Friday, 29 April 2016

خالق اور بندئے کے تعلق کی بنیاد۔خیر البشرﷺ..................................written by صاحبزادہ اشرف عاصمی



خالق اور بندئے کے تعلق کی بنیاد۔خیر البشرﷺ

صاحبزادہ اشرف عاصمی


کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جہاں حساب کتاب روا رکھا جانا اُن رشتوں کے تقدس کی پاسداری کے مقام سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ اِن رشتوں میں ایک رشتہ تو ماں کا ہے اور ایک باپ کا ہے۔لیکن سب سے اعلیٰ و ارفع تعلق تو جو انسان کا ہے وہ ہے اپنے رب کے ساتھ۔ یعنی خالق اور مخلوق کا رشتہ۔ ماں اور باپ بھی انسان کی تخلیق کے مراحل کا ذریعہ بنے ہوتے ہیں اِس لیے ماں کے اندر رب پاک کی اپنی مخلوق سے محبت کے مقابلے میں ستر حصے سے بھئی کم تر درجے کی محبت ہوتی ہے۔ یوں انسان کی زندگی میں جو ایک اہم تعلق بنتا ہے وہ اُس کے رب، اُسکی ماں اور اُسکے باپ کا ہے۔ لیکن ایک تعلق جو اعلیٰ ترین ہے جس تعلق کی بناء پر رب شناسی ہوئی جس ہستی کی وجہ سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اُس ہستی کے بغیر نہ تو ایمان مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی انسان کی تخلیق کے مقاصد پورئے ہو پاتے ہیں۔ وہ ہستی جناب نبی پاکﷺ کی ہے۔ رب پاک اور نبی پاک ﷺ سے تعلق کی آشنائی کی بدولت ہی ماں اور باپ کی عظمت و توقیر تک رسائی ہوتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ آگے چلتا ہے تو انسان کی زندگی میں رہبر ہستی اُسکے اُستاد کی ہوتی ہے۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق انسان کے تین باپ ہیں ۔ اُسکا باپ، اُسکا سسر اور اُسکا اُستاد، اور اُستاد کی عظمت سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اُستاد علم سکھاتا ہے اور علم نور ہے نور سے انسان کو سرفراز فرماتا ہے کہ اُسے شر اور خیر کے فرق سے آگاہی ہوتی ہے۔اِن رشتوں کے ساتھ ساتھ بہن بھائی،بیٹا بیٹی ودیگر رشتے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔اور ان رشتوں کا اپنا ایک مقام ہے لیکن اِن رشتوں میں محبت کی چاہت بعد ازاں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔لیکن ماں باپ خالق اور نبی پاکﷺ اور اُستاد یہ وہ رشتے ہیں جن کا انسان سے وابستہ رہنا کسی مادی معاملات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اِن رشتوں کے تقدس و حرمت کا پاس رکھنا مخلوق کے لیے ایمان کی حد تک ضروری ہے۔دُنیا میں اپنی راہ کو درست سمت رکھنے کے لیے ایک رہبر رہنماء کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔ جس کو مُرشد کو نام دیا گیا ہے۔ مرُشد انسان کی باطنی کیفیات کو رب کی رضا سے ہم آہنگ کرکے اس طرح کر دیتا ہے جیسے دھوبی کپڑئے کو دھو کر صاف کر دیتا ہے۔ مرشد کا کام من کی صفائی ہوتا ہے ۔ انسان جو مختلف مواقعوں پر سیدھی راہ سے ہٹ کر مادیت کی ہوس میں گم ہونے لگتا ہے تو اُس وقت اُس کا مرُشد اُسے عشق حقیقی سے آشنائی کرواتا ہے اور اُس کا اِس دنیا میں آنے کا جو مقصد ہوتا ہے اُس سے اُسے روشناس کرواتا ہے ۔ اُس کو انسان اور حیوان میں فرق جو ہوتا ہے اُس فرق سے آگاہی دلواتاہے ۔ دُنیاوی لالچ سے دور مادہ پرسی کی ہوس سے نجات حاصل ہونے کے سبب انسان کو اُس کے اصل مالک اپنے رب کے قر ب کا احسا س ہونے لگتا ہے ۔ اور پھر بندہ فنافی الا شیخ، فنا فی الار سول وﷺ کے مدارج طے کرتا ہوا اپنے خالق کو پالیتا ہے۔ یوں ماں باپ اُستاد، مرشد، نبی پاکﷺ اور خالق یہ وہ رشتے ہیں جن کے ساتھ انسان کا تعلق لازوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اِن رشتوں کا سبب محبت ہی محبت ہے۔انسانی زندگی میں دوستی کا رشتہ بھی بہت اہم ہوتا ہے اور تاریخ میں دوستی کے سچے رشتے کی لازوال مثالیں موجود ہیں۔اللہ پاک نے تو اپنے بندئے کو اپنا نائب بنایا ہے اور اپنے بندئے کے ساتھ اُس کی محبت کا یہ عالم کہ ماں کی محبتوں کو ستر گنا سے بھی بڑھا دیا جائے تو رب کی محبت کے سامنے ماں کی محبت ہیچ ہے۔خالق خود لافانی ہے اور اُس سے منسلک تعلق بھی لافانی ہے۔ یقینی طور خالق اور بندئے کا تعلق سراپاء محبت ہے۔ بندگی کا حق ادا کرکے بندہ ایسے مدارج طے کر لیتا ہے کہ خالق کے ہاں اُس کی پذیرائی کا عالم کچھ اِس طرح سے ہوجاتا ہے کہ خالق پھر اپنے بندئے کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ بندہ دیکھتا ہے خالق اپنے بندئے کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔خالق اپنے بندئے سے پھر اُس کی رضا پوچھتا ہے۔تمام تر دُنیاوی و اُخروی رشتوں میں اعلیٰ و ارفعٰ تعلق بندئے اور رب کا ہے اور اِس تعلق میں ایک اہم شخصیت بھی ہیں وہ نبی پاکﷺ کی ہے۔ مومن بھی نبی پاکﷺ کا محب ہے اور اللہ پاک بھی نبی پاکﷺ کا محب ہونے کا دعوئے دار ہے۔اُس ہستی ﷺکی بزرگی کا کیا عالم ہوگا کہ رب پاک نے کائنات کے ایک ایک ذرئے کو پیدا ہی صرف اِس لیے کیا کہ نبی پاکﷺ کے ظہور کے طفیل۔ رب پاک تک پہنچے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی کوئی ضرورت نہیں۔ رب تو ہر ہر بندئے کے دل میں آباد ہے اُس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ بندئے کو اپنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کرنے کی آشنائی دینا والا رب اپنی ہر ہر تخلیق کونبی پاکﷺ کا وسیلہ گردانتا ہے۔ اللہ پاک کو ماننے والے ہر مذہب کے لوگ اِس دنیا میں موجود ہیں۔ رب کی توحید کا پرچار کرنیوالے تو عیسائی ، یہودی بلکہ ہندو بھی ہیں۔ سکھوں کے ہاں توحید کا جو تصور ہے وہ بھی کمال ہے ۔ لیکن اِس کے باوجود اگر اِن مذاہب کے ماننے والوں کو اللہ پاک مومن نہیں مانتا تو کیا کمی ہے کیا وہ توحید پرست نہیں ہیں۔ فرق تو صرف اُس ہستیﷺ پہ ایمان لانے کا ہے جس کی وجہ سے خالق نے اپنا آپ ظاہر کیا۔ فرق تو صرف اُس عظیم شخصیت نبی ﷺ کا ہے جن کو تخلیق آدم سے بھی پہلے نبوت پہ سرفراز فرمایا۔فرق تو صرف اُس عظیم رہنماء نبی پاک ﷺ کی وجہ سے ہی ہے کہ جن کو صاحب قران کا افتخار بخشا گیا۔ جس قران کو ہاتھ میں پکڑ رب کی وحدانیت کا اعلان کیا جاتا ہے جس قران کو ضابطہ حیات مانا جاتا ہے اُس کے ایک ایک ہر کی گواہی دینے والی ذات صرف ایک ہے وہ ہے نبی پاکﷺ کی۔ اللہ پاک نے جو کچھ جبرائیل امینؑ کے ذرئیے سے وحی کوبھیجا اور جس کو نبی پاکﷺنے فرمادیا کہ میرئے صحابہ اکرامؓ یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں یہ قران ہے تو اُسے قران قرار دئے دیا گیا اور جس بات کو نبی پاکﷺ نے فرمایادیا کہ میرئے صحابہ یہ بات جو ہے یہ حدیث ہے ۔