ سے بائیں جانب ایک انتہائی خوبصورت عمارت دکھائی دیتی ہے جس میں مغل اور انگریز طرز تعمیر ملا جلا دکھائی دیتا ہے۔یہ جگہ کچھ برس قبل تک سڑک سے گزرنے والے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہائی کورٹ کے داخلی دروازے سے مغربی سیدھ تک سرکار کی مدح سرائی میں بڑے بڑے سائن بورڈ نصب تھے جو کہ بعدازاں ہٹا دیئے گے اور وہاں پر لوہے کے جنگلے نصب کر دیئے گئے جس کی وجہ سے اب یہ عمارت عوام کی نظروں میں ہے۔ لب سڑک لوہے کے ایک جنگلے پر ’’ایوان اوقاف‘‘ ماتھے پر تحریر دکھائی دیتا ہے۔ اندر داخل ہوں تو بائیں جانب اکاونٹنٹ جنرل کے پرانے دفاتر اب وکلاء اور چیمبرز کے استعمال میں ہیں۔ان سے پیچھے مشرقی سیدھ میں محکمہ اوقاف کے دفاتر‘ لائبریری ہے۔ لاہور جیسے عظیم تاریخی ورثے کے مالک اس شہر میں کیونکہ زیادہ تر تاریخی عمارتیں، آثار قدیمہ اور مذہبی تاریخی عمارتیں محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی ہیں۔ ان دفاتر میں وہ تمام سہولتیں اوردور جدید کے ذرائع موجود ہونے چاہئیں جو اس طرح کی تاریخی عمارات کی حفاظت کے لئے دنیا کے کئی دیگر ممالک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ محکمے پرانے فائلوں کے نظام میں گڑ ے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں کام کرنے والے افراد کی ان جدید علوم تک رسائی تو کجا ان میں سے اکثریت شہر لاہور کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔دفاتر سے آگے گاڑیوں کی پارکنگ‘ اے جی آفس اور لاہور ہائیکورٹ کی عمارت کی شمال جنوب سیدھ کا پچھلا حصہ ہے۔ اوقاف کے دفاتر کے سامنے ہی چند سیڑھیاں اوپر کو جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر بائیں جانب حضرت شاہ چراغؒ کا مزار شریف ہے اور بائیں جانب مسجد کی عمارت ہے۔دائیں جانب مزار کے گنبد کی چار دیواری اور عمارت میں عالمگیری عہد کی تعمیر کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ مزار کی عمارت کے چاروں کونوں پر انتہائی چھوٹے مینار ہیں جن کے نیچے محرابی طرز تعمیر دیواروں میں نمایاں ہے اور یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ کبھی ان پر کاشی کاری کا کام ضرور موجود ہو گا۔ مگر اب وہاں پر سوائے سفیدی کے اور کچھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے اوپر مزار کا خوبصورت گنبد ہے جس پر سبز رنگ کا روغن کر کے قدامت کے تمام نشان ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اندرونی احاطے میں ایک سے زائد قبور ہیں اور ایک قبر کے سرہانے یہ تختی نصب ہے۔مرقد انوار ،سید عبدالرزاق، المعروف حضرت بابا شاہ چراغؒ لاہوری،گنبد کے اندرونی حصوں میں کاشی کے پرانے کام کو از سر نو کیا گیا ہے جو کہ عہد رفتہ سے ہرگز میل نہیں کھاتے۔ مزار کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی باہر معلوماتی تختیاں نصب ہیں۔ مزار کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں دیگر افراد کی قبور بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان قبور کے ساتھ مغربی سیدھ میں ایک قدیم درخت آج بھی موجود ہے۔ مسجد کے صحن میں لوہے کے جنگلے نصب کرکے نمازیوں کی سہولت کے لئے پنکھے لگائے گئے ہیں۔مسجد کی پانچ پرانی محرابیں آج بھی پھول پتیوں کے کام سے منقش ملتی ہیں۔ لیکن کاشی کا تمام پرانا کام سفیدی کی تہوں میں گم ہو چکا ہے۔ محرابوں سے سجی عمارت طولانی سیدھ میں زیادہ اور چوڑائی میں انتہائی کم ہے۔ محرابوں کے ساتھ اور اندرونی درمیانی عمارت مقطع ہے۔ ان کی چھت کے نیچے سے اوپر نمایاں طور پر گنبد مترور تعمیر کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ چھت کے اوپر گنبد اردگرد کی عمارات کی چھتوں ہی سے دکھائی دے سکتے ہیں۔اگر مسجد کی تمام موجودہ عمارت سے سفیدی کو کھرچا جائے اور پرانی عمارات کے ماہرین کے ذریعے قدیم رنگ بحال کرنے کی کوشش کی جائے تو مسجد اپنے ابتدائی ایام کی مانند دکھائی دینے لگے۔ مسجد کی پانچ محرابوں میں سے وسطی محراب کلاں ہے اور دیگر خورد، وسطی محراب کے ماتھے پر مشرقی سیدھ میں کلمہ شریف اور دور جدید کی خطاطی میں اللہ اور محمد ﷺ دائیں اور بائیں سیدھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔لاہور کے عین وسط میں ہائی کورٹ سے ملحقہ جی پی او چوک و سپریم کورٹ سے متصل حضرت شاہ چراغ لاہوری ؒ کا مزار مبارک ہے اور ساتھ ہی مسجد بھی ہے۔ انتہائی اہم جگہ پر واقع ہونے کی وجہ سے مسجد میں نماز جمعہ اور نماز پنجگانہ کے اوقات میں کافی رش ہوتا ہے۔ مغلیہ خاندان کے دور میں بننے والی اِس عظیم مسجد کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔اِس مسجد اور مزار مبارک کو ثقافتی ورثہ کی حثیت حاصل ہے۔ راجہ رنجیت سنگھ نے اس مسجد کو کافی نقصان پہنچایا لیکن اِس نقصان کی تو شائد تلافی نہ ہوسکے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ اوقاف کے زیر انتظام انصرام اِس مسجد اور مزار مبارک کی شکستہ حالی پر نہایت افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان بن گیا لیکن اپنی روایات کا امین بننے کی بجائے اِس مسجد میں نہ تو صفائی کا انتظام ہے اور نہ ہی اِس کی ضروری مرمت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ حتی کہ پنکھے بھی کام نہیں کرتے ۔ اور جمعہ والے دن دھوپ سے بچاؤ کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا۔ اِس مسجد سے محکمہ اوقاف کی بلدنگ ہے جہاں محکمہ اوقاف کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل صاحبان تشریف فرما ہوتے ہیں۔ یعنی اوقاف کے محکمے کا صدر دفتر اور مسجد کا ایک دروازہ آپس میں جُڑا ہوا ہے۔ سخت گرمی میں ہوا کا انتظام نہیں۔ باتھ روم کی صفائی نہیں ہوتی۔ باتھ روم میں روشنی کا انتظام نہیں برسوں سے باتھ روم کے بلب فیوز ہو چکے ہیں۔ مسجد کے قالین کی صفائی کا عالم یہ ہے کہ اِس میں سے بد بو آرہی ہے اِس قالین کو بارہ سال پیشتر دھلوایا گیا تھا۔ جب اوقاف کے اہلکاروں کو قالین کی صفائی کی بابت کہا گیا تو اُن کا ستدالال یہ تھا کہ چونکہ ہمارئے پاس اِس مد میں رقم نہیں ہے۔ اِس لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لاہور میں اور دیگر شہروں میں ایسا ہی ہے کہ بزرگوں کے مزارات کے ساتھ مساجد بھی ہیں محکمہ اوقاف مزارات سے بہت زیادہ کمائی کرتا ہے لیکن مزارات اور مساجد کی دیکھ بھال کے حوالے سے انتہائی بُری صورتحال ہے۔شاہ چراغ مسجد میں رات کے وقت بے شمار لوگ آکر سوجاتے ہیں۔ مسجد اور مزار کا تقدس پامال کرتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ مزار مبارک کے ساتھ ہائی کورٹ کی عمارت ہے۔ امن و عامہ کے موجودہ حالت کے پیش نظر دہشتگردی کا خطرہ ہے۔ حکومت پنجاب کی گڈ گورنس کے حالات سب کے سامنے ہیں کہ نوکر شاہی نے اداروں کو تباہ برباد کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین رشوت کے رسیا بن چکے ہیں۔ ملازمین کی بڑی تعداد کام چور ہے اور دفتری اوقات میں دفتر بیٹھنا اُن کے لیے سوہاں روح بن جاتا ہے۔ بغیر رخصت لیے کئی کئی دن غیر حاضر رہتے ہیں۔ یوں پاکستان بھر کے سرکاری ادارئے اپنی ساکھ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ نہ جانے ہماری نوکر شاہی نے خود کو اوتار کیوں سمجھ لیا ہے وجہ یہی ہے کہ سرمایہ داروں ، وڈیروں کے ہاتھوں حکومت ہے وہ اپنے ہر طرح کے اللے تللے قومی وسائل سے پورا کرتے ہیں۔ یوں حلال حرام کی تمیز ختم کرکے نوکر شاہی نے اپنے پیروکاروں اور چھوتے ملازمین کو بھی حرام کھانے کا راستہ دیکھا دیا ہے۔ یوں بڑاڈاکو چھوٹے چور کی چوریوں سے صرف نظر کیے ہوئے ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری اوقاف، ڈائریکٹر جنرل اوقاف پنجاب کو اِس تاریخی مسجد اور دربار کی دیکھ بھال کے لیے ایماندا آفیشلز کی تعیناتی کرنی چاہیے۔ راقم نے تو صرف ایک مسجد اور مزار کا ذکر کیا ہے یہاں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا پڑا ہے۔ 

Saturday, 25 June 2016

Sunday, 19 June 2016

میاں جی ؒ کی باتیں حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ دربار عالیہ زاویہ نوشاہی نیومسلم ٹاون سرگودہاکے ملفوظات جانشین و جگر گوشہ قبلہ حکیم صاحبؒ صاحبزادہ پیر میاں محمد یوسف خان قادری نوشاہی صاحب کی زبانی


میاں جی ؒ کی باتیں

حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ دربار عالیہ زاویہ نوشاہی نیومسلم ٹاون سرگودہاکے ملفوظات
