Friday, 21 October 2016

حسد کی آفت۔ ناشکری کی انتہا............Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


حسد کی آفت۔ ناشکری کی انتہا

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 
ٖٖغصے سے کینہ پیدا ہوتا ہے اور کینے سے حسد اور حسد مہلک ترین زہر ہے انسان کے لیے۔نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ حسد نیکیوں کو اِس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کوکھا جاتی ہے۔خالق سراپا عطاء ہے اور خالق نے اپنے بندئے کو ہمیشہ نوازنا ہوتا ہے۔ خالق کی عطاء پر صابر و شاکر رہنے والا ہی اللہ پاک کو پسند ہے۔ اگر کسی کو خالق نے زیادہ نواز دیا ہے اور کسی کو کم تو اِس پر حسد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ حسد ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے انسان سے اُس کا ایمان چھن جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں حسد اور بغض نے انسانیت کو ہلاکت میں ڈال رکھا ہے۔کسی بھی معاشرئے کا اہم عامل فرد ہوتا ہے۔ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم مال و دولت مل پاتی ہے۔ لیکن ایسے میں حسد کا مرتکب ہوکر اپنے ایمان کو غارت کرنا۔اللہ پاک کو کیسے پسند ہو سکتا ہے۔ مخلوق کا خالق کے دےئے ہوئے پر شاکر ہونا اور کسی سے حسد نہ کرنا وہ عمل ہے جس کی وجہ سے معاشرئے میں بھائی چارہ فروغ پاتا ہے۔ جب دین اسلام نے کہہ دیا کہ تم میں سے ہر کوئی دوسرئے کا بھائی ہے۔ جو کچھ اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی اپنے دوسرئے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرو۔دین اسلام کا یہ اندازِ فکرمعاشرئے میں رواداری کا ضامن ہے۔ اسی لیے تو کہہ دیا گیا کہ دوسرئے مسلمان کا جان ومال تم پر جائز نہ ہے۔ جرائم ہونے کی وجوہات میں بہت بڑی وجہ یہ ہی عمل ہے کہ حاسد بن کر دوسروں کی خوشیوں پر ڈاکہ مارا جاتا ہے۔ چوری ڈاکے، لڑائی جھگڑئے ، لوٹ مار کی بنیادی وجہ یہ حسد ہی ہے۔ اِسی حسد کی وجہ سے انسانی جذبے انسانی اقدار سے محروم ہو جاتے ہیں اور جنگلی جانور بن جاتے ہیں۔ جن معاشروں میں معاشی آسودگی کم ہوتی ہے یا روزگار کی کمی ہوتی ہے۔ وہاں کرپشن میں بے بہا اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ ہی کرپشن قتل و غارت کا سبب بنتی ہے اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ ہیو اینڈ ہیو ناٹ کا معاشی چکر انسان کو سماجی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ حالیہ سالوں میں پاکستانی معاشرئے میں حسد کی وبا کی بدولت کرپشن اور بے حیائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ والدین کے رویوں سے اولاد بھی اُن کے نقش قدم پر چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ایک اور جگہ ارشاد مرکوز ہے کہ گمان بد ، دوم فال بد ،سوم حسد۔آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمھیں اِسکا علاج سکھلاؤں کہ کیا ہے۔جب کوئی کسی کے بارے میں بدگمانی کرے تو اپنے دل میں اِس کو سچ نہ سمجھے اور اِس پر ثابت و قائم نہ رہے اور جب بد فالی سنے تو اِس پر اعتماد نہ کرے اور جب حسد پیدا ہو تو زبان اور ہاتھ کو اِس پر عمل کرنے سے بچائے ۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیٰ شان ہے کہ تمھارے اندروہ بات پیدا ہونے لگی جس نے اگلی اُمتوں کو ہلاک کر ایاتھا۔اور وہ حسد و عداوت ہے قسم ے اِس معبود کی جس کے دست قدرت میں مجھ محمدﷺ کی جان ہے کہ تم بہشت میں نہ جاؤ گے جب تک تم صاحب ایمان نہ ہو گے اور صاحب ایمان نہ ہوگے جب تک ایک دوسرے کو دوست نہ رکھو گے۔ میں تمھیں بتاؤں کہ یہ محبت کس طرح پیدا ہوگی۔ تم ایک دوسرے کو سلام کیا کرو ۔حاسد کے حوالے سے اللہ پاک کے پاک نبی ؑ حضرت زکریا ؑ نے فرمایا کہ حق تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ حاسد میری نعمت کا دُشمن ہے وہ میرے حکم پر خفا ہوتا ہے اور بندوں میں میری تقسیم کو پسند نہیں کرتا۔نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ چھ قسم کے لوگ بغیر حساب کتاب کے جہنم میں جائیں گے۔امیر اپنے ظلم کے باعث،عرب تعصب کی بدولت،مالدار تکبر کے باعث،سوداگر اپنی خیانت کی وجہ سے اور دہقان اپنی جہالت اور نادانی کے سبب سے اور علماء حسد کے باعث۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی پاک ﷺ کے پاس ہم بیٹھے تھے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص اہل بہشت سے یہاں آئے گا۔۔ تب انصار کی جماعت سے ایک صاحب وہاں تشریف لائے۔اپنے بائیں ہاتھ میں لوٹا لٹکائے ہوئے تھے اور وضو کا پانی اُن کی داڑھی سے ٹپک رہا تھا۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی نبی پاکﷺ نے اسی طرح فرمایا اور وہی صاحب تشریف لائے۔حضرت عبداللہ ابن العاصؓ نے چاہا کہ اِس کا رنگ ڈھنگ معلوم کریں چنانچہ اِن صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ میں اپنے باپ سے لڑا ہوا ہوں چاہتا ہوں کہ تین راتیں آپ کے پاس ٹھروں ۔ اُس شخص نے یہ بات منظور کر لی۔حضرت عبد اللہ ابن عمر بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ اِ ن تین راتوں میں اِن کے عمل پر نظر رکھے رہا۔میں نے دیکھا وہ جب سو کر اُٹھتے تو اللہ پاک کا ذکر کرتے۔اِس کے بعد میں نے اِن سے کہا کہ میری اپنے باپ سے لڑائی نہیں ہوئی تھی البتہ نبی پاکﷺ نے تمھارے بارے میں ایسا فرمایا تھا کہ میں نے چاہاکہ تمھارا عمل معلوم کروں۔ اُنھوں نے کہا کہ میرا عمل یہ ہی جو تم نے دیکھا، جب میں میں اُن کے گھر سے نکلا تو اُنھوں نے مجھے پکارا اور کہا ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ میں نے ہر گز کسی کی خوبی پر حسد نہیں کیا ۔ میں نے اُن کو جواب دیا آپ کو یہ درجہ اِسی سبب ملا ہوگا۔ 

Sunday, 26 June 2016

حضرت سید عبدالرزاق المعروف شاہ چراغ لاہورؒ ی۔تاریخ کا ایک ورق ...BY صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