خالق نے اپنی عطاؤں کی بارش اپنے بندوں پر کر نے کے لیے اپنا ہی محبوب دوست چُنا۔اپنے ہی محبوب ترین بندئے کو ہی تمام جہانوں کے لیے رحمت بنایا ۔ اِس لیے نبی پاکﷺ کی محبت کے بغیر نہ تو ایمان کی سلامتی ہے اور نہ انسان ہونے کا بھرم رکھا جاسکتا ہے۔ خالق کی عطا سے نبی پاکﷺ کو سب کچھ ملا اور نبی پاکﷺ نے اُس عطاء کو اپنی امُت میں اپنے خالق کے حکم سے تقسیم فرمادیا۔





Wednesday, 20 April 2016

حضرت واصف علی واصف ؒ کی فکر ی اساس اور پاکستان کی حقیقت .An article by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


حضرت واصف علی واصف ؒ کی فکر ی اساس اور پاکستان کی حقیقت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

حضرت واصف علی واصفؒ کو اللہ پاک نے وہ انداز گفتگو عطا فرمایا تھا کہ اُن کی بات دل میں اُتر جاتی ۔اللہ پاک ہر دور میں اپنے نیک بندوں سے معاشرئے کی دکھی دلوں کے زخم بھرنے کا کام لیتا ہے۔ جناب واصف علی واصفؒ کی ظاہری حیات اور ظاہر حیات کے بعد والی زندگی دونوں ادوار تشنگانِ توحید کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ آپؒ کی گفتگو سے فیض ہونے والا طبقہ وہ تھا جو کہ نام نہاد مُلایت کی وجہ سے مذہب سے دوری اختیار کیے ہوئی تھا۔ لیکن جناب واصف علی واصف نے اُس طبقے کو رب کی محبت رسولﷺ کی محبت اور مخلوق خدا کی محبت کی طرف راغب فرمایا جو کہ روایتی ملاؤں کی وضہ سے دین سے وری اختیار کیے ہوئے تھا۔ یا ایسا طبقہ جن کے پاس سماجی حثیت بہت اچھی ہوتے ہوئے بھی روحانی سکون سے محروم تھا۔ایسے لوگ جناب واصف علی واصفؒ کی محفلوں سے فیض یاب ہوئے یا پھر اُن کے کالموں اور اُن کی کلام کی کتب کا مطالعہ کرکے جناب واصف علی واصف ؒ کی سوچ جو کہ ایک ولیٰ کامل کی سوچ تھی کی طرف متوجہ ہوئے۔ اللہ کے نیک بندئے جنہیں اولیاء اکرام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اُن کے مشن کا مقصد اول و آخر انسانیت کی بھلائی ہی ہوتا ہے۔ اور انسانیت کی بھلائی کے حوالے سے کسی مذہب ذات پات کی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ یہاں ایم او کالج لاہور میں ہونے والی گفتگو کی ایک نشست جس میں پاکستان کے حوالے سے بات ہوئے جس مذاکرئے میں محترم عطائالحق قاسمی نے بزم اقبال ؒ (ایم۔اے۔او۔ کالج) اور ایوانِ وقت (روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘) کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔ مذاکرے کا موضوع ’’پاکستان‘‘ تھا۔ اس مذاکرے میں علم و ادب کے حوالے سے ملک کی نامورشخصیات نے شرکت کی۔ کہنے کو تو یہ ایک مذاکرہ تھا‘ لیکن درحقیقت یہ سوال و جواب کی ایک نشست تھی‘ جس میں شریکِ محفل دانشور حضرات نے آپؒ کے روحانی علم سے اکتسابِ نور کیا۔شرکائے مذاکر میں عظیم ہستیاں جسٹس انوارالحق۔ پروفیسر اشفاق علی خان۔ اشفاق احمد۔منیر نیازی۔ خاطر غزنوی۔ ڈاکٹر سلیم اختر۔ عبدالمجید۔ اختر امان۔ اظہرجاوید۔ خواجہ افتخار۔ امجد طفیل شامل تھیں۔ جناب اشفاق احمدؒ صاحب کے سوال اور جناب واصف علی واصفؒ کے جواب کو درج کر رہا ہوں ۔اشفاق احمد: وا صف صاحب!