جانشین و جگر گوشہ قبلہ حکیم صاحبؒ 
صاحبزادہ پیر میاں محمد یوسف خان قادری نوشاہی صاحب کی زبانی
COMPILED BY ASHRAF ASMI ADV

۔ میاں جیؒ عہد اسلاف کی وہ نشانی تھے جن کی زندگی عشق رسولﷺ، پاکستان سے محبت اور انسانوں سے پیار سے عبارت ہے۔ میاں جی ؒ کا اصلی نام شائد کسی کو بھی معلوم نہ ہو چھوٹا بڑاسب لوگ اُنھیں میاں جی کہتے ۔میاں جی ؒ کے متعلق یہ ہی بات مشہور تھی کے انھوں نے مشہور حکیم قرشی سے حکمت سیکھی تھی۔ میاں جی بہت اعلیٰ پائے کے نبض شناس تھے۔میاں جیؒ کی حکمت کے ساتھ اور جو خصوصیت تھی وہ اُن کا روحانی فیض تھا۔اِسی گھر میں کئی دہائیوں سے مقیم تھے ۔ دن بھر لوگ آتے کوئی دوا لیتا اور کوئی دُعا کا طلب گار ہوتا۔میاں جی روایتی پیری مریدی کے قائل نہ تھے لیکن اُن کے حلقے میں شامل افراد انتہائی پڑھے لکھے تھے۔علماء۔نوجوان، پروفیسرز ڈاکٹرز، پی ایچ ڈی کے حامل ریسرچ سکالرز،پائلٹ، فوج کے اعلیٰ افسران۔گویا دکانداری والی پیری مریدی سے کوسوں دور میاں جی نے ایک ایسا نگر آباد کر رکھا تھا جہاں ہر دکھی کو جسمانی اور روحانی ہر بیماری سے شفا ملتی۔ میاں جی نہایت نفیس انسان۔ پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا۔ اور اپنا سارا خاندان قربان کرکے ہجرت کی۔مال و متاع سے بالکل رغبت نہ تھی۔ جو بھی اسباب ہوتے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔ عام دیکھنے والا یہ ہی تصور کرتا کہ شائد وہ کافی مال دار ہیں کہ ہر وقت لنگر کا اہتمام۔جو بھی اُن کے ہاں آتا اُسے فوری طور پر کھانا پیش کیا جاتا۔میاں جیؒ سادہ لباس پہنتے۔ سفید قمیض اور سفید رنگ کا ہی تہمد اور نوشہ گنج بخشؒ سے نسبت کا حامل پیلے سے رنگ کا کپڑا، جسے وہ صافا کہتے اُن کے کندھے پر ہوتا اور سفید رنگ کی کپڑئے کی بنی ہوئی ٹوپی اُن کے سر پہ ہوتی۔میاں جی ؒ کی نفاست ہر کام میں اتنی کے دیکھنے والوں کو رشک آتا۔ نہایت صاف سادہ کپڑئے پہنتے او ر بناوٹ دیکھاوئے سے ہمیشہ دور رہتے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جو بھی اُن سے ایک دفعہ ملنے آجاتا تو پھر ہمیشہ کے لیے اُن کی محفل کا شریک بنا رہتا۔ تاریخ عالم پر گہری نظر، اسلام کی حقانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا میاں جی کے دل و روح کے اندر۔کتابوں کا ایک لازوال ذخیرہ کہ جہاں سے بڑئے بڑئے سکالر آکر استفادہ کرتے۔اللہ پاک کے دوست میاں جیؒ ہر ملاقاتی سے ایسے ملتے جیسے کہ وہ اُن سے سب زیادہ قریب ہو۔میاں جیؒ کا ڈیرہ ایسی درگاہ ہے کہ جہاں سے عشق رسولﷺ کی دولت سے ہر کوئی مال ومال ہوتا۔میاں جیؒ ہر آنے والے کو خصوصی محبت سے نوازتے اورکھانے پینے سے خوب خاطر مدارت ہوتی۔ نوجوانوں کی تعداد آپکی محفل میں ہمیشہ زیادہ ہوتی۔ حضرت اقبالؒ کے بقول ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ساقی بھی اگر میاں جی ؒ جیسا ہو تو پھرعشق رسولﷺ کا جام ۔دنیا کہ ہر شے سے ماورا کر دیتا ہے۔آپؒ کے لب ہلتے اور گویا ہوتے نبی پاکﷺ کا نام جب بھی لیتے تو فرماتے سرکار دوجہاںﷺ۔آپؒ گویا ہوتے تو پھر الفاظ ہاتھ باندھ لیتے اور آپ بولتے الفاظ خاموش رہتے۔آپ کے الفاظ میں دھن گرج ایسی کہ جیسے کوئی سولہ سترہ سال کا نوجوان نبی پاکﷺ کی محبت میں مخاطب ہے۔آپؒ کے الفاظ یہ پیغام دئے رہے ہوتے کہ جس کا دل مظرب ہو وہ خود کو ہی نہ ڈھونڈ پا رہا ہو۔ جسے دنیا کی بے وفائی اور بے ثباتی کادُکھ ہو۔پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے پناہ پھر ایسی جگہ ملے جہاں سے کائنات کی ہر ذی روح فیض لے رہی ہو۔ جس کی خاطر خالق نے پوری کائنات پیدا کی ہو۔ پھر مبدا خلق عالم کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے جس کے دربار سے رحمت کا حصول ہو۔جب تمام دنیاوی رشتے دم توڑ جائیں تو پھر ایک ہی ہستی کا سہارا رہ جاتا ہے جو کہ ماں باپ اولاد مال سب سے بڑھ کر محبت کا منبع ہے۔وہ ہستی صرف رسول پاکﷺ کی ہے۔آپ کی گفتگو سن کر نوجوان سحر میں کھو جاتے۔ میاں جیؒ کا ایک بہت بڑا وصف یہ بھی تھا کہ وہ ظاہری نمود و نمائش سے ماورا تھے اور نوجوانوں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں جیسا ہوتا ۔ ہر کسی کے دکھ درد کی خبر رکھتے۔ رہنمائی فرماتے۔ حوصلہ دیتے اور خاص طور فرماتے کہ شیر بن۔جس جس کو اسباب درکار ہوتے اُس کی مدد فرماتے۔ کوئی بنک اکاونٹ اور نہ کوئی تجوری۔سب کچھ ہی تو خالق کی مخلوق کے لیے وقت کیا ہوا تھا۔ جیسے جیسے خالق نوازتا چلا جاتا ویسے ویسے میاں جی ؒ تقسیم فرماتے چلے جاتے۔میاں جی کے ڈیرئے کا ایک عجیب وصف ہے کہ جب تک میاں جی حیات رہے اُن کے ڈیرئے سے کوئی بھی شخص ناراض یا دکھی ہو کر نہ گیا۔ بلکہ ہر آنے والے سکون کی دولت لے کر گیا اور میاں جی نے اپنے رب کی عظا سے اُس کو امید کے دنیا میں جینے کے عزم سے لیس کیا۔ اکثر عشاء کے بعد نوجوان آپکے ڈیرئے پہ آجاتے اور میاں جی سے اپنے دن بھر کے معاملات کی بابت اپنا احوال بتاتے۔آپ ہر کسی کو نوازتے۔ حوصلہ دیتے۔ اور صوفیا کہ انداز تربیت سے غیر محسوس انداز میں رہنمائی فرماتے۔میاں جی کی شخصیت اتنی سلنشین تھی کے اُن کے ڈیرئے پہ آنے والا ایک ایک شخص اُن سے اپنے دل کی بات کہہ کر اپنا غم ہلکا کر لیتا۔ کوئی نمود نمائش نہیں تو تھی میاں جی میں۔ ہر کسی کی بات کو محبت سے سُنتے۔بناوٹ اور تصنہ تو چھو کر بھی میاں جیؒ کو نہیں گزرئے تھے۔آپ بعض اوقات چارپائی پر لیٹے لیٹے پاس بیٹھے ہوئے حاضرین کو تصوف کے دریچوں سے روشنی دیکھاتے چلے جاتے آپ فرماتے کہ لو بھی دوستو: پھر آپ کا فرمان شروع ہوجاتا اور ایک گفتگو کا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ سُننے والے محو ہوجاتے اور میاں جی فرما رہے ہوتے کہجب بندہ اہتمام کے ساتھ اپنے خالق ومالک کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے اور اپنے دُکھوں کا بوجھ خالق کے دربا رمیں عرض کی صورت میں رکھتا ہے تب خالق اپنے بندے کی عاجزی اور انکساری کو بہت پسند کرتا ہے اور بندے کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے ۔رب پاک اور بندے کا تعلق اسی طرح ہے جس طرح ایک بے حس وحرکت تصویر کو بنا نا والا جیسے مرضی رنگ بھردے اور اِن رنگوں کی بدولت وہ تصویر ایک خوبصورت نظر آنے لگے ۔اب مصور اور تصویر کا جو تعلق ہوتا ہے وہ خالق اور محلوق والا ہے ۔انسان کی پیدائش سے موت تک کے تمام تر حالات وواقعات اِس بات کے شاہد ہیں کہ انسان کی حثیت کیا ہے ۔محبت کے ساتھ نفرت بھی انسان کی جبلت میں ہے ۔چاہے جانے کا جذبہ انسان سے نیکیاں بھی کرواتا ہے اور انسان کو بدی کی طرف بھی لے جاتا ہے ۔بندے کی ساری تگ و دو ایک ایسے ٹائم فریم کے اندرہے جس کے متعلق کچھ بھی حتمی نہیں ۔اگر ایک جہا ز لاہور سے پرواز کرتا ہے اُسے ساوتھ افریقہ جانا ہے ۔اب راستے میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے ۔یہ ہی انہونی یا Probility کا جو فیکٹر ہے یہ ہی خالق کے وجودکی گوا ہی دیتا ہے اور خالق کے ہونے کی دلالت کرتا ہے ۔سفر منزل کی جانب جب شروع ہو اور سفر کرنے والے کو منزل تک پہنچنے کی بے یقینی ہو تو در حقیقت یہ بے یقینی رب پاک پر حق الیقین ہے خالق کے معبود ہونے کی پہچان ہر اُس عمل سے ہو تی ہے جو بندے کے ارادوں کے مخالف ہو ۔ذرا تصور فرمائیے اگر انسان دوسرئے سے عاجزی اور انکساری سے ملتا ہے اور اُس کے سامنے اپنا دکھ بیان کرتا ہے تو جس کے سامنے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے وہ بھی اپنے دل میں نرمی پیدا کر لیتا ہے ۔یہ حال تو ایک دنیا دار شخص ہے لیکن خالق کے سامنے جب عجز و انکساری ہو اور خالق اپنے بندئے سے بے پناہ محبت کرتا ہے وہ اپنے بندئے کو خالی نہیں لوٹاتا۔عبد کا اختیار اُسکی عبدیت پر منحصر ہے جیسے جیسے وہ اپنے رب کے رستے پر چلتا ہے ویسے ویسے وہ ایک مقبول عبد کی حثیت حاصل کرلیتاہے ۔ ہو۔انبیا ء اکرام تو گنا ہوں سے پاک ہیں وہ بشری لبادے میں رب پاک کے خاص عبد ہیں ۔اُن پر اُس طرح کے قوانین فطر ت کا اطلاق نہیں جس طرح ہم پر ہے ۔