حضرت سید عبدالرزاق المعروف شاہ چراغ لاہورؒ ی۔تاریخ کا ایک ورق

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

اللہ پاک کے نیک بندوں نے خالق کے پیغام کو سسکتی ہوئی انسانیت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نبی پاکﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد اللہ کے ولی اِس ذمہ داری کو نبھاتے ہیں۔کہ اللہ پاک اور نبی پاکﷺ کے پیغام کو دنیا میں پھلاتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں اولیا اکرامؒ نے اسلما کی اشاعت کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔مسجد شاہ چراغ، عہد شاہ جہانی کے ایک بزرگ حضرت شاہ چراغ ؒ کے نام سے نسبت رکھتی ہے۔ ان کا پیدائشی نام سید عبدالرزاق تھا بعدازاں اپنے دادا کے دیئے پیار کے نام کے باعث دنیا بھر میں شاہ چراغ کے نام سے جانے گئے۔ ان کا شمار لاہور میں مدفون ان اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جن کے معتقدین میں اس وقت کے بادشاہ اور اہل حکم بھی رہے۔ ان کے آباواجداد اوچ شریف ریاست بہاولپور سے تھے۔ نقوش لاہور نمبر (ص305) کے مطابق’’ان کا اصل نام سید عبدالرزاقؒ تھا۔ والد کا نام عبدالوہاب بن سید عبدالقادر ثالث بن محمد غوث بالا پیر سادات گیلان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بزرگ قصبہ اوچ (بہاولپور) سے ست گرہ (منٹگمری) میں آئے۔ ست گرہ سے ان کے جد امجد محمد غوثؒ بالا پیر پہنچے۔ یہ زمانہ غالباً ہمایوں بادشاہ کا تھا۔آپ نے شہر سے باہر جنوب مشرق کی طرف قیام کیا اور اپنے علاقے کا نام (بقول صاحب تحقیقات چشتی) رسول پورہ رکھا۔ لیکن جب ہمایوں نے لنگر خان بلوچ کو لاہور میں جاگیر دی اور لنگر خان نے یہاں اپنے عالیشان مکانات تعمیر کرائے اور رفتہ رفتہ یہاں ایک محلہ آباد ہو گیا تو رسول پورہ کی جگہ لنگر خان نے لے لی۔ اب نہ رسول پورہ ہے نہ محلہ لنگر خان، نہ عالیشان مکانات کے کوئی آثار، جب سید عبدالرزاق پیدا ہوئے تو ان کے جد امجد صاحب حیات تھے۔ انہوں نے فرمایا ’’در خانہ چراغے پیدا شدہ است کہ خانہ خاندان ماز منور گردد‘‘۔ اس لئے شاہ چراغ کے خطاب سے مشہور ہو گئے اور یہ نام کچھ ایسا مشہور ہوا کہ عوام اصل نام کو بھی بھول گئے‘‘۔جگہوں اور مقامات کے نام کو تبدیل کرنے کی روایت دنیا بھر میں موجود رہی۔ جس طرح حضرت شاہ چراغ ؒ کی وفات 1068ھ بمطابق 1657ء کو ہوئی۔ مزار کی تعمیر کے حوالے سے مورخین کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ مزار کی تعمیر بحکم شاہ جہاں ہوئی اور کچھ مورخین کا یہ کہنا ہے کہ مزار مبارک کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر کے احکامات سے ہوئی اگر وفات کے ان کے ایام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو شاہجہاں اتنی طاقت ہی میں نہیں تھا جس سے ایسے احکامات جاری کئے جاتے۔ اسی لئے اورنگزیب کے حوالے سے جڑی روایت زیادہ مستند دکھائی دیتی ہے۔مزار اور اس سے ملحقہ مسجد کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص26) پر یوں تحریر کیا۔’’یہ مقبرہ مربع صورت کا پختہ چونے کی عمارت کا بنایا گیا ہے۔ دروازہ جنوب کی سمت ہے۔ مقبرے کے اندر آٹھ قبریں ہیں۔ ایک تو شاہ چراغ کی اور سات ان کی اولاد کی۔ چھ خشتی قالبوتی داد اور اوپر عالی شان گنبد ہے۔ مسجد بھی چونہ گچ ہے جس کی پانچ محرابیں اور پانچ گنبد ہیں۔ انگریزوں کی عمل داری ہوئی تو اس کو کوٹھی بنا لیا گیا اور میجر میگریگر صاحب و ویڈربرن صاحب وسمم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنران اس میں رہتے رہے۔ پھر اکاونٹنٹ کا دفتر اس میں مقرر ہو گیا۔ اب کوٹھی یعنی مسجد کا احاطہ علیحدہ ہے اور مقبرے کا علیحدہ اور مقبرے پر قبضہ سادات گیلانی کا ہے۔ ہر سال یہاں میلہ ربیع الثانی کی سترھویں تاریخ کو ہوتا ہے اور خلقت بہت جمع ہوتی ہے۔‘‘نواب زکریا خان کی والدوہ بیگم جان کو حضرت شاہ چراغؒ کے مزار سے انتہائی عقیدت تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اس مزار کے ساتھ ملحقہ جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کروائی اور ساتھ ساتھ یہ بھی وصیت کی کہ اگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی تو ان کے بعد ان کے زیورات بیچ کر مسجد کی تعمیر مکمل کی جائے۔لاہور میں مساجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار شہنشاہ اکبر کی بیگم مہارانی جودھا بائی سے شروع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی تعمیر کردہ مسجد ’’بیگم شاہی مسجد‘‘ آج بھی قلعہ لاہور کی مشرقی سیدھ میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے بعد یہ سلسلہ دائی لاڈو‘ دائی انگہ‘ رانی موراں کی تعمیر کردہ مساجد میں دکھائی دیتا ہے۔ کچھ تذکرہ بیگم جان کا کرتے ہیں جن کے نام پر لاہور میں بیگم پورہ کی آبادی ہے۔ وہ تو نواب عبدالصمد خان کی اہلیہ اور نواب زکریا خان کی والدہ تھیں۔ نواب زکریا خان والی لاہور کا عہد 1726۔1745ء تک کا ہے۔ اس لئے قرین قیاس ہے کہ مسجد کی تعمیر اس عہد کی ہے۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش سالنامہ 1989 (ص83) پروفیسر اسلم لکھتے ہیں’’بیگم جان بڑی عالمہ، فاضلہ اور خداشناس خاتون تھی۔ اس کا نسب بھی خواجہ ناصر الدین عبیداللہ امرادؒ سے جا ملتا ہے۔ اس نے اپنی وفات سے پہلے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے زیورات فروخت کر کے ان کی آمدنی سے ایک مسجد بنوا دی جائے۔ چنانچہ حضرت شاہ چرا غ ؒ کے مزار سے ملحقہ مسجد ان ہی زیورات کی آمدنی سے پایہء تکمیل کو پہنچی۔نواب زکریا خان کے عہد کے بعد اس مسجد نے بے شمار حوادث دیکھے۔ ان حوادث کے باعث مسجد کی اصل عمارت محض پرانی کتابوں کی تحریروں کا حصہ بن کر رہ گئی۔ لاہور کی کئی دیگر مساجد کی مانند سکھی عہد میں یہ مسجد بھی بارود سے بھری رہی۔ انگریز سرکار کے عہد میں انتظامی مسائل کے باعث کئی تاریخی مساجد کو افسران کی رہائش گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا اور اسی مقام پر سیشن جج کی عدالت بھی لگنے لگی۔ اکاونٹنٹ جنرل کا دفتر بھی قائم رہا۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر(ص307) سے درج ذیل ہے۔’’آج سے چند سال پیشتر یہ جگہ بالکل اجاڑ اور غیر آباد سی تھی۔ احاطے میں جھاڑیاں اور درخت اگے ہوئے تھے۔ چار دیواری خستہ حال تھی۔ لیکن 1935ء میں مسجد شہید گنج کی ایجی ٹیشن کے بعد جب مسجد شاہ چراغ مسلمانوں کو مل گئی اور سرکار نے اپنا قبضہ اس پر سے اٹھا لیا تو اس جگہ ریزو بینک کی عالیشان عمارت تعمیر ہو گئی اور اس چار دیواری کو جس میں والدہ نواب خان بہادر کی قبر بیان کی جاتی ہے، از سر نو تعمیر کر کے اس کے گرد جنگلہ لگا دیا گیا۔‘‘تحقیقات چشتی میں لکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس چار دیواری کے گرد ایک چھوٹا سا باغ تھا اس لئے کہ اس جگہ اب بھی پختہ خیابان کے آثار نظر آتے ہیں۔ درختوں کے جھنڈ میں ون کے درخت زیادہ نہ تھے۔مقبرہ شاہ چراغ، مسجد شاہ چراغ اور اس مختصر سی چار دیواری کی حالت نسبتا بہتر ہے۔ جمعہ اور جماعت کی نمازوں میں اچھی خاصی رونق ہوتی ہے۔‘‘جب مال رورڈ پر جی پی او چوک میں پہنچا جائے تو بائیں جانب ایک سڑک نیچے کو پرانے اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ کو جاتی ہے جس سے آگے ایک چرچ ’’سکینڈ بیوز پریسن کیبرین چرچ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ پرانے اسٹیٹ بینک کی یہ عمارت اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے استعمال میں ہے۔ اس بلڈنگ سے بائیں جانب ایک انتہائی خوبصورت عمارت دکھائی دیتی ہے جس میں مغل اور انگریز طرز تعمیر ملا جلا دکھائی دیتا ہے۔یہ جگہ کچھ برس قبل تک سڑک سے گزرنے والے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہائی کورٹ کے داخلی دروازے سے مغربی سیدھ تک سرکار کی مدح سرائی میں بڑے بڑے سائن بورڈ نصب تھے جو کہ بعدازاں ہٹا دیئے گے اور وہاں پر لوہے کے جنگلے نصب کر دیئے گئے جس کی وجہ سے اب یہ عمارت عوام کی نظروں میں ہے۔ لب سڑک لوہے کے ایک جنگلے پر ’’ایوان اوقاف‘‘ ماتھے پر تحریر دکھائی دیتا ہے۔ اندر داخل ہوں تو بائیں جانب اکاونٹنٹ جنرل کے پرانے دفاتر اب وکلاء اور چیمبرز کے استعمال میں ہیں۔ان سے پیچھے مشرقی سیدھ میں محکمہ اوقاف کے دفاتر‘ لائبریری ہے۔ لاہور جیسے عظیم تاریخی ورثے کے مالک اس شہر میں کیونکہ زیادہ تر تاریخی عمارتیں، آثار قدیمہ اور مذہبی تاریخی عمارتیں محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی ہیں۔ ان دفاتر میں وہ تمام سہولتیں اوردور جدید کے ذرائع موجود ہونے چاہئیں جو اس طرح کی تاریخی عمارات کی حفاظت کے لئے دنیا کے کئی دیگر ممالک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ محکمے پرانے فائلوں کے نظام میں گڑ ے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں کام کرنے والے افراد کی ان جدید علوم تک رسائی تو کجا ان میں سے اکثریت شہر لاہور کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔دفاتر سے آگے گاڑیوں کی پارکنگ‘ اے جی آفس اور لاہور ہائیکورٹ کی عمارت کی شمال جنوب سیدھ کا پچھلا حصہ ہے۔ اوقاف کے دفاتر کے سامنے ہی چند سیڑھیاں اوپر کو جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر بائیں جانب حضرت شاہ چراغؒ کا مزار شریف ہے اور بائیں جانب مسجد کی عمارت ہے۔دائیں جانب مزار کے گنبد کی چار دیواری اور عمارت میں عالمگیری عہد کی تعمیر کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ مزار کی عمارت کے چاروں کونوں پر انتہائی چھوٹے مینار ہیں جن کے نیچے محرابی طرز تعمیر دیواروں میں نمایاں ہے اور یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ کبھی ان پر کاشی کاری کا کام ضرور موجود ہو گا۔ مگر اب وہاں پر سوائے سفیدی کے اور کچھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے اوپر مزار کا خوبصورت گنبد ہے جس پر سبز رنگ کا روغن کر کے قدامت کے تمام نشان ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اندرونی احاطے میں ایک سے زائد قبور ہیں اور ایک قبر کے سرہانے یہ تختی نصب ہے۔مرقد انوار ،سید عبدالرزاق، المعروف حضرت بابا شاہ چراغؒ لاہوری،گنبد کے اندرونی حصوں میں کاشی کے پرانے کام کو از سر نو کیا گیا ہے جو کہ عہد رفتہ سے ہرگز میل نہیں کھاتے۔ مزار کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی باہر معلوماتی تختیاں نصب ہیں۔ مزار کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں دیگر افراد کی قبور بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان قبور کے ساتھ مغربی سیدھ میں ایک قدیم درخت آج بھی موجود ہے۔ مسجد کے صحن میں لوہے کے جنگلے نصب کرکے نمازیوں کی سہولت کے لئے پنکھے لگائے گئے ہیں۔مسجد کی پانچ پرانی محرابیں آج بھی پھول پتیوں کے کام سے منقش ملتی ہیں۔ لیکن کاشی کا تمام پرانا کام سفیدی کی تہوں میں گم ہو چکا ہے۔ محرابوں سے سجی عمارت طولانی سیدھ میں زیادہ اور چوڑائی میں انتہائی کم ہے۔ محرابوں کے ساتھ اور اندرونی درمیانی عمارت مقطع ہے۔ ان کی چھت کے نیچے سے اوپر نمایاں طور پر گنبد مترور تعمیر کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ چھت کے اوپر گنبد اردگرد کی عمارات کی چھتوں ہی سے دکھائی دے سکتے ہیں۔اگر مسجد کی تمام موجودہ عمارت سے سفیدی کو کھرچا جائے اور پرانی عمارات کے ماہرین کے ذریعے قدیم رنگ بحال کرنے کی کوشش کی جائے تو مسجد اپنے ابتدائی ایام کی مانند دکھائی دینے لگے۔ مسجد کی پانچ محرابوں میں سے وسطی محراب کلاں ہے اور دیگر خورد، وسطی محراب کے ماتھے پر مشرقی سیدھ میں کلمہ شریف اور دور جدید کی خطاطی میں اللہ اور محمد ﷺ دائیں اور بائیں سیدھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔لاہور کے عین وسط میں ہائی کورٹ سے ملحقہ جی پی او چوک و سپریم کورٹ سے متصل حضرت شاہ چراغ لاہوری ؒ کا مزار مبارک ہے اور ساتھ ہی مسجد بھی ہے۔ انتہائی اہم جگہ پر واقع ہونے کی وجہ سے مسجد میں نماز جمعہ اور نماز پنجگانہ کے اوقات میں کافی رش ہوتا ہے۔ مغلیہ خاندان کے دور میں بننے والی اِس عظیم مسجد کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔اِس مسجد اور مزار مبارک کو ثقافتی ورثہ کی حثیت حاصل ہے۔ راجہ رنجیت سنگھ نے اس مسجد کو کافی نقصان پہنچایا لیکن اِس نقصان کی تو شائد تلافی نہ ہوسکے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ اوقاف کے زیر انتظام انصرام اِس مسجد اور مزار مبارک کی شکستہ حالی پر نہایت افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان بن گیا لیکن اپنی روایات کا امین بننے کی بجائے اِس مسجد میں نہ تو صفائی کا انتظام ہے اور نہ ہی اِس کی ضروری مرمت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ حتی کہ پنکھے بھی کام نہیں کرتے ۔ اور جمعہ والے دن دھوپ سے بچاؤ کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا۔ اِس مسجد سے محکمہ اوقاف کی بلدنگ ہے جہاں محکمہ اوقاف کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل صاحبان تشریف فرما ہوتے ہیں۔ یعنی اوقاف کے محکمے کا صدر دفتر اور مسجد کا ایک دروازہ آپس میں جُڑا ہوا ہے۔ سخت گرمی میں ہوا کا انتظام نہیں۔ باتھ روم کی صفائی نہیں ہوتی۔ باتھ روم میں روشنی کا انتظام نہیں برسوں سے باتھ روم کے بلب فیوز ہو چکے ہیں۔ مسجد کے قالین کی صفائی کا عالم یہ ہے کہ اِس میں سے بد بو آرہی ہے اِس قالین کو بارہ سال پیشتر دھلوایا گیا تھا۔ جب اوقاف کے اہلکاروں کو قالین کی صفائی کی بابت کہا گیا تو اُن کا ستدالال یہ تھا کہ چونکہ ہمارئے پاس اِس مد میں رقم نہیں ہے۔ اِس لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لاہور میں اور دیگر شہروں میں ایسا ہی ہے کہ بزرگوں کے مزارات کے ساتھ مساجد بھی ہیں محکمہ اوقاف مزارات سے بہت زیادہ کمائی کرتا ہے لیکن مزارات اور مساجد کی دیکھ بھال کے حوالے سے انتہائی بُری صورتحال ہے۔شاہ چراغ مسجد میں رات کے وقت بے شمار لوگ آکر سوجاتے ہیں۔ مسجد اور مزار کا تقدس پامال کرتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ مزار مبارک کے ساتھ ہائی کورٹ کی عمارت ہے۔ امن و عامہ کے موجودہ حالت کے پیش نظر دہشتگردی کا خطرہ ہے۔ حکومت پنجاب کی گڈ گورنس کے حالات سب کے سامنے ہیں کہ نوکر شاہی نے اداروں کو تباہ برباد کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین رشوت کے رسیا بن چکے ہیں۔ ملازمین کی بڑی تعداد کام چور ہے اور دفتری اوقات میں دفتر بیٹھنا اُن کے لیے سوہاں روح بن جاتا ہے۔ بغیر رخصت لیے کئی کئی دن غیر حاضر رہتے ہیں۔ یوں پاکستان بھر کے سرکاری ادارئے اپنی ساکھ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ نہ جانے ہماری نوکر شاہی نے خود کو اوتار کیوں سمجھ لیا ہے وجہ یہی ہے کہ سرمایہ داروں ، وڈیروں کے ہاتھوں حکومت ہے وہ اپنے ہر طرح کے اللے تللے قومی وسائل سے پورا کرتے ہیں۔ یوں حلال حرام کی تمیز ختم کرکے نوکر شاہی نے اپنے پیروکاروں اور چھوتے ملازمین کو بھی حرام کھانے کا راستہ دیکھا دیا ہے۔ یوں بڑاڈاکو چھوٹے چور کی چوریوں سے صرف نظر کیے ہوئے ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری اوقاف، ڈائریکٹر جنرل اوقاف پنجاب کو اِس تاریخی مسجد اور دربار کی دیکھ بھال کے لیے ایماندا آفیشلز کی تعیناتی کرنی چاہیے۔ راقم نے تو صرف ایک مسجد اور مزار کا ذکر کیا ہے یہاں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا پڑا ہے۔ 

Saturday, 25 June 2016

Sunday, 19 June 2016

میاں جی ؒ کی باتیں حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ دربار عالیہ زاویہ نوشاہی نیومسلم ٹاون سرگودہاکے ملفوظات جانشین و جگر گوشہ قبلہ حکیم صاحبؒ صاحبزادہ پیر میاں محمد یوسف خان قادری نوشاہی صاحب کی زبانی