یہ کوئی روائتی مجلس نہیں بلکہ مجالس کی عام ڈگر سے ہٹ کر ہے۔ اس محفل میں‘ میں اور میرے ساتھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری ذات سے لے کر یہ سفر جو بہت پیچھے سے ہمارے بزرگوں کا سفر ہے‘ یہ سفر اسی اعتبار سے ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن یہ سفر بیرونی طور پر ہی نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے اندر ہی ایک سفر ہوتا ہے۔ چنانچہ سیاست اور معیشت کے پاکستان کے وجود میں آنے کا‘ پاکستان کے بننے کا اور پاکستانیوں کا جو روحانی سفر تھا۔ وہ سفر کیا بتدریج رواں ہے یا رک گیا ہے اور لوگ سستانے لگے ہیں۔ ہمارے درمیان جو اس وقت عوام موجود ہے جس میں ہم سب لوگ شامل ہیں‘ جو بڑے یقین کے ساتھ اور حتمی طور پر اس بات کو مانتے بھی ہیں اور اعلان بھی کرتے ہیں کہ پاکستان بنا اس لئے تھا کہ ہم اپنی زندگی بہتر کرنا چاہتے تھے‘ ہم اپنی زندگیوں کو آزادی عطا کرنا چاہتے تھے اور ہم نہایت دلجمعی کے ساتھ اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کے حوالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب ہم اس سے ہٹ کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں۔ مثلاً ہم جو جالندھر‘ ہوشیار پور سے آئے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بیاس کے مقام پر ایک چھکڑا جا رہا ہے‘ اس کو ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ہانک رہا ہے۔ اس چھکڑے میں ایک اس کا باپ ہے‘ بیوی ہے‘ اس کی دو بچیاں ہیں‘ ایک بیٹا ہے‘ وہ جا رہا ہے۔ اچانک اس پر حملہ ہوتا ہے جس میں اس کا بیٹا مار دیا جاتا ہے۔ وہ اس جگہ پر گڑھا کھود کر اپنے بیٹے کی لاش دفن کر دیتا ہے اور درود شریف پڑھتا ہوا چھکڑے کو لے کر پھر چل پڑتا ہے۔ حالانکہ اصولی طور پر تو اسے اپنا سفر روک لینا چاہئے تھا۔ پھر تھوڑا آگے جا کر اس کی بیٹی اٹھا لی جاتی ہے۔ وہ پھر بھی درود شریف پڑھتا ہے۔ اللہ‘رسولﷺ کو یاد کرتا ہوا آگے چل پڑتا ہے۔ یعنی کیا اس کو اس بات کی خواہش اور طلب تھی کہ آگے چل کر مالی طور پر مجھے ایک سنہرا مستقبل نصیب ہو گا یا یہ کہ اتنے خوفناک سفر سے گزرنے کے بعد اصولاً اس کو یہ مان لینا چاہیئے تھا کہ اب میں منہ سے وہ الفاظ نہ کہوں جو میں کہتا ہوں یا مجھے رک جانا چاہیئے تھا۔ لیکن وہ بدستور اپنا چھکڑا ہانکتا ہوا سرحد تک پہنچ جاتا ہے۔ اب جب ہم بہت سمجھدار اور سوچنے والے ہو گئے ہیں‘ اب ہم کو اپنے آپ میں وہ خصوصیت نظر نہیں آتی۔ چنانچہ میں بالخصوص اور میرے ساتھی بالعموم یہ جاننا چاہیں گے کہ موجودہ صورتحال میں جب کہ ہم سیاسی طور پر تو سمجھ گئے ہیں کہ یہ ووٹ ہوتا ہے‘ یہ بیلٹ بکس ہے‘ یہ جمہوریت ہے اور ایسے اسمبلی بنتی ہے۔ یہ سب کچھ تو ہم جان گئے ہیں اور اس کی تو اب ضرورت نہیں جاننے کی۔ بات یہ ہے کہ کیا ہمارے بچ نکلنے کے لیے کوئی ایسا سوئچ ہے جس سے ہم میں پھر وہی ایمان اور یقین کی کیفیت پیدا ہو گی۔ اور ہم پھر پہلے کی طرح اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔ مایوسی کی فضا دور ہو گی اور غیر یقینی حالات بہتر ہوں گے، کیونکہ کچھ لوگ تو پاکستان کے قائم رہنے کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ سوال لمبا ہو گیا ہے مگر اب یہ معلوم نہیں کہ میں اپنا مقصد سمجھا سکا ہوں کہ نہیں؟