خالصتااپنے خالق کی رضا کو اپنا لینا بندے کو رب کا دوست بنا دیتا ہے ۔خالق اُ س بندے پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول کرتا ہے ۔حتی کے خالق اپنے بندے کے نازبھی اُٹھاتاہے ۔بندہِ مومن کی آنکھ خالق کی آنکھ قرارپاتی ہے ۔بند ہ مو من کی خواہش کی تکمیل خالق فرما دیتا ہے۔انسانی رویے کے حوالے سے اگر ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو یہاں معاشیات کا ایک مفروضہ جسے لائف سائیکل ہائی پوتیسیزکا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور اُس کی حالت اِیسی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کماء سکے لیکن اُس کی ذات پر اخراجات کافی آتے ہیں۔ اُس کی خوراک اُس کے لیے میڈیکل کی سہولیات، کپڑئے وغیرہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے نگہداشت کے لیے کُل وقتی ایک عدد سہارئے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے لیے ہورہا ہوتا ہے اب آئیے اِس نقطے پہ غور کرتے ہیں کہ ایک انسان کے بچے کی نگہداشت کا معاملہ خالق نے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ خالق تو جانوروں پرندوں سب کی پرورش پر قادر ہے اور وہ ایسا کرتا ہے ۔اِسی لائف سائیکل مفروٖضے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت وہ اِس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کمائی کرئے اور اُس کی اپنی ذات پر اتنا خرچ نہیں ہوتا جتنا وہ کما رہا ہوتا ہے۔ اب اگرہم خالق کے نظام کو دیکھیں کہ کس طرح ہر ذی روح کو اُس نے ایک دوسرئے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اور کائنات کا نظام جاری و ساری ہے ۔ میاں جیؒ فرماء رہے ہوتے اور سُننے والے سُن رہے ہوتے۔کوئی بھی تو میاں جی ؒ کی محفل میں اکتاہٹ کا شکار نہ ہوتا تھا ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ ایک اللہ کا دوست محبت سے ہر کسی کے دکھ سُن کر اُن کو دعا دئے رہا ہوتا ۔ حوصلہ دئے رہا ہوتا
میاں جی کے ڈیرئے پر آنے والے ہر کوئی یوں محسوس ہوتا کہ میاں جیؒ میرا بہت خیالر رکھتے ہیں میاں جی اُن کے بچون تک سے پیار کرتے اور اُن کو خصوصی محبت سے نوازتے۔یوں چھوٹے بچوں کو بھی میاں جی سے بہت زیادہ اُنس تھا۔ میاں جی ؒ خود بہت ہی سادہ غذا کھاتے لیکن مہمانوں کی خوب خاطر مدارت کرتے۔اللہ پاک کے نیک بندوں کا ہمیشہ سے وصف ہے کہ اُن کے ہاں لنگر نہیں رُکتا۔ میاں جی اکثر اُن نوجواں کے انتظار میں ہوتے جو عام طور پر اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر روزانہ اُن کے پاس چلے آتے اور میاں جی پھر علم وحکمت کے ایسے موتی بکھیرتے کے اللہ اللہ۔ میاں جی ہر آنو والے کا اتنا خیال رکھتے کہ گمان ہوتا کہ شائد میاں جیؒ کی ڈیوٹی ہی صرف اِس کام پر ہے۔ اپنے لیے کچھ طلب نہ فرماتے ہمیشہ دیتے ہی چلے جاتے۔ اِسی طرھ اُن کا حقہ اُن کے پاس پڑا ہوا اور وہ کبھی لیتیلیٹے اور کبھی بیٹھ گفتگو فرماتے ۔وہ اِس طرح فرماتے کہ اُن کی بات دل کی آواز محسوس ہوتی میاں جی تو شاید کسی اور ہی نگ میں رنگے ہوئے انسان تھے۔ اکثر جب من کی باتیں ہوتیں تو فرماتے کہ من کے اُجرنے کی وجہ بہت سے ایسی بیماریاں ہیں جوظاہری طور پر تو چھوٹی چھوٹی خواہشات سے جنم لیتی ہیں لیکن یہ ہی خواہشات من کے اندر ایسے مچلتی ہیں کہ کہ اُسکا اثر پھر تن پہ بھی دیکھائی دیتا ہے۔اِس لیے زندگی زندگی کو سوہاں روح بنانے میں یہ ہی اچھوتی خواہشیں اثدھا بن جاتی ہیں جہاں پھر نیکی کا ٹھرنا ممکن نہیں رہتا۔ زمانے کے انداز خود پرحاوی کر لینے سے معاملات بگڑتے ہیں سنبھلتے نہیں۔ لالچ ایک ایسا سراب ہے کہ انسان کو اپنی طرف اِس طرح کھینچتا ہے کہ انسان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔لالچ کا سلسلہ یوں ہی رُکتا نہیں بلکہ لالچ نئے لالچ کو جنم دیتا ہے۔یہ لالچ ایسے کنویں کی حثیت اختیار کر جاتا ہے کہ اِس گڑھے سے باہرنکلنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اِس سے قطع تعلق ہونا انسان کے لیے اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اِنسان انسانیت کے دائرئے سے بھی نکل جاتا ہے۔ یہ ہی لالچ پھر المیوں کو جنم دیتا ہے۔ایک کے بعد ایک المیہ۔زندگی کا مقصد صرف ہوس بن کر رہ جاتا ہے۔یہ ہی ہوس چھوتی بیماری کی طرح دیگر ہم عصروں کو بھی اپنا شکار کر لیتی ہے بالکل اِسی طرح جیسے راہزن راہبر بن جائے۔انسان ہونے کے مقام سے لالچ انسان کو ہٹا دیتا ہے۔ درندگی کا حامل بنا دیتا ہے۔ محبت خلوص کے راستے کو ویران کر دیتا ہے۔وفا نام کی کوئی شے بھی لالچ کے قریب نہیں پھٹکتی۔انسانی وقار کو نہ صرف شدید دھچکا لگتا ہے ۔صوفی چونکہ اپنے خالق کی طرف امید لگائے ہوتا ہے اور اُسے یہ ادارک ہو جاتا ہے۔ کہ لالچ تو خود کو مردہ کرنے کا نام ہے چونکہ لالچ دنیاوی عارضی شے سے ہوتا ہے اِس لیے اُس شے کے اندر دیرپائی بھی نہیں ہوتی۔جب محرک یہ ہو کہ گوہر نایاب کو پانا ہے تو پھرُ اُس کی تلاش کے لیے صاحب نظر ہی تحریک پیدا کرتا ہے اور صاحب نظرکی تمام تر تحریک کا ماخذ عمل کی طرف سفر ہوتا ہے دعویٰ عشق اور پھر بعد ازاں عشق کی لاج رکھناہی عشق ہے۔اِس لیے صوفی کے اندر طمع نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔اِس کا مطلب یہ نہیں کہ صوفی کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ بات یہ ہے کہ صوفی نے اپنی ضروریات کو محدود کر لیا ہوتا ہے۔ میاں جی اپنے گفتگو کے دوران حقے کے کش بھی لگاتے ۔ اور پھر گویا ہوتے کہ صوفی کو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ تصنہ بناوٹ سے منزل نہیں پائی جاسکتی تفکرات انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتے ہیں۔ اِسی وجہ سے نادانستگی میں انسان سے ظلم روا ہوجاتا ہے۔ انسان کا مقصد ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو گزند پہنچائے لیکن کیونکہ کہ تفکرات نے اُس کی سوچ کو جامد کیا ہوتا ہے اِس لیے اُس سے ہر وہ عمل ہو جاتا ہے جو اُسکی جبلت کے خلاف ہوتا ہے۔اِن تفکرات کی وجہ سے خالق کو فراموش کرکے انسان دُنیاوی خدا بنا لیتا ہے۔ صرف ایک خالق کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے اُسے بہت سوں کو سجدہ کرنا پڑتا ہے۔ اگرایک خالق کے حوالے سارئے دکھ درد کردیے جائیں تو بس پھر خالق جانے اور خالق کا کام۔خواہ مخواہ چند اونس کے حامل دماغ پر اتنا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ انسان کا سانس تک رُکنے کو ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ چند روزہ زندگی کی معمولی اور جلد ختم ہونے والی خواہشوں کی بجائے انسان صرف اپنے خالق کو ہی کارساز مانے اور سارئے دکھ اپنی جھولی سے نکال کر خالق کے حوالے کردئے تو وہ دماغ جو چند مسائل کی وجہ سے پھٹا جارہا ہوتا ہے وہ دماغ اور دل پوری کائنات کو اپنے اندر سمو لیتے ہے۔ بس ایک کام کرنا ہے کہ خالق سے رشتہ کمزور نہ ہو پائے۔ خالق تو مخلوق کے انتظار میں ہوتا ہے کہ مخلوق کب مجھے پکارتی رب پاک امید کا نام ہے۔رب پاک محبت سے بھر پور ہستی ہے۔رب پاک سے جب ہم امید باندھ لیتے ہیں۔تو پھرہم خود کو اپنے دُکھوں اور غموں سمیت اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے رب کے حوالے کر دیتے ہیں مسافر کبھی پلیٹ فارم پہ مستقل قیام کا خواہاں نہیں ہوتا۔نہ ہی وہ پلیٹ فارم پہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اُسے کوئی اگر کہے بھی کہ اِسی جگہ رُک جاؤ تو تب بھی وہ کسی کی نہیں مانتا بلکہ اُلٹا ایسا کہنے والے کو پاگل گردانتا ہے کہ یہ جگہ ایسی ہے کہ یہاں مستقل قیام کیا جائے یہ دُنیا تو پلیٹ فارم سے بھی عارضی ہے اِس کے لیے خود کو، دوسروں کو تکلیف میں ڈالنا ایسے ہی ہے کہ آبیل مجھے مارفراق وصال اُسکا ساتھ ہونا بھی دل کو خوف میں رکھتا ہیکہ شاید اب کہ یہ وصال کی آخری گھڑیاں تو نہیں ہجر کی ناتمام مسافتیں جب اپنا دامن پھیلادیتی ہیں تو تب وصال کی دُعا کے ساتھ ساتھ ہجر کا دُکھ سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہتا ہے لیکن روح کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ہجر طمانیت دینی لگتی ہے کیونکہ ہجر کے بعد تو کسی اور ہجر کے درپیش ہونے کا دکھ تو نہیں۔ من کے اندر سکون حاصل تب ہی ہوتا ہے جب مخلوق مخلوق کا خیال رکھتی ہے۔ کسی کو دُکھ دئے کر کسی کے مال پر قبضہ کر کے کسی سے رنجش کرکے من کی بستی کو آباد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔جب خود سے دوسروں کو اُجڑنے کا عمل ہو رہا ہے تو رد عمل بھی اُجڑنے کا ہی ہوتا ہے۔ تخریب سے مزید تخریب پیدا ہوتی ہے۔میاں جیؒ کا ڈیرہ تو ٹوٹے ہودلوں کو جوڑتا۔ میاں جیؒ سے ملاقات کے بعد پھر ملنے کی تشنگی رہتی ۔ 

Monday, 6 June 2016

حضرت احمد ندیم قاسمیؒ کا نعتیہ کلام , Written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




حضرت احمد ندیم قاسمیؒ کا نعتیہ کلام