میاں جی ؒ کی باتیں

حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ دربار عالیہ زاویہ نوشاہی نیومسلم ٹاون سرگودہاکے ملفوظات
جانشین و جگر گوشہ قبلہ حکیم صاحبؒ 
صاحبزادہ پیر میاں محمد یوسف خان قادری نوشاہی صاحب کی زبانی
COMPILED BY ASHRAF ASMI ADV

۔ میاں جیؒ عہد اسلاف کی وہ نشانی تھے جن کی زندگی عشق رسولﷺ، پاکستان سے محبت اور انسانوں سے پیار سے عبارت ہے۔ میاں جی ؒ کا اصلی نام شائد کسی کو بھی معلوم نہ ہو چھوٹا بڑاسب لوگ اُنھیں میاں جی کہتے ۔میاں جی ؒ کے متعلق یہ ہی بات مشہور تھی کے انھوں نے مشہور حکیم قرشی سے حکمت سیکھی تھی۔ میاں جی بہت اعلیٰ پائے کے نبض شناس تھے۔میاں جیؒ کی حکمت کے ساتھ اور جو خصوصیت تھی وہ اُن کا روحانی فیض تھا۔اِسی گھر میں کئی دہائیوں سے مقیم تھے ۔ دن بھر لوگ آتے کوئی دوا لیتا اور کوئی دُعا کا طلب گار ہوتا۔میاں جی روایتی پیری مریدی کے قائل نہ تھے لیکن اُن کے حلقے میں شامل افراد انتہائی پڑھے لکھے تھے۔علماء۔نوجوان، پروفیسرز ڈاکٹرز، پی ایچ ڈی کے حامل ریسرچ سکالرز،پائلٹ، فوج کے اعلیٰ افسران۔گویا دکانداری والی پیری مریدی سے کوسوں دور میاں جی نے ایک ایسا نگر آباد کر رکھا تھا جہاں ہر دکھی کو جسمانی اور روحانی ہر بیماری سے شفا ملتی۔ میاں جی نہایت نفیس انسان۔ پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا۔ اور اپنا سارا خاندان قربان کرکے ہجرت کی۔مال و متاع سے بالکل رغبت نہ تھی۔ جو بھی اسباب ہوتے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔ عام دیکھنے والا یہ ہی تصور کرتا کہ شائد وہ کافی مال دار ہیں کہ ہر وقت لنگر کا اہتمام۔جو بھی اُن کے ہاں آتا اُسے فوری طور پر کھانا پیش کیا جاتا۔میاں جیؒ سادہ لباس پہنتے۔ سفید قمیض اور سفید رنگ کا ہی تہمد اور نوشہ گنج بخشؒ سے نسبت کا حامل پیلے سے رنگ کا کپڑا، جسے وہ صافا کہتے اُن کے کندھے پر ہوتا اور سفید رنگ کی کپڑئے کی بنی ہوئی ٹوپی اُن کے سر پہ ہوتی۔میاں جی ؒ کی نفاست ہر کام میں اتنی کے دیکھنے والوں کو رشک آتا۔ نہایت صاف سادہ کپڑئے پہنتے او ر بناوٹ دیکھاوئے سے ہمیشہ دور رہتے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جو بھی اُن سے ایک دفعہ ملنے آجاتا تو پھر ہمیشہ کے لیے اُن کی محفل کا شریک بنا رہتا۔ تاریخ عالم پر گہری نظر، اسلام کی حقانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا میاں جی کے دل و روح کے اندر۔کتابوں کا ایک لازوال ذخیرہ کہ جہاں سے بڑئے بڑئے سکالر آکر استفادہ کرتے۔اللہ پاک کے دوست میاں جیؒ ہر ملاقاتی سے ایسے ملتے جیسے کہ وہ اُن سے سب زیادہ قریب ہو۔میاں جیؒ کا ڈیرہ ایسی درگاہ ہے کہ جہاں سے عشق رسولﷺ کی دولت سے ہر کوئی مال ومال ہوتا۔میاں جیؒ ہر آنے والے کو خصوصی محبت سے نوازتے اورکھانے پینے سے خوب خاطر مدارت ہوتی۔ نوجوانوں کی تعداد آپکی محفل میں ہمیشہ زیادہ ہوتی۔ حضرت اقبالؒ کے بقول ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ساقی بھی اگر میاں جی ؒ جیسا ہو تو پھرعشق رسولﷺ کا جام ۔دنیا کہ ہر شے سے ماورا کر دیتا ہے۔آپؒ کے لب ہلتے اور گویا ہوتے نبی پاکﷺ کا نام جب بھی لیتے تو فرماتے سرکار دوجہاںﷺ۔آپؒ گویا ہوتے تو پھر الفاظ ہاتھ باندھ لیتے اور آپ بولتے الفاظ خاموش رہتے۔آپ کے الفاظ میں دھن گرج ایسی کہ جیسے کوئی سولہ سترہ سال کا نوجوان نبی پاکﷺ کی محبت میں مخاطب ہے۔آپؒ کے الفاظ یہ پیغام دئے رہے ہوتے کہ جس کا دل مظرب ہو وہ خود کو ہی نہ ڈھونڈ پا رہا ہو۔ جسے دنیا کی بے وفائی اور بے ثباتی کادُکھ ہو۔پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے پناہ پھر ایسی جگہ ملے جہاں سے کائنات کی ہر ذی روح فیض لے رہی ہو۔ جس کی خاطر خالق نے پوری کائنات پیدا کی ہو۔ پھر مبدا خلق عالم کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے جس کے دربار سے رحمت کا حصول ہو۔جب تمام دنیاوی رشتے دم توڑ جائیں تو پھر ایک ہی ہستی کا سہارا رہ جاتا ہے جو کہ ماں باپ اولاد مال سب سے بڑھ کر محبت کا منبع ہے۔وہ ہستی صرف رسول پاکﷺ کی ہے۔آپ کی گفتگو سن کر نوجوان سحر میں کھو جاتے۔ میاں جیؒ کا ایک بہت بڑا وصف یہ بھی تھا کہ وہ ظاہری نمود و نمائش سے ماورا تھے اور نوجوانوں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں جیسا ہوتا ۔ ہر کسی کے دکھ درد کی خبر رکھتے۔ رہنمائی فرماتے۔ حوصلہ دیتے اور خاص طور فرماتے کہ شیر بن۔جس جس کو اسباب درکار ہوتے اُس کی مدد فرماتے۔ کوئی بنک اکاونٹ اور نہ کوئی تجوری۔سب کچھ ہی تو خالق کی مخلوق کے لیے وقت کیا ہوا تھا۔ جیسے جیسے خالق نوازتا چلا جاتا ویسے ویسے میاں جی ؒ تقسیم فرماتے چلے جاتے۔میاں جی کے ڈیرئے کا ایک عجیب وصف ہے کہ جب تک میاں جی حیات رہے اُن کے ڈیرئے سے کوئی بھی شخص ناراض یا دکھی ہو کر نہ گیا۔ بلکہ ہر آنے والے سکون کی دولت لے کر گیا اور میاں جی نے اپنے رب کی عظا سے اُس کو امید کے دنیا میں جینے کے عزم سے لیس کیا۔ اکثر عشاء کے بعد نوجوان آپکے ڈیرئے پہ آجاتے اور میاں جی سے اپنے دن بھر کے معاملات کی بابت اپنا احوال بتاتے۔آپ ہر کسی کو نوازتے۔ حوصلہ دیتے۔ اور صوفیا کہ انداز تربیت سے غیر محسوس انداز میں رہنمائی فرماتے۔میاں جی کی شخصیت اتنی سلنشین تھی کے اُن کے ڈیرئے پہ آنے والا ایک ایک شخص اُن سے اپنے دل کی بات کہہ کر اپنا غم ہلکا کر لیتا۔ کوئی نمود نمائش نہیں تو تھی میاں جی میں۔ ہر کسی کی بات کو محبت سے سُنتے۔بناوٹ اور تصنہ تو چھو کر بھی میاں جیؒ کو نہیں گزرئے تھے۔آپ بعض اوقات چارپائی پر لیٹے لیٹے پاس بیٹھے ہوئے حاضرین کو تصوف کے دریچوں سے روشنی دیکھاتے چلے جاتے آپ فرماتے کہ لو بھی دوستو: پھر آپ کا فرمان شروع ہوجاتا اور ایک گفتگو کا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ سُننے والے محو ہوجاتے اور میاں جی فرما رہے ہوتے کہجب بندہ اہتمام کے ساتھ اپنے خالق ومالک کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے اور اپنے دُکھوں کا بوجھ خالق کے دربا رمیں عرض کی صورت میں رکھتا ہے تب خالق اپنے بندے کی عاجزی اور انکساری کو بہت پسند کرتا ہے اور بندے کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے ۔رب پاک اور بندے کا تعلق اسی طرح ہے جس طرح ایک بے حس وحرکت تصویر کو بنا نا والا جیسے مرضی رنگ بھردے اور اِن رنگوں کی بدولت وہ تصویر ایک خوبصورت نظر آنے لگے ۔اب مصور اور تصویر کا جو تعلق ہوتا ہے وہ خالق اور محلوق والا ہے ۔انسان کی پیدائش سے موت تک کے تمام تر حالات وواقعات اِس بات کے شاہد ہیں کہ انسان کی حثیت کیا ہے ۔محبت کے ساتھ نفرت بھی انسان کی جبلت میں ہے ۔چاہے جانے کا جذبہ انسان سے نیکیاں بھی کرواتا ہے اور انسان کو بدی کی طرف بھی لے جاتا ہے ۔بندے کی ساری تگ و دو ایک ایسے ٹائم فریم کے اندرہے جس کے متعلق کچھ بھی حتمی نہیں ۔اگر ایک جہا ز لاہور سے پرواز کرتا ہے اُسے ساوتھ افریقہ جانا ہے ۔اب راستے میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے ۔یہ ہی انہونی یا Probility کا جو فیکٹر ہے یہ ہی خالق کے وجودکی گوا ہی دیتا ہے اور خالق کے ہونے کی دلالت کرتا ہے ۔سفر منزل کی جانب جب شروع ہو اور سفر کرنے والے کو منزل تک پہنچنے کی بے یقینی ہو تو در حقیقت یہ بے یقینی رب پاک پر حق الیقین ہے خالق کے معبود ہونے کی پہچان ہر اُس عمل سے ہو تی ہے جو بندے کے ارادوں کے مخالف ہو ۔ذرا تصور فرمائیے اگر انسان دوسرئے سے عاجزی اور انکساری سے ملتا ہے اور اُس کے سامنے اپنا دکھ بیان کرتا ہے تو جس کے سامنے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے وہ بھی اپنے دل میں نرمی پیدا کر لیتا ہے ۔یہ حال تو ایک دنیا دار شخص ہے لیکن خالق کے سامنے جب عجز و انکساری ہو اور خالق اپنے بندئے سے بے پناہ محبت کرتا ہے وہ اپنے بندئے کو خالی نہیں لوٹاتا۔عبد کا اختیار اُسکی عبدیت پر منحصر ہے جیسے جیسے وہ اپنے رب کے رستے پر چلتا ہے ویسے ویسے وہ ایک مقبول عبد کی حثیت حاصل کرلیتاہے ۔ ہو۔انبیا ء اکرام تو گنا ہوں سے پاک ہیں وہ بشری لبادے میں رب پاک کے خاص عبد ہیں ۔اُن پر اُس طرح کے قوانین فطر ت کا اطلاق نہیں جس طرح ہم پر ہے ۔