واصف علی واصف ؒ صاحب: حاضرین محفل کی خدمت میں سلام پہنچے۔ سوال بڑا واضح ہے اور اس کا جواب بھی بڑا واضح ہے۔ غیر یقینی حالات پر تقریریں کرنے والے کتنے یقین سے اپنے مکان بنا رہے ہیں۔ دراصل جس انسان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں وہ کسی مستقبل پر کبھی اعتماد نہیں کر سکتا۔ مستقبل حال سے ہے‘ اپنے حال پر راضی رہنا چاہئے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہوں۔ اگر کشتی میں ایک انسان بھی خوش نصیب ہو تو اس کے کنارے لگنے کا شک نہ ہونا چاہئے۔ خوش نصیب وہ انسان ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہو۔ آج کا انسان ایک نا معلوم اندیشے سے دو چار ہے۔ اندیشہ ذاتی‘ ملکی اور بین الاقوامی حالات کی وجہ سے ہے۔ ذاتی اندیشہ اس لئے ہے کہ ہماری زندگی کثیرالمقاصد ہو کر رہ گئی ہے۔ خواہشات کی کثرت نے زندگی میں بے مقصدیت پیدا کر دی ہے۔ہم کئی زندگیاں گزار رہے ہیں اور اس طرح ہمیں کئی اموات سے دوچار ہونے کاڈر محسوس ہو رہا ہے۔ ملکی سطح پر ہم سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اندیشے میں مبتلا ہیں۔ وحدتِ افکار نہ ہونے کی وجہ سے وحدتِ کردار نہیں۔اسی لئے ملت میں وحدت کا شعور نہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جن پر اسلام نافذنہیں ہو سکا۔ اور یہ کیسا اسلام ہے جو مسلمانوں پر نافذ نہیں ہو سکا۔ اندیشوں سے بچنے کا طریقہ بھی آسان ہے۔ اندیشے کی ضد امید ہے۔ امید اس خوشی کا نام ہے جس کے سہارے غم کے ایام بھی کٹ جاتے ہیں۔فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے۔ غور کرنا چاہئے کہ موت سے زیادہ خوف ناک موت کاڈر ہے اور موت کا ڈر بے معنی ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ خطرات کے باوجود زندگی وقت سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی اور احتیاط کے باوجود زندگی وقت کے بعد قائم نہیں رہ سکتی۔میں یہ گذارش کر رہا ہوں کہ بہتر وقت آنے والا ہے۔ جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح وقت بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ زندگی‘ موت کی حفاظت و پناہ میں ہے۔ ہم اجتماعی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ لیکن ہم فرداً فرداً جوابدہ ہیں۔ لالچ نکل جائے تو خوف نکل جاتا ہے۔ جو اپنے فرائض کی ادائیگی کرتا ہے وہ خوف سے آزاد ہے۔ خوف کوتاہیوں کا نام ہے۔ ہم اپنے اعمال کی عبرت کے خوف میں مبتلا ہیں۔ گناہوں نے دعائیں چھین لی ہیں۔ ہم آج بھی ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کر دیں۔ اگر ہمارا فرض اور شوق یکجا ہو جائے تو زندگی خوف سے آزاد ہو سکتی ہے۔اصل میں مادی اشیائکی محبت نے ہم سے ذوق سفر چھین لیا ہے۔ ذوق سفر نہ ہو تو رہنما?ں کا شکوہ کیا؟ ہم بے سکون ہو چکے ہیں کیونکہ ہم دوسروں کا سکون برباد کر کے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دل سے کدورت نہ نکلے تو سکون کیسے حاصل ہو؟ زندگی میں غم اور خوشی تو آتے ہی رہتے ہیں۔ بیدار کر دینے والا غم غافل کر دینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔ حقیقت ثابت نہیں کی جا سکتی۔ سورج کی روشنی کا ثبوت دیکھنے والے کی آنکھ مہیا کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ملک قائم رہے گا۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ محروم و مظلوم کی داد رسی ہو گی۔ حق والا حق پائے گا۔ ہم سب ایک وحدت ہیں۔ اصل میں جس کو اپنی فلاح کا یقین ہو وہ تبلیغ کر سکتا ہے تا کہ دوسرے اس نعمت میں شریک ہوں۔ مبلغ کی صداقت کا ثبوت یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوسروں کو صرف اپنے علم میں شریک نہ کرے بلکہ اپنی آسائشوں میں بھی شریک کرے۔ ہم طاقت اور دولت سے خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عقیدے میں ہم فرعون کو ملعون کہہ چکے ہیں۔ طاقت خوف پیدا کرتی ہے‘ خوف نفرت پیدا کرتاہے‘ نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور باغی ذہن ملک کے ٹوٹنے کی بد دعا کرتے ہیں۔ طاقت محبت میں بدل جائے تو ملک سلامت ہی سلامت ہے۔ نیکی لاٹھی نہیں جس سے بدی کو ہانکا جا سکے۔ نیکی میزبان ہے جو بدی کی ضیافت کر کے اسے راہ راست پر لاتی ہے۔ نیکی کا مزاج مشفق والدین کا سا ہے اور بدی باغی اور سرکش اولاد کی طرح ہے۔ بدی محبت سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم غور کریں‘ دعا کریں۔ اپنے اعمال کی‘ اپنے افکار کی‘ اپنے الفاظ کی اصلاح کریں۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ لوگ یہ کہیں کہ ہمیں اس کا پہلے ہی اندیشہ تھا۔خدا ہمیں ہمارے اندیشوں سے بچائے۔ اگر اللہ رحمت کے جوش میں مخلوق کو بخش دے اور گناہوں کو معاف کر دے تو کیا ہو گا موت کا منظر مرنے کے بعد؟ کیا اللہ معاف کرنے پر قادر نہیں؟آج ہر انسان گلہ کر رہا ہے‘ کچھ لوگ مخلوق کا گلہ کر رہے ہیں‘ خالق کا گلہ کر رہے ہیں‘ مخلوق کے سامنے اللہ کا شکر ادا کرنے والے کہا ں گئے؟ یقین دلانے والے کیا ہوئے؟ کیا ہمیشہ کے لئے بند ہونے سے پہلے ہماری آنکھ نہیں کھل سکتی؟ کیا ہم دوبارہ یقین کی منزل کو حاصل نہیں کر سکتے‘ یقیناً کر سکتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حالات بہتر ہوں گے جلد ہی۔ کیا اقبالؒ کے خواب کے بعد کسی مرد مومن کو کوئی تازہ ملت ساز خواب نہیں دکھائی دے سکتا؟کیا حالات بدل نہیں سکتے؟ کیازندگی منفعت سے نکل نہیں سکتی؟ کیا ہم پر اس کی رحمت کے دروازے نہیں کھل سکتے؟ کیا ہم رحمتہ اللعالمینﷺ سے مایوس ہو گئے ہیں؟ خدا ہمیں وہ نظر پھر سے عطا کرے گا۔ وہ دل پھر سے ملے گا۔ مسلمانوں کو آسانیاں دو‘ انہیں زیادہ علم کی ضرورت نہیں‘یقین کی ضرورت ہے۔ معاف کرنے والے کے سامنے گناہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ عطا کے سامنے خطا کا کیا ذکر۔ زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو یقیناً سکون مل جاتا ہے۔ جھوٹا آدمی کلام اِلٰہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہو گا۔ صداقت کے بیان کے لئے صادق کی زبان چاہئے‘ بلکہ صادق کی بات کو ہی صداقت کہتے ہیں۔کامیابی اہم نہیں‘ مقصد اہم ہے۔ برے مقصد میں کامیابی سے اچھے مقصد میں ناکامی بہتر ہے۔پاکستان کے ٹوٹنے کا اندیشہ اس لئے بھی نہیں ہے کہ یہ صرف نو کروڑ پاکستانیوں ہی کا نہیں‘ بلکہ یہ مسلمانان عالم کا مستقبل ہے۔ اِس کی بنیادوں میں شہدائکا خون ہے۔ اب اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ اسلام کی حفاظت اسلام خود فرمائے گا۔ اللہ حفاظت کرے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ اس کے محافظ ہیں۔ ہمارے اندیشے محض ذاتی ہیں یا سیاسی ہیں‘ ان میں نہ کوئی جواز ہے نہ بنیاد۔