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب پیٹرو اسلام کی حامل نام نہاد مذہبی جماعتیں ہر کسی پر سوشلسٹ اور کیمونسٹ کا فتوح لگاتی تھیں اور خود کو ہی صرف اسلام کا سچا پیروکار کہتی تھیں۔ لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ جن عظیم لوگوں کو ترقی پسند یا سوشلسٹ نظریات کا حامل گردانا جاتا رہا ہے وہ لوگ بھی حمد اور نعت سنتے اور کہتے رہے ۔برصغیر پاک و ہند میں نعتیہ شاعری میں بلند ترین نام حضرت امام مولانا احمد رضا خان ؒ کا ہے۔ایک صدی قبل خالق حقیقی سے جاملنے والے محمد احمد رضا خان بہت بڑئے عالم دین تھے۔ قران مجید کا شہرہ آفا ق ترجمہ کنزالایمانجناب حضرت امام احمد رضا خانؒ کا عظیم ترین کارنامہ ہے۔یوں تو نعت گوئی کا سلسلہ حضورؐ کی حیات مبارک میں ہی شروع ہو گیا تھا جس کی بازگشت پورے عالم اسلام کی ادبی اور سماجی تاریخ میں تب سے اب تک دلوں کو منور اور سماعتوں کو معطر کرتی چلی آ رہی ہے۔ مگر برصغیر پاک و ہند اور بالخصوص اردو زبان کے حوالے سے اس پر انیسویں صدی کے آخری ربع سے جو موسم بہار شروع ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مولانا حالی کا یہ دعائیہ نوحہ د کہ اے خاصہ خاصانِ رُسل وقت دعا ہے۔اُمّت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے۔حالیؒ اور اقبالؒ کے زمانے تک کم و بیش ہر شاعر کے دیوان کے آغاز میں نعتیہ کلام شامل ہوتا تھا اور جہاں ایسا نہیں تھا وہاں بھی دیوان کے اندر نعتیہ مضامین پر مبنی اشعار ضرور ہوتے تھے جیسے مثال کے طور پر مرزا غالب کے اردو اور فارسی کلام کے یہ دو اشعار کہ۔منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی۔قسمت کھلی ترے قد و رُخ سے ظہور کی۔غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم۔کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است کم و بیش یہی صورت علامہ صاحب کے مجموعہ ہائے کلام میں ہے کہ جگہ جگہ آپ کو ایسے نعتیہ اشعار دکھائی دیتے ہیں جو سربسر حُبِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔یہ روایت بیسویں صدی کے نصف اول یعنی قیام پاکستان کے دنوں تک مسلسل آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے اور ہمیں امیر مینائی، مولانا ظفر علی خاں، حفیظ جالندھری، بیدم وارثی، ماہر القادری اور احمد ندیم قاسمی جیسے بلند پایہ شاعر مسلسل نعت کہتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تسلسل کا گراف بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں اپنے عروج کو پہنچ کر آج کی شاعری تک رواں دواں نظر آتا ہے۔اس دوران میں بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں نعتیہ مجموعے شائع ہوئے اور کئی شاعروں کے لیے یہ ان کی پہچان اور وجہ اختصاص بھی ہے لیکن احمد ندیم قاسمی مرحوم کا کمال یہ ہے کہ ان کے ستر سالہ ادبی کیریئر میں کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جب انھوں نے نعت کی سعادت حاصل نہ کی ہو اور یقیناًمعیار اور عرصے کے اعتبار سے یہ اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ سے کم نہیں۔ اس دوران میں جن شعرأ نے نعت کے میدان میں زیادہ نام کمایا ان میں حافظ مظہر الدین، اعظم چشتی، مظفر وارثی، حافظ لدھیانوی، اقبال عظیم، ریاض حسین چوہدری، خالد احمد، پیر نصیر الدین گولڑوی، عبدالعزیز خالد، انور مسعود، نورین طلعت عرویہ اور لالہ صحرائی سمیت کچھ اور نام بھی لیے جا سکتے ہیں مگر حفیظ تائب مرحوم کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔حفیظ تائب قاسمی صاحب سے جونیئر بھی تھے اور ان کے نیاز مند بھی مگر جہاں تک نعت میں ان کے مقام کا تعلق ہے میں اس کا گواہ ہوں کہ قاسمی صاحب نے تائب صاحب کی نعت کو ہمیشہ اپنے عہد کی نمائندہ نعت قرار دیا۔ آج یہ دونوں بزرگ اور محترم ہستیاں ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ رسول پاکؐ کی رحمت کے تعلق سے ان کے یہ لازوال شعر اپنی مثال آپ ہیں:پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیر۔تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی ۔اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا۔ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ۔راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا۔ترقی پسند اور کسی زمانے میں شوشلسٹ خیالات رکھنیوالے اکثر ادیبوں اور شاعروں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ مذہب سے دور ہو گئے تھے اور یہ کہ انھوں نے نعت کی صنف میں اس ڈر سے شاعری نہیں کی کہ کہیں انھیں رجعت پسندی یا مولویت کا طعنہ نہ دیا جائے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد پراپیگنڈہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ترقی پسند شاعر کے کلام میں نعتیں اور نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ کمیونسٹ قرار دیے جانے والے شاعروں مثلاً فیض صاحب، عارف عبدالمتین اور ظہیر کاشمیری کے ہاں بھی نہ صرف نعتیہ کلام ملتا ہے بلکہ اس کا معیار بھی بہت عمدہ ہے کہ بقول شخصے رسولِ پاکؐ سے زیادہ ترقی پسند انسان تو تاریخ نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپؐ کی شخصیت کے اس رخ کو قاسمی صاحب نے خاص طور پر اپنی نعتوں میں اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:یوں تو ہر دور مہکتی ہوئی نیندیں لایا۔تیرا پیغام مگر خواب نہ بننے پایا۔قصر مرمر سے شہنشاہ نے ازراہِ غرور۔تیری کٹیا کو جو دیکھا تو بہت شرمایا۔اور یہ کہ اس قدر کون محبت کا صلہ دیتا ہے۔اس کا بندہ ہوں جو بندے کو خدا دیتا ہے۔جدید اردو نعت میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی نعت کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ اس نے دہریت اور الحاد کے دور عروج میں اللہ کی وحدانیت اور نبی آخر الزماں کی رحمت اور انسانوں سے محبت کو ان روایتی حمدیہ اور نعتیہ مضامین پر ترجیح دی جن میں اندھی عقیدت تو ہوتی ہے مگر بصیرت کا فقدان ہوتا ہے جو آدمی کو انسان اور پھر ان کو مرد مومن کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ یہ مضامین ان کی غزلوں اور نظموں میں بھی بار بار سامنے آتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحبؒ کا کلام ملاحظہ فرمائیں۔ 
میں کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں
تیری محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں تیرا دہلیز نشین
آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں
چند پل یوں تیری قربت میں کٹے
جیسے اِک عمر گزار آیا ہوں
تیرا پیکر ہے کہ اِک ہالہِ نور
جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں
کہ یہ کہیں خامیِ ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں
راقم نے جب اوپر بیان کردہ نعت سُنی تو جناب حضرت احمد ندیم قاسمیؒ کے عشق رسول ﷺ کے جذبات کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لیے چند ٹوٹے پھوٹے الفاط تحریر کیے ہیں۔چند اشعار جو اس بابرکت میدان میں احمد ندیم قاسمی کی انفرادیت کے ترجمان ہیں۔
اے مرے شاہؐ شرق و غرب! نانِ جویں غذا تریؐ
اے مرے بوریا نشیں! سارا جہاں گدا تراؐ
دینا ہے ایک دشت تو گلزار آپؐ ہیں
اس تیرگی میں مطلع انوار آپؐ ہیں
دیکھ کر غار حرا سوچتا ہوں
کتنی بھر پور تھی خلوت انؐ کی
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایا تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا، ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
قصر و ایواں سے گزر جاتا ہے چپ چاپ ندیمؔ 
در محمدؐ کا جب آئے تو صدا دیتا ہے
تیراؐ کردار ہے احکام خدا کی تائید
چلتا پھرتا، نظر آتا ہوا، قرآں توؐ ہے
قطرہ مانگے جو کوئی تو اسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے اپنی تمنا دے دے
وہ مری عقل میں ہے وہ مرے وجدان میں ہے
میری دنیا بھی وہی ہے، میرا عقبیٰ بھی وہی
قرآن پاک انؐ پہ اتارا گیا ندیمؔ 
اور میں نے اپنے دل میں اتارا ہے انؐ کا نام

چونکہ دُنیا بھر میں نعت کے حوالے سے مسلم و غیر مسلم شعراء اکرام نے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے اور اردوپ زبان اِس وقت دنیا کے تقریباً ہر خطے میں لکھہ پڑھی جاتی ہے۔یوں احمد ندیم قاسمیؒ کی نعتیہ شاعری میں جو عقیدت و روحانیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ واقعی آپ کی نعتیہ شاعری پڑھنے اور سُننے والوں کے لیے ایک عظیم سعادت ہے۔