خالصتااپنے خالق کی رضا کو اپنا لینا بندے کو رب کا دوست بنا دیتا ہے ۔خالق اُ س بندے پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول کرتا ہے ۔حتی کے خالق اپنے بندے کے نازبھی اُٹھاتاہے ۔بندہِ مومن کی آنکھ خالق کی آنکھ قرارپاتی ہے ۔بند ہ مو من کی خواہش کی تکمیل خالق فرما دیتا ہے۔انسانی رویے کے حوالے سے اگر ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو یہاں معاشیات کا ایک مفروضہ جسے لائف سائیکل ہائی پوتیسیزکا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور اُس کی حالت اِیسی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کماء سکے لیکن اُس کی ذات پر اخراجات کافی آتے ہیں۔ اُس کی خوراک اُس کے لیے میڈیکل کی سہولیات، کپڑئے وغیرہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے نگہداشت کے لیے کُل وقتی ایک عدد سہارئے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے لیے ہورہا ہوتا ہے اب آئیے اِس نقطے پہ غور کرتے ہیں کہ ایک انسان کے بچے کی نگہداشت کا معاملہ خالق نے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ خالق تو جانوروں پرندوں سب کی پرورش پر قادر ہے اور وہ ایسا کرتا ہے ۔اِسی لائف سائیکل مفروٖضے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت وہ اِس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ کمائی کرئے اور اُس کی اپنی ذات پر اتنا خرچ نہیں ہوتا جتنا وہ کما رہا ہوتا ہے۔ اب اگرہم خالق کے نظام کو دیکھیں کہ کس طرح ہر ذی روح کو اُس نے ایک دوسرئے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اور کائنات کا نظام جاری و ساری ہے ۔ میاں جیؒ فرماء رہے ہوتے اور سُننے والے سُن رہے ہوتے۔کوئی بھی تو میاں جی ؒ کی محفل میں اکتاہٹ کا شکار نہ ہوتا تھا ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ ایک اللہ کا دوست محبت سے ہر کسی کے دکھ سُن کر اُن کو دعا دئے رہا ہوتا ۔ حوصلہ دئے رہا ہوتا
میاں جی کے ڈیرئے پر آنے والے ہر کوئی یوں محسوس ہوتا کہ میاں جیؒ میرا بہت خیالر رکھتے ہیں میاں جی اُن کے بچون تک سے پیار کرتے اور اُن کو خصوصی محبت سے نوازتے۔یوں چھوٹے بچوں کو بھی میاں جی سے بہت زیادہ اُنس تھا۔ میاں جی ؒ خود بہت ہی سادہ غذا کھاتے لیکن مہمانوں کی خوب خاطر مدارت کرتے۔اللہ پاک کے نیک بندوں کا ہمیشہ سے وصف ہے کہ اُن کے ہاں لنگر نہیں رُکتا۔ میاں جی اکثر اُن نوجواں کے انتظار میں ہوتے جو عام طور پر اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر روزانہ اُن کے پاس چلے آتے اور میاں جی پھر علم وحکمت کے ایسے موتی بکھیرتے کے اللہ اللہ۔ میاں جی ہر آنو والے کا اتنا خیال رکھتے کہ گمان ہوتا کہ شائد میاں جیؒ کی ڈیوٹی ہی صرف اِس کام پر ہے۔ اپنے لیے کچھ طلب نہ فرماتے ہمیشہ دیتے ہی چلے جاتے۔ اِسی طرھ اُن کا حقہ اُن کے پاس پڑا ہوا اور وہ کبھی لیتیلیٹے اور کبھی بیٹھ گفتگو فرماتے ۔وہ اِس طرح فرماتے کہ اُن کی بات دل کی آواز محسوس ہوتی میاں جی تو شاید کسی اور ہی نگ میں رنگے ہوئے انسان تھے۔ اکثر جب من کی باتیں ہوتیں تو فرماتے کہ من کے اُجرنے کی وجہ بہت سے ایسی بیماریاں ہیں جوظاہری طور پر تو چھوٹی چھوٹی خواہشات سے جنم لیتی ہیں لیکن یہ ہی خواہشات من کے اندر ایسے مچلتی ہیں کہ کہ اُسکا اثر پھر تن پہ بھی دیکھائی دیتا ہے۔اِس لیے زندگی زندگی کو سوہاں روح بنانے میں یہ ہی اچھوتی خواہشیں اثدھا بن جاتی ہیں جہاں پھر نیکی کا ٹھرنا ممکن نہیں رہتا۔ زمانے کے انداز خود پرحاوی کر لینے سے معاملات بگڑتے ہیں سنبھلتے نہیں۔ لالچ ایک ایسا سراب ہے کہ انسان کو اپنی طرف اِس طرح کھینچتا ہے کہ انسان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔لالچ کا سلسلہ یوں ہی رُکتا نہیں بلکہ لالچ نئے لالچ کو جنم دیتا ہے۔یہ لالچ ایسے کنویں کی حثیت اختیار کر جاتا ہے کہ اِس گڑھے سے باہرنکلنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اِس سے قطع تعلق ہونا انسان کے لیے اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اِنسان انسانیت کے دائرئے سے بھی نکل جاتا ہے۔ یہ ہی لالچ پھر المیوں کو جنم دیتا ہے۔ایک کے بعد ایک المیہ۔زندگی کا مقصد صرف ہوس بن کر رہ جاتا ہے۔یہ ہی ہوس چھوتی بیماری کی طرح دیگر ہم عصروں کو بھی اپنا شکار کر لیتی ہے بالکل اِسی طرح جیسے راہزن راہبر بن جائے۔انسان ہونے کے مقام سے لالچ انسان کو ہٹا دیتا ہے۔ درندگی کا حامل بنا دیتا ہے۔ محبت خلوص کے راستے کو ویران کر دیتا ہے۔وفا نام کی کوئی شے بھی لالچ کے قریب نہیں پھٹکتی۔انسانی وقار کو نہ صرف شدید دھچکا لگتا ہے ۔صوفی چونکہ اپنے خالق کی طرف امید لگائے ہوتا ہے اور اُسے یہ ادارک ہو جاتا ہے۔ کہ لالچ تو خود کو مردہ کرنے کا نام ہے چونکہ لالچ دنیاوی عارضی شے سے ہوتا ہے اِس لیے اُس شے کے اندر دیرپائی بھی نہیں ہوتی۔جب محرک یہ ہو کہ گوہر نایاب کو پانا ہے تو پھرُ اُس کی تلاش کے لیے صاحب نظر ہی تحریک پیدا کرتا ہے اور صاحب نظرکی تمام تر تحریک کا ماخذ عمل کی طرف سفر ہوتا ہے دعویٰ عشق اور پھر بعد ازاں عشق کی لاج رکھناہی عشق ہے۔اِس لیے صوفی کے اندر طمع نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔اِس کا مطلب یہ نہیں کہ صوفی کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ بات یہ ہے کہ صوفی نے اپنی ضروریات کو محدود کر لیا ہوتا ہے۔ میاں جی اپنے گفتگو کے دوران حقے کے کش بھی لگاتے ۔ اور پھر گویا ہوتے کہ صوفی کو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ تصنہ بناوٹ سے منزل نہیں پائی جاسکتی تفکرات انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتے ہیں۔ اِسی وجہ سے نادانستگی میں انسان سے ظلم روا ہوجاتا ہے۔ انسان کا مقصد ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو گزند پہنچائے لیکن کیونکہ کہ تفکرات نے اُس کی سوچ کو جامد کیا ہوتا ہے اِس لیے اُس سے ہر وہ عمل ہو جاتا ہے جو اُسکی جبلت کے خلاف ہوتا ہے۔اِن تفکرات کی وجہ سے خالق کو فراموش کرکے انسان دُنیاوی خدا بنا لیتا ہے۔ صرف ایک خالق کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے اُسے بہت سوں کو سجدہ کرنا پڑتا ہے۔ اگرایک خالق کے حوالے سارئے دکھ درد کردیے جائیں تو بس پھر خالق جانے اور خالق کا کام۔خواہ مخواہ چند اونس کے حامل دماغ پر اتنا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ انسان کا سانس تک رُکنے کو ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ چند روزہ زندگی کی معمولی اور جلد ختم ہونے والی خواہشوں کی بجائے انسان صرف اپنے خالق کو ہی کارساز مانے اور سارئے دکھ اپنی جھولی سے نکال کر خالق کے حوالے کردئے تو وہ دماغ جو چند مسائل کی وجہ سے پھٹا جارہا ہوتا ہے وہ دماغ اور دل پوری کائنات کو اپنے اندر سمو لیتے ہے۔ بس ایک کام کرنا ہے کہ خالق سے رشتہ کمزور نہ ہو پائے۔ خالق تو مخلوق کے انتظار میں ہوتا ہے کہ مخلوق کب مجھے پکارتی رب پاک امید کا نام ہے۔رب پاک محبت سے بھر پور ہستی ہے۔رب پاک سے جب ہم امید باندھ لیتے ہیں۔تو پھرہم خود کو اپنے دُکھوں اور غموں سمیت اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے رب کے حوالے کر دیتے ہیں مسافر کبھی پلیٹ فارم پہ مستقل قیام کا خواہاں نہیں ہوتا۔نہ ہی وہ پلیٹ فارم پہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اُسے کوئی اگر کہے بھی کہ اِسی جگہ رُک جاؤ تو تب بھی وہ کسی کی نہیں مانتا بلکہ اُلٹا ایسا کہنے والے کو پاگل گردانتا ہے کہ یہ جگہ ایسی ہے کہ یہاں مستقل قیام کیا جائے یہ دُنیا تو پلیٹ فارم سے بھی عارضی ہے اِس کے لیے خود کو، دوسروں کو تکلیف میں ڈالنا ایسے ہی ہے کہ آبیل مجھے مارفراق وصال اُسکا ساتھ ہونا بھی دل کو خوف میں رکھتا ہیکہ شاید اب کہ یہ وصال کی آخری گھڑیاں تو نہیں ہجر کی ناتمام مسافتیں جب اپنا دامن پھیلادیتی ہیں تو تب وصال کی دُعا کے ساتھ ساتھ ہجر کا دُکھ سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہتا ہے لیکن روح کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ہجر طمانیت دینی لگتی ہے کیونکہ ہجر کے بعد تو کسی اور ہجر کے درپیش ہونے کا دکھ تو نہیں۔ من کے اندر سکون حاصل تب ہی ہوتا ہے جب مخلوق مخلوق کا خیال رکھتی ہے۔ کسی کو دُکھ دئے کر کسی کے مال پر قبضہ کر کے کسی سے رنجش کرکے من کی بستی کو آباد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔جب خود سے دوسروں کو اُجڑنے کا عمل ہو رہا ہے تو رد عمل بھی اُجڑنے کا ہی ہوتا ہے۔ تخریب سے مزید تخریب پیدا ہوتی ہے۔میاں جیؒ کا ڈیرہ تو ٹوٹے ہودلوں کو جوڑتا۔ میاں جیؒ سے ملاقات کے بعد پھر ملنے کی تشنگی رہتی ۔ 