اللہ کی رحمت اس کے غضب سے وسیع ہے۔زندگی اور عقیدے کا فرق ختم ہونا چاہئے۔ جس خطرے کا وقت سے پہلے احساس ہو جائے تو وہ ضرور ٹل سکتا ہے۔دعا اسی لئے ہوتی ہے کہ آنے والی بلا?ں کو ٹالا جا ئے۔نیک انسان کی دعا بھی سب کی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔خطرہ باہر نہیں ہوتا خطرہ اندر ہوتا ہے۔ سانس اندر سے اکھڑتی ہے۔ آج کے مسلمان کو موت کے خطرے سے زیادہ غریبی کا خطرہ ہے۔ پہلے غریب کی معاشی حالت کی اصلاح کی جائے پھر اس کے ایمان کی۔ بیمار سے کلمہ نہ سنا جائے اس کے لئے دوا کا انتظام کیا جائے۔آج انسانوں کے وسیع سمندر میں ہر انسان ایک جزیرے کی طرح تنہا ہے۔ تنہائی کا خوف سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ تنہائی روح تک آ پہنچی ہے‘ اللہ کا سہارا ہی بچا سکتا ہے۔ جو لوگ سیاسی اور سماجی ضرورت کے لئے اللہ کا نام لیتے ہیں‘ ان کے لئے مایوسی اور کربِ مسلسل کا عذاب ہے۔ایک معمولی سا واقعہ ہی غیر معمولی نتائج برآمد کر جائے گا۔ بعض اوقات دور سے آنے والی آواز اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔ ایک چہرہ زندگی میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔ پاس سے گزرنے والا خاموش انسان کئی تبدیلیاں پیدا کر جاتا ہے۔ ایک نگاہ زندگی کا حاصل بن کے رہ جاتی ہے۔ مکڑی کا کمزور جالا ایک قوی دلیل کا کام دے جاتا ہے۔ انسان کے مزاج کو بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ ایک خوش مذاق انسان تمام محفل کو اداسی سے نکال سکتا ہے۔ ایک سوچ پورے فکر کے انداز کوبدل کر رکھ دیتی ہے۔ اگر ہم شہداء کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں، صوفیاء‘ علماء‘ فقرائکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہم اقبالؒ کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں‘ اگر ہم اللہ‘ اللہ کے حبیبﷺ پر‘ اسلام پر یقین رکھتے ہیں تو پاکستان کی سلامتی کا بھی یقین ہونا چاہئے۔ ایک انسان‘صرف ایک انسان جو قائداعظمؒ کی طرح سب میں مقبول ہو‘ قوم کے نصیب کو بدل سکتا ہے اور کسی ایک رہنما کے آنے کا عمل اتنا ناممکن نہیں بلکہ ایسا ہو گا۔ ایسا ہونے والا ہے۔ ملک محفوظ رہے گا۔ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ اپنے عقیدے پر یقین رکھیں۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ملک کو خطرے سے دوچار کرنے والے خود خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ملک کو خطرے سے دوچار کرنے والے خود خطرے میں گھرے ہوئے ہیں133. ہمارے ایمان میں اور ہمارے کردار میں دراڑیں ہیں۔ ملک میں کوئی دراڑ نہیں۔ پاکستان میں ایک عظیم روحانی دور آنے والا ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اندیشہ نہیں کرنا چاہئے۔ اندیشہ‘عروج کا دشمن ہے۔