Monday, 6 June 2016

حضرت احمد ندیم قاسمیؒ کا نعتیہ کلام , Written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




حضرت احمد ندیم قاسمیؒ کا نعتیہ کلام

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب پیٹرو اسلام کی حامل نام نہاد مذہبی جماعتیں ہر کسی پر سوشلسٹ اور کیمونسٹ کا فتوح لگاتی تھیں اور خود کو ہی صرف اسلام کا سچا پیروکار کہتی تھیں۔ لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ جن عظیم لوگوں کو ترقی پسند یا سوشلسٹ نظریات کا حامل گردانا جاتا رہا ہے وہ لوگ بھی حمد اور نعت سنتے اور کہتے رہے ۔برصغیر پاک و ہند میں نعتیہ شاعری میں بلند ترین نام حضرت امام مولانا احمد رضا خان ؒ کا ہے۔ایک صدی قبل خالق حقیقی سے جاملنے والے محمد احمد رضا خان بہت بڑئے عالم دین تھے۔ قران مجید کا شہرہ آفا ق ترجمہ کنزالایمانجناب حضرت امام احمد رضا خانؒ کا عظیم ترین کارنامہ ہے۔یوں تو نعت گوئی کا سلسلہ حضورؐ کی حیات مبارک میں ہی شروع ہو گیا تھا جس کی بازگشت پورے عالم اسلام کی ادبی اور سماجی تاریخ میں تب سے اب تک دلوں کو منور اور سماعتوں کو معطر کرتی چلی آ رہی ہے۔ مگر برصغیر پاک و ہند اور بالخصوص اردو زبان کے حوالے سے اس پر انیسویں صدی کے آخری ربع سے جو موسم بہار شروع ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مولانا حالی کا یہ دعائیہ نوحہ د کہ اے خاصہ خاصانِ رُسل وقت دعا ہے۔اُمّت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے۔حالیؒ اور اقبالؒ کے زمانے تک کم و بیش ہر شاعر کے دیوان کے آغاز میں نعتیہ کلام شامل ہوتا تھا اور جہاں ایسا نہیں تھا وہاں بھی دیوان کے اندر نعتیہ مضامین پر مبنی اشعار ضرور ہوتے تھے جیسے مثال کے طور پر مرزا غالب کے اردو اور فارسی کلام کے یہ دو اشعار کہ۔منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی۔قسمت کھلی ترے قد و رُخ سے ظہور کی۔غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم۔کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است کم و بیش یہی صورت علامہ صاحب کے مجموعہ ہائے کلام میں ہے کہ جگہ جگہ آپ کو ایسے نعتیہ اشعار دکھائی دیتے ہیں جو سربسر حُبِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔یہ روایت بیسویں صدی کے نصف اول یعنی قیام پاکستان کے دنوں تک مسلسل آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے اور ہمیں امیر مینائی، مولانا ظفر علی خاں، حفیظ جالندھری، بیدم وارثی، ماہر القادری اور احمد ندیم قاسمی جیسے بلند پایہ شاعر مسلسل نعت کہتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تسلسل کا گراف بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں اپنے عروج کو پہنچ کر آج کی شاعری تک رواں دواں نظر آتا ہے۔اس دوران میں بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں نعتیہ مجموعے شائع ہوئے اور کئی شاعروں کے لیے یہ ان کی پہچان اور وجہ اختصاص بھی ہے لیکن احمد ندیم قاسمی مرحوم کا کمال یہ ہے کہ ان کے ستر سالہ ادبی کیریئر میں کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جب انھوں نے نعت کی سعادت حاصل نہ کی ہو اور یقیناًمعیار اور عرصے کے اعتبار سے یہ اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ سے کم نہیں۔ اس دوران میں جن شعرأ نے نعت کے میدان میں زیادہ نام کمایا ان میں حافظ مظہر الدین، اعظم چشتی، مظفر وارثی، حافظ لدھیانوی، اقبال عظیم، ریاض حسین چوہدری، خالد احمد، پیر نصیر الدین گولڑوی، عبدالعزیز خالد، انور مسعود، نورین طلعت عرویہ اور لالہ صحرائی سمیت کچھ اور نام بھی لیے جا سکتے ہیں مگر حفیظ تائب مرحوم کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔حفیظ تائب قاسمی صاحب سے جونیئر بھی تھے اور ان کے نیاز مند بھی مگر جہاں تک نعت میں ان کے مقام کا تعلق ہے میں اس کا گواہ ہوں کہ قاسمی صاحب نے تائب صاحب کی نعت کو ہمیشہ اپنے عہد کی نمائندہ نعت قرار دیا۔ آج یہ دونوں بزرگ اور محترم ہستیاں ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ رسول پاکؐ کی رحمت کے تعلق سے ان کے یہ لازوال شعر اپنی مثال آپ ہیں:پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیر۔تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی ۔اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا۔ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ۔راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا۔ترقی پسند اور کسی زمانے میں شوشلسٹ خیالات رکھنیوالے اکثر ادیبوں اور شاعروں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ مذہب سے دور ہو گئے تھے اور یہ کہ انھوں نے نعت کی صنف میں اس ڈر سے شاعری نہیں کی کہ کہیں انھیں رجعت پسندی یا مولویت کا طعنہ نہ دیا جائے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد پراپیگنڈہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ترقی پسند شاعر کے کلام میں نعتیں اور نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ کمیونسٹ قرار دیے جانے والے شاعروں مثلاً فیض صاحب، عارف عبدالمتین اور ظہیر کاشمیری کے ہاں بھی نہ صرف نعتیہ کلام ملتا ہے بلکہ اس کا معیار بھی بہت عمدہ ہے کہ بقول شخصے رسولِ پاکؐ سے زیادہ ترقی پسند انسان تو تاریخ نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپؐ کی شخصیت کے اس رخ کو قاسمی صاحب نے خاص طور پر اپنی نعتوں میں اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:یوں تو ہر دور مہکتی ہوئی نیندیں لایا۔تیرا پیغام مگر خواب نہ بننے پایا۔قصر مرمر سے شہنشاہ نے ازراہِ غرور۔تیری کٹیا کو جو دیکھا تو بہت شرمایا۔اور یہ کہ اس قدر کون محبت کا صلہ دیتا ہے۔اس کا بندہ ہوں جو بندے کو خدا دیتا ہے۔جدید اردو نعت میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی نعت کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ اس نے دہریت اور الحاد کے دور عروج میں اللہ کی وحدانیت اور نبی آخر الزماں کی رحمت اور انسانوں سے محبت کو ان روایتی حمدیہ اور نعتیہ مضامین پر ترجیح دی جن میں اندھی عقیدت تو ہوتی ہے مگر بصیرت کا فقدان ہوتا ہے جو آدمی کو انسان اور پھر ان کو مرد مومن کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ یہ مضامین ان کی غزلوں اور نظموں میں بھی بار بار سامنے آتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحبؒ کا کلام ملاحظہ فرمائیں۔ 
میں کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں
تیری محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں تیرا دہلیز نشین
آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں
چند پل یوں تیری قربت میں کٹے
جیسے اِک عمر گزار آیا ہوں
تیرا پیکر ہے کہ اِک ہالہِ نور
جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں
کہ یہ کہیں خامیِ ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں
راقم نے جب اوپر بیان کردہ نعت سُنی تو جناب حضرت احمد ندیم قاسمیؒ کے عشق رسول ﷺ کے جذبات کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لیے چند ٹوٹے پھوٹے الفاط تحریر کیے ہیں۔چند اشعار جو اس بابرکت میدان میں احمد ندیم قاسمی کی انفرادیت کے ترجمان ہیں۔
اے مرے شاہؐ شرق و غرب! نانِ جویں غذا تریؐ
اے مرے بوریا نشیں! سارا جہاں گدا تراؐ
دینا ہے ایک دشت تو گلزار آپؐ ہیں
اس تیرگی میں مطلع انوار آپؐ ہیں
دیکھ کر غار حرا سوچتا ہوں
کتنی بھر پور تھی خلوت انؐ کی
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایا تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا، ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
قصر و ایواں سے گزر جاتا ہے چپ چاپ ندیمؔ 
در محمدؐ کا جب آئے تو صدا دیتا ہے
تیراؐ کردار ہے احکام خدا کی تائید
چلتا پھرتا، نظر آتا ہوا، قرآں توؐ ہے
قطرہ مانگے جو کوئی تو اسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے اپنی تمنا دے دے
وہ مری عقل میں ہے وہ مرے وجدان میں ہے
میری دنیا بھی وہی ہے، میرا عقبیٰ بھی وہی
قرآن پاک انؐ پہ اتارا گیا ندیمؔ 
اور میں نے اپنے دل میں اتارا ہے انؐ کا نام

چونکہ دُنیا بھر میں نعت کے حوالے سے مسلم و غیر مسلم شعراء اکرام نے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے اور اردوپ زبان اِس وقت دنیا کے تقریباً ہر خطے میں لکھہ پڑھی جاتی ہے۔یوں احمد ندیم قاسمیؒ کی نعتیہ شاعری میں جو عقیدت و روحانیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ واقعی آپ کی نعتیہ شاعری پڑھنے اور سُننے والوں کے لیے ایک عظیم سعادت ہے۔

Friday, 29 April 2016

خالق اور بندئے کے تعلق کی بنیاد۔خیر البشرﷺ..................................written by صاحبزادہ اشرف عاصمی



خالق اور بندئے کے تعلق کی بنیاد۔خیر البشرﷺ

صاحبزادہ اشرف عاصمی


کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جہاں حساب کتاب روا رکھا جانا اُن رشتوں کے تقدس کی پاسداری کے مقام سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ اِن رشتوں میں ایک رشتہ تو ماں کا ہے اور ایک باپ کا ہے۔لیکن سب سے اعلیٰ و ارفع تعلق تو جو انسان کا ہے وہ ہے اپنے رب کے ساتھ۔ یعنی خالق اور مخلوق کا رشتہ۔ ماں اور باپ بھی انسان کی تخلیق کے مراحل کا ذریعہ بنے ہوتے ہیں اِس لیے ماں کے اندر رب پاک کی اپنی مخلوق سے محبت کے مقابلے میں ستر حصے سے بھئی کم تر درجے کی محبت ہوتی ہے۔ یوں انسان کی زندگی میں جو ایک اہم تعلق بنتا ہے وہ اُس کے رب، اُسکی ماں اور اُسکے باپ کا ہے۔ لیکن ایک تعلق جو اعلیٰ ترین ہے جس تعلق کی بناء پر رب شناسی ہوئی جس ہستی کی وجہ سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اُس ہستی کے بغیر نہ تو ایمان مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی انسان کی تخلیق کے مقاصد پورئے ہو پاتے ہیں۔ وہ ہستی جناب نبی پاکﷺ کی ہے۔ رب پاک اور نبی پاک ﷺ سے تعلق کی آشنائی کی بدولت ہی ماں اور باپ کی عظمت و توقیر تک رسائی ہوتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ آگے چلتا ہے تو انسان کی زندگی میں رہبر ہستی اُسکے اُستاد کی ہوتی ہے۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق انسان کے تین باپ ہیں ۔ اُسکا باپ، اُسکا سسر اور اُسکا اُستاد، اور اُستاد کی عظمت سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اُستاد علم سکھاتا ہے اور علم نور ہے نور سے انسان کو سرفراز فرماتا ہے کہ اُسے شر اور خیر کے فرق سے آگاہی ہوتی ہے۔اِن رشتوں کے ساتھ ساتھ بہن بھائی،بیٹا بیٹی ودیگر رشتے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔اور ان رشتوں کا اپنا ایک مقام ہے لیکن اِن رشتوں میں محبت کی چاہت بعد ازاں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔لیکن ماں باپ خالق اور نبی پاکﷺ اور اُستاد یہ وہ رشتے ہیں جن کا انسان سے وابستہ رہنا کسی مادی معاملات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اِن رشتوں کے تقدس و حرمت کا پاس رکھنا مخلوق کے لیے ایمان کی حد تک ضروری ہے۔دُنیا میں اپنی راہ کو درست سمت رکھنے کے لیے ایک رہبر رہنماء کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔ جس کو مُرشد کو نام دیا گیا ہے۔ مرُشد انسان کی باطنی کیفیات کو رب کی رضا سے ہم آہنگ کرکے اس طرح کر دیتا ہے جیسے دھوبی کپڑئے کو دھو کر صاف کر دیتا ہے۔ مرشد کا کام من کی صفائی ہوتا ہے ۔ انسان جو مختلف مواقعوں پر سیدھی راہ سے ہٹ کر مادیت کی ہوس میں گم ہونے لگتا ہے تو اُس وقت اُس کا مرُشد اُسے عشق حقیقی سے آشنائی کرواتا ہے اور اُس کا اِس دنیا میں آنے کا جو مقصد ہوتا ہے اُس سے اُسے روشناس کرواتا ہے ۔ اُس کو انسان اور حیوان میں فرق جو ہوتا ہے اُس فرق سے آگاہی دلواتاہے ۔ دُنیاوی لالچ سے دور مادہ پرسی کی ہوس سے نجات حاصل ہونے کے سبب انسان کو اُس کے اصل مالک اپنے رب کے قر ب کا احسا س ہونے لگتا ہے ۔ اور پھر بندہ فنافی الا شیخ، فنا فی الار سول وﷺ کے مدارج طے کرتا ہوا اپنے خالق کو پالیتا ہے۔ یوں ماں باپ اُستاد، مرشد، نبی پاکﷺ اور خالق یہ وہ رشتے ہیں جن کے ساتھ انسان کا تعلق لازوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اِن رشتوں کا سبب محبت ہی محبت ہے۔انسانی زندگی میں دوستی کا رشتہ بھی بہت اہم ہوتا ہے اور تاریخ میں دوستی کے سچے رشتے کی لازوال مثالیں موجود ہیں۔اللہ پاک نے تو اپنے بندئے کو اپنا نائب بنایا ہے اور اپنے بندئے کے ساتھ اُس کی محبت کا یہ عالم کہ ماں کی محبتوں کو ستر گنا سے بھی بڑھا دیا جائے تو رب کی محبت کے سامنے ماں کی محبت ہیچ ہے۔خالق خود لافانی ہے اور اُس سے منسلک تعلق بھی لافانی ہے۔ یقینی طور خالق اور بندئے کا تعلق سراپاء محبت ہے۔ بندگی کا حق ادا کرکے بندہ ایسے مدارج طے کر لیتا ہے کہ خالق کے ہاں اُس کی پذیرائی کا عالم کچھ اِس طرح سے ہوجاتا ہے کہ خالق پھر اپنے بندئے کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ بندہ دیکھتا ہے خالق اپنے بندئے کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔خالق اپنے بندئے سے پھر اُس کی رضا پوچھتا ہے۔تمام تر دُنیاوی و اُخروی رشتوں میں اعلیٰ و ارفعٰ تعلق بندئے اور رب کا ہے اور اِس تعلق میں ایک اہم شخصیت بھی ہیں وہ نبی پاکﷺ کی ہے۔ مومن بھی نبی پاکﷺ کا محب ہے اور اللہ پاک بھی نبی پاکﷺ کا محب ہونے کا دعوئے دار ہے۔اُس ہستی ﷺکی بزرگی کا کیا عالم ہوگا کہ رب پاک نے کائنات کے ایک ایک ذرئے کو پیدا ہی صرف اِس لیے کیا کہ نبی پاکﷺ کے ظہور کے طفیل۔ رب پاک تک پہنچے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی کوئی ضرورت نہیں۔ رب تو ہر ہر بندئے کے دل میں آباد ہے اُس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ بندئے کو اپنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کرنے کی آشنائی دینا والا رب اپنی ہر ہر تخلیق کونبی پاکﷺ کا وسیلہ گردانتا ہے۔ اللہ پاک کو ماننے والے ہر مذہب کے لوگ اِس دنیا میں موجود ہیں۔ رب کی توحید کا پرچار کرنیوالے تو عیسائی ، یہودی بلکہ ہندو بھی ہیں۔ سکھوں کے ہاں توحید کا جو تصور ہے وہ بھی کمال ہے ۔ لیکن اِس کے باوجود اگر اِن مذاہب کے ماننے والوں کو اللہ پاک مومن نہیں مانتا تو کیا کمی ہے کیا وہ توحید پرست نہیں ہیں۔ فرق تو صرف اُس ہستیﷺ پہ ایمان لانے کا ہے جس کی وجہ سے خالق نے اپنا آپ ظاہر کیا۔ فرق تو صرف اُس عظیم شخصیت نبی ﷺ کا ہے جن کو تخلیق آدم سے بھی پہلے نبوت پہ سرفراز فرمایا۔فرق تو صرف اُس عظیم رہنماء نبی پاک ﷺ کی وجہ سے ہی ہے کہ جن کو صاحب قران کا افتخار بخشا گیا۔ جس قران کو ہاتھ میں پکڑ رب کی وحدانیت کا اعلان کیا جاتا ہے جس قران کو ضابطہ حیات مانا جاتا ہے اُس کے ایک ایک ہر کی گواہی دینے والی ذات صرف ایک ہے وہ ہے نبی پاکﷺ کی۔ اللہ پاک نے جو کچھ جبرائیل امینؑ کے ذرئیے سے وحی کوبھیجا اور جس کو نبی پاکﷺنے فرمادیا کہ میرئے صحابہ اکرامؓ یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں یہ قران ہے تو اُسے قران قرار دئے دیا گیا اور جس بات کو نبی پاکﷺ نے فرمایادیا کہ میرئے صحابہ یہ بات جو ہے یہ حدیث ہے ۔خالق نے اپنی عطاؤں کی بارش اپنے بندوں پر کر نے کے لیے اپنا ہی محبوب دوست چُنا۔اپنے ہی محبوب ترین بندئے کو ہی تمام جہانوں کے لیے رحمت بنایا ۔ اِس لیے نبی پاکﷺ کی محبت کے بغیر نہ تو ایمان کی سلامتی ہے اور نہ انسان ہونے کا بھرم رکھا جاسکتا ہے۔ خالق کی عطا سے نبی پاکﷺ کو سب کچھ ملا اور نبی پاکﷺ نے اُس عطاء کو اپنی امُت میں اپنے خالق کے حکم سے تقسیم فرمادیا۔





Wednesday, 20 April 2016

حضرت واصف علی واصف ؒ کی فکر ی اساس اور پاکستان کی حقیقت .An article by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


حضرت واصف علی واصف ؒ کی فکر ی اساس اور پاکستان کی حقیقت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

حضرت واصف علی واصفؒ کو اللہ پاک نے وہ انداز گفتگو عطا فرمایا تھا کہ اُن کی بات دل میں اُتر جاتی ۔اللہ پاک ہر دور میں اپنے نیک بندوں سے معاشرئے کی دکھی دلوں کے زخم بھرنے کا کام لیتا ہے۔ جناب واصف علی واصفؒ کی ظاہری حیات اور ظاہر حیات کے بعد والی زندگی دونوں ادوار تشنگانِ توحید کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ آپؒ کی گفتگو سے فیض ہونے والا طبقہ وہ تھا جو کہ نام نہاد مُلایت کی وجہ سے مذہب سے دوری اختیار کیے ہوئی تھا۔ لیکن جناب واصف علی واصف نے اُس طبقے کو رب کی محبت رسولﷺ کی محبت اور مخلوق خدا کی محبت کی طرف راغب فرمایا جو کہ روایتی ملاؤں کی وضہ سے دین سے وری اختیار کیے ہوئے تھا۔ یا ایسا طبقہ جن کے پاس سماجی حثیت بہت اچھی ہوتے ہوئے بھی روحانی سکون سے محروم تھا۔ایسے لوگ جناب واصف علی واصفؒ کی محفلوں سے فیض یاب ہوئے یا پھر اُن کے کالموں اور اُن کی کلام کی کتب کا مطالعہ کرکے جناب واصف علی واصف ؒ کی سوچ جو کہ ایک ولیٰ کامل کی سوچ تھی کی طرف متوجہ ہوئے۔ اللہ کے نیک بندئے جنہیں اولیاء اکرام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اُن کے مشن کا مقصد اول و آخر انسانیت کی بھلائی ہی ہوتا ہے۔ اور انسانیت کی بھلائی کے حوالے سے کسی مذہب ذات پات کی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ یہاں ایم او کالج لاہور میں ہونے والی گفتگو کی ایک نشست جس میں پاکستان کے حوالے سے بات ہوئے جس مذاکرئے میں محترم عطائالحق قاسمی نے بزم اقبال ؒ (ایم۔اے۔او۔ کالج) اور ایوانِ وقت (روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘) کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔ مذاکرے کا موضوع ’’پاکستان‘‘ تھا۔ اس مذاکرے میں علم و ادب کے حوالے سے ملک کی نامورشخصیات نے شرکت کی۔ کہنے کو تو یہ ایک مذاکرہ تھا‘ لیکن درحقیقت یہ سوال و جواب کی ایک نشست تھی‘ جس میں شریکِ محفل دانشور حضرات نے آپؒ کے روحانی علم سے اکتسابِ نور کیا۔شرکائے مذاکر میں عظیم ہستیاں جسٹس انوارالحق۔ پروفیسر اشفاق علی خان۔ اشفاق احمد۔منیر نیازی۔ خاطر غزنوی۔ ڈاکٹر سلیم اختر۔ عبدالمجید۔ اختر امان۔ اظہرجاوید۔ خواجہ افتخار۔ امجد طفیل شامل تھیں۔ جناب اشفاق احمدؒ صاحب کے سوال اور جناب واصف علی واصفؒ کے جواب کو درج کر رہا ہوں ۔اشفاق احمد: وا صف صاحب!یہ کوئی روائتی مجلس نہیں بلکہ مجالس کی عام ڈگر سے ہٹ کر ہے۔ اس محفل میں‘ میں اور میرے ساتھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری ذات سے لے کر یہ سفر جو بہت پیچھے سے ہمارے بزرگوں کا سفر ہے‘ یہ سفر اسی اعتبار سے ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن یہ سفر بیرونی طور پر ہی نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے اندر ہی ایک سفر ہوتا ہے۔ چنانچہ سیاست اور معیشت کے پاکستان کے وجود میں آنے کا‘ پاکستان کے بننے کا اور پاکستانیوں کا جو روحانی سفر تھا۔ وہ سفر کیا بتدریج رواں ہے یا رک گیا ہے اور لوگ سستانے لگے ہیں۔ ہمارے درمیان جو اس وقت عوام موجود ہے جس میں ہم سب لوگ شامل ہیں‘ جو بڑے یقین کے ساتھ اور حتمی طور پر اس بات کو مانتے بھی ہیں اور اعلان بھی کرتے ہیں کہ پاکستان بنا اس لئے تھا کہ ہم اپنی زندگی بہتر کرنا چاہتے تھے‘ ہم اپنی زندگیوں کو آزادی عطا کرنا چاہتے تھے اور ہم نہایت دلجمعی کے ساتھ اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کے حوالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب ہم اس سے ہٹ کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں۔ مثلاً ہم جو جالندھر‘ ہوشیار پور سے آئے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بیاس کے مقام پر ایک چھکڑا جا رہا ہے‘ اس کو ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ہانک رہا ہے۔ اس چھکڑے میں ایک اس کا باپ ہے‘ بیوی ہے‘ اس کی دو بچیاں ہیں‘ ایک بیٹا ہے‘ وہ جا رہا ہے۔ اچانک اس پر حملہ ہوتا ہے جس میں اس کا بیٹا مار دیا جاتا ہے۔ وہ اس جگہ پر گڑھا کھود کر اپنے بیٹے کی لاش دفن کر دیتا ہے اور درود شریف پڑھتا ہوا چھکڑے کو لے کر پھر چل پڑتا ہے۔ حالانکہ اصولی طور پر تو اسے اپنا سفر روک لینا چاہئے تھا۔ پھر تھوڑا آگے جا کر اس کی بیٹی اٹھا لی جاتی ہے۔ وہ پھر بھی درود شریف پڑھتا ہے۔ اللہ‘رسولﷺ کو یاد کرتا ہوا آگے چل پڑتا ہے۔ یعنی کیا اس کو اس بات کی خواہش اور طلب تھی کہ آگے چل کر مالی طور پر مجھے ایک سنہرا مستقبل نصیب ہو گا یا یہ کہ اتنے خوفناک سفر سے گزرنے کے بعد اصولاً اس کو یہ مان لینا چاہیئے تھا کہ اب میں منہ سے وہ الفاظ نہ کہوں جو میں کہتا ہوں یا مجھے رک جانا چاہیئے تھا۔ لیکن وہ بدستور اپنا چھکڑا ہانکتا ہوا سرحد تک پہنچ جاتا ہے۔ اب جب ہم بہت سمجھدار اور سوچنے والے ہو گئے ہیں‘ اب ہم کو اپنے آپ میں وہ خصوصیت نظر نہیں آتی۔ چنانچہ میں بالخصوص اور میرے ساتھی بالعموم یہ جاننا چاہیں گے کہ موجودہ صورتحال میں جب کہ ہم سیاسی طور پر تو سمجھ گئے ہیں کہ یہ ووٹ ہوتا ہے‘ یہ بیلٹ بکس ہے‘ یہ جمہوریت ہے اور ایسے اسمبلی بنتی ہے۔ یہ سب کچھ تو ہم جان گئے ہیں اور اس کی تو اب ضرورت نہیں جاننے کی۔ بات یہ ہے کہ کیا ہمارے بچ نکلنے کے لیے کوئی ایسا سوئچ ہے جس سے ہم میں پھر وہی ایمان اور یقین کی کیفیت پیدا ہو گی۔ اور ہم پھر پہلے کی طرح اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔ مایوسی کی فضا دور ہو گی اور غیر یقینی حالات بہتر ہوں گے، کیونکہ کچھ لوگ تو پاکستان کے قائم رہنے کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ سوال لمبا ہو گیا ہے مگر اب یہ معلوم نہیں کہ میں اپنا مقصد سمجھا سکا ہوں کہ نہیں؟واصف علی واصف ؒ صاحب: حاضرین محفل کی خدمت میں سلام پہنچے۔ سوال بڑا واضح ہے اور اس کا جواب بھی بڑا واضح ہے۔ غیر یقینی حالات پر تقریریں کرنے والے کتنے یقین سے اپنے مکان بنا رہے ہیں۔ دراصل جس انسان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں وہ کسی مستقبل پر کبھی اعتماد نہیں کر سکتا۔ مستقبل حال سے ہے‘ اپنے حال پر راضی رہنا چاہئے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہوں۔ اگر کشتی میں ایک انسان بھی خوش نصیب ہو تو اس کے کنارے لگنے کا شک نہ ہونا چاہئے۔ خوش نصیب وہ انسان ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہو۔ آج کا انسان ایک نا معلوم اندیشے سے دو چار ہے۔ اندیشہ ذاتی‘ ملکی اور بین الاقوامی حالات کی وجہ سے ہے۔ ذاتی اندیشہ اس لئے ہے کہ ہماری زندگی کثیرالمقاصد ہو کر رہ گئی ہے۔ خواہشات کی کثرت نے زندگی میں بے مقصدیت پیدا کر دی ہے۔ہم کئی زندگیاں گزار رہے ہیں اور اس طرح ہمیں کئی اموات سے دوچار ہونے کاڈر محسوس ہو رہا ہے۔ ملکی سطح پر ہم سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اندیشے میں مبتلا ہیں۔ وحدتِ افکار نہ ہونے کی وجہ سے وحدتِ کردار نہیں۔اسی لئے ملت میں وحدت کا شعور نہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جن پر اسلام نافذنہیں ہو سکا۔ اور یہ کیسا اسلام ہے جو مسلمانوں پر نافذ نہیں ہو سکا۔ اندیشوں سے بچنے کا طریقہ بھی آسان ہے۔ اندیشے کی ضد امید ہے۔ امید اس خوشی کا نام ہے جس کے سہارے غم کے ایام بھی کٹ جاتے ہیں۔فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے۔ غور کرنا چاہئے کہ موت سے زیادہ خوف ناک موت کاڈر ہے اور موت کا ڈر بے معنی ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ خطرات کے باوجود زندگی وقت سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی اور احتیاط کے باوجود زندگی وقت کے بعد قائم نہیں رہ سکتی۔میں یہ گذارش کر رہا ہوں کہ بہتر وقت آنے والا ہے۔ جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح وقت بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ زندگی‘ موت کی حفاظت و پناہ میں ہے۔ ہم اجتماعی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ لیکن ہم فرداً فرداً جوابدہ ہیں۔ لالچ نکل جائے تو خوف نکل جاتا ہے۔ جو اپنے فرائض کی ادائیگی کرتا ہے وہ خوف سے آزاد ہے۔ خوف کوتاہیوں کا نام ہے۔ ہم اپنے اعمال کی عبرت کے خوف میں مبتلا ہیں۔ گناہوں نے دعائیں چھین لی ہیں۔ ہم آج بھی ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کر دیں۔ اگر ہمارا فرض اور شوق یکجا ہو جائے تو زندگی خوف سے آزاد ہو سکتی ہے۔اصل میں مادی اشیائکی محبت نے ہم سے ذوق سفر چھین لیا ہے۔ ذوق سفر نہ ہو تو رہنما?ں کا شکوہ کیا؟ ہم بے سکون ہو چکے ہیں کیونکہ ہم دوسروں کا سکون برباد کر کے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دل سے کدورت نہ نکلے تو سکون کیسے حاصل ہو؟ زندگی میں غم اور خوشی تو آتے ہی رہتے ہیں۔ بیدار کر دینے والا غم غافل کر دینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔ حقیقت ثابت نہیں کی جا سکتی۔ سورج کی روشنی کا ثبوت دیکھنے والے کی آنکھ مہیا کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ملک قائم رہے گا۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ محروم و مظلوم کی داد رسی ہو گی۔ حق والا حق پائے گا۔ ہم سب ایک وحدت ہیں۔ اصل میں جس کو اپنی فلاح کا یقین ہو وہ تبلیغ کر سکتا ہے تا کہ دوسرے اس نعمت میں شریک ہوں۔ مبلغ کی صداقت کا ثبوت یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوسروں کو صرف اپنے علم میں شریک نہ کرے بلکہ اپنی آسائشوں میں بھی شریک کرے۔ ہم طاقت اور دولت سے خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عقیدے میں ہم فرعون کو ملعون کہہ چکے ہیں۔ طاقت خوف پیدا کرتی ہے‘ خوف نفرت پیدا کرتاہے‘ نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور باغی ذہن ملک کے ٹوٹنے کی بد دعا کرتے ہیں۔ طاقت محبت میں بدل جائے تو ملک سلامت ہی سلامت ہے۔ نیکی لاٹھی نہیں جس سے بدی کو ہانکا جا سکے۔ نیکی میزبان ہے جو بدی کی ضیافت کر کے اسے راہ راست پر لاتی ہے۔ نیکی کا مزاج مشفق والدین کا سا ہے اور بدی باغی اور سرکش اولاد کی طرح ہے۔ بدی محبت سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم غور کریں‘ دعا کریں۔ اپنے اعمال کی‘ اپنے افکار کی‘ اپنے الفاظ کی اصلاح کریں۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ لوگ یہ کہیں کہ ہمیں اس کا پہلے ہی اندیشہ تھا۔خدا ہمیں ہمارے اندیشوں سے بچائے۔ اگر اللہ رحمت کے جوش میں مخلوق کو بخش دے اور گناہوں کو معاف کر دے تو کیا ہو گا موت کا منظر مرنے کے بعد؟ کیا اللہ معاف کرنے پر قادر نہیں؟آج ہر انسان گلہ کر رہا ہے‘ کچھ لوگ مخلوق کا گلہ کر رہے ہیں‘ خالق کا گلہ کر رہے ہیں‘ مخلوق کے سامنے اللہ کا شکر ادا کرنے والے کہا ں گئے؟ یقین دلانے والے کیا ہوئے؟ کیا ہمیشہ کے لئے بند ہونے سے پہلے ہماری آنکھ نہیں کھل سکتی؟ کیا ہم دوبارہ یقین کی منزل کو حاصل نہیں کر سکتے‘ یقیناً کر سکتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حالات بہتر ہوں گے جلد ہی۔ کیا اقبالؒ کے خواب کے بعد کسی مرد مومن کو کوئی تازہ ملت ساز خواب نہیں دکھائی دے سکتا؟کیا حالات بدل نہیں سکتے؟ کیازندگی منفعت سے نکل نہیں سکتی؟ کیا ہم پر اس کی رحمت کے دروازے نہیں کھل سکتے؟ کیا ہم رحمتہ اللعالمینﷺ سے مایوس ہو گئے ہیں؟ خدا ہمیں وہ نظر پھر سے عطا کرے گا۔ وہ دل پھر سے ملے گا۔ مسلمانوں کو آسانیاں دو‘ انہیں زیادہ علم کی ضرورت نہیں‘یقین کی ضرورت ہے۔ معاف کرنے والے کے سامنے گناہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ عطا کے سامنے خطا کا کیا ذکر۔ زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو یقیناً سکون مل جاتا ہے۔ جھوٹا آدمی کلام اِلٰہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہو گا۔ صداقت کے بیان کے لئے صادق کی زبان چاہئے‘ بلکہ صادق کی بات کو ہی صداقت کہتے ہیں۔کامیابی اہم نہیں‘ مقصد اہم ہے۔ برے مقصد میں کامیابی سے اچھے مقصد میں ناکامی بہتر ہے۔پاکستان کے ٹوٹنے کا اندیشہ اس لئے بھی نہیں ہے کہ یہ صرف نو کروڑ پاکستانیوں ہی کا نہیں‘ بلکہ یہ مسلمانان عالم کا مستقبل ہے۔ اِس کی بنیادوں میں شہدائکا خون ہے۔ اب اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ اسلام کی حفاظت اسلام خود فرمائے گا۔ اللہ حفاظت کرے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ اس کے محافظ ہیں۔ ہمارے اندیشے محض ذاتی ہیں یا سیاسی ہیں‘ ان میں نہ کوئی جواز ہے نہ بنیاد۔
اللہ کی رحمت اس کے غضب سے وسیع ہے۔زندگی اور عقیدے کا فرق ختم ہونا چاہئے۔ جس خطرے کا وقت سے پہلے احساس ہو جائے تو وہ ضرور ٹل سکتا ہے۔دعا اسی لئے ہوتی ہے کہ آنے والی بلا?ں کو ٹالا جا ئے۔نیک انسان کی دعا بھی سب کی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔خطرہ باہر نہیں ہوتا خطرہ اندر ہوتا ہے۔ سانس اندر سے اکھڑتی ہے۔ آج کے مسلمان کو موت کے خطرے سے زیادہ غریبی کا خطرہ ہے۔ پہلے غریب کی معاشی حالت کی اصلاح کی جائے پھر اس کے ایمان کی۔ بیمار سے کلمہ نہ سنا جائے اس کے لئے دوا کا انتظام کیا جائے۔آج انسانوں کے وسیع سمندر میں ہر انسان ایک جزیرے کی طرح تنہا ہے۔ تنہائی کا خوف سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ تنہائی روح تک آ پہنچی ہے‘ اللہ کا سہارا ہی بچا سکتا ہے۔ جو لوگ سیاسی اور سماجی ضرورت کے لئے اللہ کا نام لیتے ہیں‘ ان کے لئے مایوسی اور کربِ مسلسل کا عذاب ہے۔ایک معمولی سا واقعہ ہی غیر معمولی نتائج برآمد کر جائے گا۔ بعض اوقات دور سے آنے والی آواز اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔ ایک چہرہ زندگی میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔ پاس سے گزرنے والا خاموش انسان کئی تبدیلیاں پیدا کر جاتا ہے۔ ایک نگاہ زندگی کا حاصل بن کے رہ جاتی ہے۔ مکڑی کا کمزور جالا ایک قوی دلیل کا کام دے جاتا ہے۔ انسان کے مزاج کو بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ ایک خوش مذاق انسان تمام محفل کو اداسی سے نکال سکتا ہے۔ ایک سوچ پورے فکر کے انداز کوبدل کر رکھ دیتی ہے۔ اگر ہم شہداء کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں، صوفیاء‘ علماء‘ فقرائکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہم اقبالؒ کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں‘ اگر ہم اللہ‘ اللہ کے حبیبﷺ پر‘ اسلام پر یقین رکھتے ہیں تو پاکستان کی سلامتی کا بھی یقین ہونا چاہئے۔ ایک انسان‘صرف ایک انسان جو قائداعظمؒ کی طرح سب میں مقبول ہو‘ قوم کے نصیب کو بدل سکتا ہے اور کسی ایک رہنما کے آنے کا عمل اتنا ناممکن نہیں بلکہ ایسا ہو گا۔ ایسا ہونے والا ہے۔ ملک محفوظ رہے گا۔ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ اپنے عقیدے پر یقین رکھیں۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ملک کو خطرے سے دوچار کرنے والے خود خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ملک کو خطرے سے دوچار کرنے والے خود خطرے میں گھرے ہوئے ہیں133. ہمارے ایمان میں اور ہمارے کردار میں دراڑیں ہیں۔ ملک میں کوئی دراڑ نہیں۔ پاکستان میں ایک عظیم روحانی دور آنے والا ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اندیشہ نہیں کرنا چاہئے۔ اندیشہ‘عروج کا دشمن ہے۔

Sunday, 27 March 2016

Ashraf Asmi Advocatek i mun ki duneaa ki jeet


Hazrat Owais Qarni (RA) .................. Compiled by Ashraf Asmi Advocate



Hazrat Owais Qarni (RA) 

Compiled by Ashraf Asmi Advocate




Uwais al-Qarni or "Oveys Gharani" (Arabic: أويس القرني) (died 657 A.D.) was a Muslim resident of Qaran in Yemen who lived during the lifetime of Muhammad. His grave is in Baykan, Siirt Turkey. Although his life was insignificant from a worldly point of view, he is renowned and honored among both Shia and Sunni Muslims, Sufis in particular, for his piety, practice of zuhd (asceticism), and love for Muhammad(PBUH).

Life

Uwais embraced Islam during Muhammad's lifetime but he could not present himself before Muhammad(PBUH) because he looked after his elderly, blind mother and thus remained deprived of the honour of companionship. It is said that he spent his hours in solitude, fasting, night vigil and salat (prayers). In honour of Muhammad(PBUH), who at the Battle of Uhud in 625, had lost two of his teeth, Uwais al-Qarni drew out his own teeth. Muhammad(PBUH) called him the best of the Tabieen (successors) and he advised his companions to, “Get him to pray for your forgiveness.”

In a Hadith Qudsi recorded by the Companion Abu Hurayra, may Allah be pleased with him, the Prophet Muhammad, upon whom be peace and blessings, said speaking on behalf of his Lord:

"Allah, Exalted and Mighty is He, loves of His creation the God-fearing, the pure in the heart, those who are hidden, and those who are innocent, whose face is dusty, whose hair is unkempt, whose stomach is empty, and who, if he asks permission to enter to the rulers, is not granted it, and if he were to ask for a gentle lady in marriage, he would be refused, and when he leaves the world it does not miss him, and if he goes out, his going out is not noticed, and if he falls sick, he is not attended to, and if he dies, he is not accompanied to his grave."

They asked him, "O Messenger of Allah, how can we find someone like that?" He, upon whom be peace and blessings, said, "Uwais al-Qarani is such a one."

Concerning the hadith of the Prophet, upon whom be peace and blessings, "More people shall enter Paradise through the intercession of a certain man from my Community than there are people in the tribes of Rabi`a and Mudar,"[1] al-Hasan al-Basri said: "That is Uwais al-Qarni."

At times the Prophet Muhammad, upon whom be peace and blessings, would say of him. "I feel the breath of the Merciful, coming to me from Yemen." Shortly before Muhammad died, he directed Umar ibn al-Khattab (second Caliph) and Ali ibn Abi Talib (the first Imam of the Shi'a) to take his cloak for Uwais.

Following the death of Muhammad(PBUH) in 632, Umar and Ali set out on a quest to find Uwais, who was residing alone in the desert. When they found Uwais, he was engaged in prayer, and they waited until he finished his devotions. They then asked for his blessings, gave him Muhammad's greeting and enjoined him to pray for the Muslim ummah (community).

According to Hujwiri¹, Attar Niyshabpouri², and Sheikh Mohammad Ghader Bagheri³, the first recipient of Muhammad(PBUH)’s Cloak was Uwais al-Qarni.

In so doing, Muhammad(PBUH) confirmed the method of heart to heart communication through which Uwais had received the essence of Islam. The method of the passing of the Cloak represents two significant elements in the teachings of Muhammad which constitute the method of instruction of the School of Islamic Sufism--cognition must take place inwardly, and cognition must be confirmed--as it was in the case of Uwais, and Ali.

In the famous book of poetry, “Masnavi”, by Jalaleddin Rumi, the following is said by Mohammad about Uwais Qarni:

The Prophet Muhammad(PBUH) says that 

the breeze brings O’men!
The divine perfume from Yemen.
The scent of Ramin comes from Uwais
The fragrance of God from Uwais.
Uwais’ heavenly perfume from God,
Overjoyed the heart of the Prophet of God.
Forsaking his mortal being willingly
That earthly (Uwais) become heavenly.


Uwais al-Qarni says, “Keep watch over thy heart”, (Arabic: عليك بقلبك) "Alayka bi-Ghalbik".

Uwais al-Qarni said, “Hidden invocation (al-du`a fi dhahr al-ghayb) is better than visiting and meeting," because hypocrisy (riya) might enter in the latter two.

The method of the passing of the Cloak represents two significant elements in the teachings of the Holy Prophet Muhammad(PBUH)which constitute the method of instruction of the School of Islamic Sufism--cognition must take place inwardly, and cognition must be confirmed--as it was in the case of Hazrat Uwais, and Amir al-Mumineen Hazrat `Ali.

Since that time, the cloak and the method of receiving knowledge through the heart, symbolizing the highest level of divine illumination, and conferring honor, recognition and respect on the recipient, has been handed down through an unbroken succession of Sufi masters.


Not long after this meeting Uwais left his homeland of Qaran and came to Kufa, in modern day Iraq. One day he was seen by Harim ibn Hayyan, but after that nobody saw him until the period of the first Muslim civil war (656-661). He fought for Ali ibn Abi Talib against the army of Muawiyah and was martyred at the Battle of Siffin in 657.[2] Other accounts relate that he died in an expedition accompanying `Umar ibn al-Khattab, may God be pleased with him, to Azerbaijan.

Hazrat Owais Al-Qarni (رضى الله عنه)and his Mother:

The great Saint Owais of Qaran! Was presented the blessed cloak of Rasulullah (Sallal Laahu Ta'ala Alaihi Wasallam) on the Holy Prophet (Sallal Laahu Ta'ala Alaihi Wasallam)'s instruction. It is preserved in Istanbul, Turkey. He reached his Spiritual status due to obedience to his mother.

Owais (radi Allahu anhu) was from the village of Qaran, in Yemen. He had asked his mother's permission to visit Allah's Messenger, and she said: "You have my permission to go, see him once, and come straight back. If the Messenger is at home, you may meet with him; if not, come straight back here." Owais made a journey of three months on foot, from the Yemen to Madinah the Illuminated. When he reached Rasulullah (Sallal Laahu Ta'ala Alaihi Wasallam) 's house, he knocked on the door and Hazrath Aisha (radi Allahu anha), wife of the Chosen Prophet and Mother of the Believers opened the door. She told him that Rasulullah (Sallal Laahu Ta'ala Alaihi Wasallam) was in the Masjid. Owais (radi Allahu anhu) remembered his promise to his mother and replied: "Please convey my salaams to my Beloved Rasulullah (Sallal Laahu Ta'ala Alaihi Wasallam). Kindly inform him that Owais came from the Yemen, did not find him at home, and is returning to the Yemen, since he does not have permission from his mother to meet him in the mosque." 

When the Rasul (Sallal Laahu Ta'ala Alaihi Wasallam) came home from the mosque, he found the radiance of Owais in his house. Hazrat Aisha (radi Allahu anha) told him what had happened, and conveyed Owais's salutations. His blessed eyes looked towards Yemen and the blessed Prophet said: "The fragrance of our friend is reaching us." The noble Companions asked: "If Owais is your friend, why did he not stay to see you?" Rasulullah (Sallal Laahu Ta'ala Alaihi Wasallam) replied: "He complied with a promise given to his mother and he is serving her."

Source:-Yanabi.com

Hazrat Umer & Hazrat Ali (RA), went to Qarn to look for Awais Qarni(رضى الله عنه).


Once the Holy Prophet (Peace be upon him), while speaking to Sahaba-Ikram (companions), said: “There is a person in my Ummah (followers) whose prayers would bring forgiveness to as many sinners as the number of hair of the sheep in the tribes of Rabia and Mazar.”

The two tribes were well known for raising sheep during the time of the Holy Prophet. The disclosure made the Sahaba-Ikram very curious. They asked the Holy Prophet about the name of that person and the place he lived in. The Holy Prophet first hesitated, but on their insistence told them the name of a person who lived in Qarn, Awais Qarni(رضى الله عنه).

The Holy Prophet continued: “On the Day of Judgment, Awais would be accompanied to paradise by 70,000 angels who’d resemble him.” The reason the Holy Prophet gave for this was: “Since Awais prayed all his life in seclusion so as not to be noticed, Allah would also keep his purdah (cover).”

When people asked the Holy Prophet whether Awais Qarni(رضى الله عنه) had even come to see him, he said: “No, he never saw me, but he has the privilege of seeing me through Kashf (spiritual revelation), and he has reasons for not being able to see me. He is the only one to take care of his blind mother.”

Again Sahaba-Ikram asked if they could see him, to which the Holy Prophet replied: “No, only Umer bin Khattab and Ali would meet him, and his identification is — he has thick hair all over his body, and a white patch on his left hand.” He directed Hazrat Umer and Hazrat Ali: “When you see him, convey to him my salaam (greetings) and ask him to pray for my Ummah.”

“And who’d be the right person to receive your Abaya (the cloak the Holy Prophet used over his clothes) after you leave the world?” the Sahaba asked.

“Awais Qarni(رضى الله عنه),” said the Holy Prophet.

When the Holy Prophet left the world and Hazrat Umer became the caliph, he, along with Hazrat Ali, went to Qarn to look for Awais Qarni(رضى الله عنه). No one knew about him. However, the people of Qarn told them that outside the town there lived an insane person who laughed at the crying people and cried for those who laughed. When Hazrat Umer and Hazrat Ali reached there they saw a person praying amidst the grazing sheep. When he finished his prayers, he saw the visitors and said: “It is the first time anyone has ever seen me praying..”

“What’s your name?” Hazrat Umer and Hazrat Ali asked.

“Abdullah (the servant of Allah).”

“Tell us your real name?”

“Awais.”

“Show us your hand,” Hazrat Umer and Hazrat Ali immediately kissed the white patch the Holy Prophet had talked about. Then they presented to him the holy dress and asked him to pray for the Ummah as directed by the Holy Prophet.

Hazrat Awais Qarni(رضى الله عنه) took the dress and stepped away to offer prayers: “O Allah, unless you forgive the sins of the followers of the Holy Prophet I won’t wear his dress.” Then they heard a voice: “I’ve forgiven some of them.” All of a sudden came in front of him Hazrat Umer and Hazrat Ali. “Why did you come in front of me? Unless I had sought Allah’s forgiveness for the entire Ummah I would not stop my prayers.” Then he donned the Abaya of the Holy Prophet and disclosed that Allah had forgiven the number of people equivalent to the hair of the sheep of the Rabia and Mazar tribes.

Afterwards, Hazrat Umer asked him why he didn’t receive the honour of seeing the Holy Prophet. In response to this Hazrat Awais(رضى الله عنه) asked them to tell whether the brows of the Holy Prophet were wide or dense? Both Sahabas could not answer the question. Then he asked another question: “Which tooth of the Prophet was martyred in the battle of Uhad? Why didn’t you break all your teeth for the love of your Prophet?” Saying this, he showed his toothless mouth. “When I broke my first tooth I thought it might be the other one. Then I broke the other one. Still I was not satisfied. When I had broken all my teeth only then I received some relief..”

Seeing so much devotion to the Holy Prophet and his extraordinary Tasawwaf, Hazrat Umer wished to give up his Khilafat and adopt the ways of Hazrat Awais Qarni(رضى الله عنه). Sensing his thought, Hazrat Awais(رضى الله عنه) said, “You should have given up Khilafat for anyone else, and dedicated yourself entirely to Allah.”

Hazrat Umer asked him for some advice. “O Umer, you recognize Allah and there is nothing better than the sense that no one recongizes you but Allah.” Then he thanked them for taking all the trouble to come and see him. Very much impressed, Hazrat Umer and Hazrat Ali returned home filled with great regard for Hazrat Awais Qarni(رضى الله عنه)

Soon after that, the people of Qarn came to know about his spiritual excellence and they started regarding him as a great saint of Allah. Since he didn’t like to be known as a saint, he left for Kufa where, while fighting for Hazrat Ali in the battle of Safain, he was martyred.

Hazrat Daata Ali ibn Usman al Hujwiri writes in his book, Kashf-ol Mahjub:

Hazrat Uwaiys(رضى الله عنه) is like the sun to the Ummah, and the candle of religion. Hazrat Uwaiys Karani is one of the great teachers who lived during the time of the Prophet but did not physically see the Prophet for two reasons. First, he was in the state of Divine ecstasy and rapture, and second, he was caring for his aged mother. The Prophet (asws) said to his devotees, "There is a man in Gharan whose name is Uwaiys. At the day of Resurrection he shall intercede for my people to as many as the number of sheep of the Rabia and Muzzer tribes." (These two tribes had the largest herd of sheep during that time.) Then the Prophet turned to Hazrat Omer and Hazrat Ali and said, "You will see him and recognize him; he is a firm, thin man, of medium height and there is a white scar the size of a coin on the palm of his hand but it is not leprosy. When you see him, give him my greetings and ask him to pray for my Ummah, my people."

Invocation of Uwais al Qarni(رضى الله عنه) (دعاء أويس القرني)

اللهم خلقتني ولم أك شيئا مذكورا، ورزقتني ولم أملك شيئا، وظلمت نفسي وارتكبت المعاصي وأنا مقرّ بذنبي، إن غفرت لي فلا ينقص من ملكك، وإن تعذبني فلا يزيد في سلطانك، وإنك تجد من تعذبه غيري وأنا لا أجد من يغفر لي إلا أنت، إنك أنت أرحم الراحمين


Translation of the Invocation of Uwais al-Qarni:

"O Allah, You created me when I was not worthy of mention;
And You provided for me when I had nothing;
And I wronged my soul and sinned, and I confess my guilt.
If You forgive me, that will in no way diminish Your sovereignty;
And if You punish me, that will in no way augment Your authority.
You can find others to punish besides me,
But I can find no one to forgive me but You.
Truly, You are the most merciful of those who show mercy.."

Description of Hazrat Owais Qarni (رضى الله عنه) in Sahih Muslim

Here I am quoting 3 Ahadith related to Hazrat Owais Qarni (رضى الله عنه) from Sahih Muslim:

'Umar b. Khattab reported: I heard Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: Worthy amongst the successors would be a person who would be called Uwais. He would have his mother (living with him) and he would have (a small) sign of leprosy. Ask him to beg pardon for you (from Allah). (Muslim :: Book 31 : Hadith 6171)

Usair b. Jabir reported that a delegation from Kufa came to 'Umar and there was a person amongst them who jeered at Uwais. Thereupon Umar said: Is there amongst us one from Qaran? That person came and Umar said: Verily Allah's Messenger (may peace be upon him) has said: There would come to you a person from Yemen who would be called Uwais and he would leave none in Yemen (behind him) except his mother, and he would have the whiteness (due to leprosy) and he supplicated Allah and it was cured except for the size of a dinar or dirham. He who amongst you meets him should ask him to supplicate for forgiveness (from Allah) for you. (Muslim :: Book 31 : Hadith 6170)

Usair b. Jabir reported that when people from Yemen came to help (the Muslim army at the time of jihad) he asked them: Is there amongst you Uwais b. 'Amir? (He continued finding him out) until he met Uwais. He said: Are you Uwais b., Amir? He said: Yes. He said: Are you from the tribe of Qaran? He said: Yes. He (Hadrat) 'Umar (again) said: Did you suffer from leprosy and then you were cured from it but for the space of a dirham? He said: Yes. He ('Umar) said: Is your mother (living)? He said: Yes. He ('Umar) said: I heard Allah's Messenger (may peace be upon him) say: There would come to you Uwais b. Amir with the reinforcement from the people of Yemen. (He would be) from Qaran, (the branch) of Murid. He had been suffering from leprosy from which he was cured but for a spot of a dirham. His treatment with his mother would have been excellent. If he were to take an oath in the name of Allah, He would honour that. And if it is possible for you, then do ask him to beg forgiveness for you (from your Lord). So he (Uwais) begged forgiveness for him. Umar said: Where do you intend to go? He said: To Kufa. He ('Umar) said: Let me write a letter for you to its governor, whereupon he (Uwais) said: I love to live amongst the poor people.

Aug 18 When it was the next year, a person from among the elite (of Kufa) performed Hajj and he met Umar. He asked him about Uwais. He said: I left him in a state with meagre means of sustenance. 

(Thereupon) Umar said: I heard Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: There would come to you Uwais b. 'Amir, of Qaran, a branch (of the tribe) of Murid, along with the reinforcement of the people of Yemen. He had been suffering from leprosy which would have been cured but for the space of a dirham. His treatment with his mother would have been very kind. If he would take an oath in the name of Allah (for something) He would honour it. Ask him to beg forgiveness for you (from Allah) in case it is possible for you. So he came to Uwais and said.: Beg forgiveness (from Allah) for me. He (Uwais) said: You have just come from a sacred journey (Hajj) ; you, therefore, ask forgiveness for me. He (the person who had performed Hajj) said: Ask forgiveness for me (from Allah). He (Uwais again) said: You have just come from the sacred journey, so you ask forgiveness for me. (Uwais further) said: Did you meet Umar? He said: Yes. He (Uwais) then begged forgiveness for him (from Allah). So the people came to know about (the status of religious piety) of Uwais. He went away (from that place). Usair said: His clothing consisted of a mantle, and whosoever saw him said: From where did Uwais get this mantle? (Muslim :: Book 31 : Hadith 6172)

Conclusion:-

Hazrat Awais Qarni(رضى الله عنه) always considered worldly life a temporary sojourn and often said, “Sleep with the remembrance of death, and rise with the thought that you will not live long.” He received spiritual training directly from the Holy Prophet. Often the Holy Prophet said: “Awais is the best amongst Ta’beens (the successors of the companions of the Holy Prophet).” May Allah be pleased with him.
(