خواہشوں کا سمندر
اشرف عاصمی کے قلم سے سلسلہ وار کہانی
آج اُسے کالج سے پھر دیر ہوگئی تھی۔ ماں دوازئے کے ساتھ لگی اپنی لاڈو کنول کا انتظار کر رہی تھی۔ماں کی ٹانگیں کھڑئے کھڑئے تھک چُکی تھیں لیکن وہ جذبہ جسے ممتا کہا جاتا ہے وہ نہیں تھکا تھا۔نہ ہی وہ تھک سکتا تھا۔ کیونکہ اُس جذبے کی بدولت ہی تو کائنات میں خلوص ، محبت ایثار قائم تھا۔ کنول جب گلی کے موڑ سے اندر گلی میں داخل ہوئی تو ماں کی جان میں جان آئی اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کنول کی صورت نظر آئی کنول جیسے ہی گھر کے دروازئے پر پہنچی ماں کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی۔ کنول ماں سے لپٹ گئی کہنے لگی امی آپ پریشان نہ ہواکریں آج میری کالج بس راستے میں خراب ہوگئی تھی اِس لیے دو گھنٹے ضائع ہوگئے۔ماں کی مُنہ سے کوئی لفظ نہ نکلا وہ تو اپنی کنول کو دیکھ کر آنسووں کی برسات بہائے جارہی تھی۔امی سخت بھوک لگی ہے مجھے کھانادئے دیں کنول یہ کہہ کر برآمدئے میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی اور ماں باروچی خانے میں سالن گرم کرنے اور تازہ روٹی پکانے میں مشغول ہوگئی۔ کنول باروچی خانے میں ہی ماں کے پاس آگئی اور روٹی کھانے لگ گئی اب ماں گویا ہوئی کنول اتنی دیر لگائی تم نے میرا تو دل پھٹا جارہا تھا۔کالج والوں کو چاہیے کہ وہ بس کوٹھیک رکھا کریں۔کنول ماں کی گردن میں بانہیں ڈال کر لاڈ کرنے لگی۔کنول بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی وہ لاہور شہر کے نواح میں ایک بستی میں رہتے تھے۔ باپ اُسکا عروسی ملبوسات پر کشیدہ کاری کرتا تھا اور ماں گھر میں ہی کپڑئے سیتی تھی۔ پانچوں بھائی بھی شہر کی مختلف مارکیٹوں میں ریڈی میڈ گارمنٹس کے کاروبار سے منسلک تھے۔ کنول کا کوئی بھائی بھی پڑھا لکھا تو نہ تھا لیکن کنول کو بہت شوق تھا کہ وہ پڑھے اور اتنا پڑھے کہ وہ وکیل بن جائے۔کنول کے ایک بھائی کی شادی ہوئی تھی اور اور اُسکی دو بیٹیاں تھیں جو کہ نرسری اور تھری کلاس میں تھیں باقی چار بھائی ابھی غیر شادی شدہ تھے۔کنول پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن تو تھی ہی اِس کے ساتھ ساتھ اپنی ماں اور باپ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ کنول کی ماں جب بھی اکیلے میں کنول کے متعلق سوچتی کہ جب کنول کی شادی ہوجائے گئی تو وہ لوگ اِس کے بغیر کیسے رہ پائیں گے۔کنول کا باپ بھی اپنی بیٹی پرواری جاتا تھا۔ اُسے اپنی بیٹی کے ساتھ اتنی محبت تھی کہ وہ شام کو گھر داخل ہوتے ہی کنول کو آوازیں دینے لگ جاتا اور کنول فورا اپنے ابا کے پاس بھاگ کر آتی اور باپ کے ہاتھ میں جو سامان ہوتا اُسے پکڑلیتی۔ کنول کاباپ اپنی
شھزادی بیٹی کو دعائیں دیتا نہیں تھکتا تھا۔
کنول کی زندگی میں دکھ درد نام کی کوئی شے نہ تھی۔پریشنیوں اُس سے کوسوں دور تھیں اُس کی زندگی میں محبتوں نے اِس طرحمسکن بنا رکھا تھا جیسے اُس کی زندگی بہار کی مانند ہو۔ پانچ بہنوں کی اکلوتی بیٹی کنول کی نازبرداریاں کرنے والوں نے اُس کو گلاب کے پھول کی طرح رکھا ہو ا تھا۔ ماں باپ کی لاڈلی بھائیوں کی چہیتی کنول زندگی کی باریکیوں کو سمجھتی تھی۔ اُردو ادب کے لیکچر کے دوران ایک دن پروفیسر نے کنول سے سوال کیا کہ کنول فراق کیا ہوتا ہے کنول پنی نشست پر کھڑی ہوئی اورکہنے لگی میڈیم خود کو پالینا ہی فراق ہے۔ اُردو کی پروفیسر کنول کی جواب سُن کر حیرت زدہ ہوگئی کہنے لگی بیٹا اتنی آسانی سے اتنی بڑی بات آپ نے کہہ دی۔ کنول صرف مسکرا رہ رہ گئی۔کنول نازوں سے ضرور پرورش پارہی تھی لیکن اُس کی زندگی میں ادب احترام تھا۔ اُسے اُردو ادب سے خاص طور پر دلچسپی تھی۔ اِسی لیے تو اُس نے اردو ادب کا مضمون خاص طور پر رکھا تھا۔کنول نے غالب ، میر تقی میر، اقبال ، فیض اور فراز کو پڑھ رکھا
تھا۔
شھزادی بیٹی کو دعائیں دیتا نہیں تھکتا تھا۔
کنول کی زندگی میں دکھ درد نام کی کوئی شے نہ تھی۔پریشنیوں اُس سے کوسوں دور تھیں اُس کی زندگی میں محبتوں نے اِس طرحمسکن بنا رکھا تھا جیسے اُس کی زندگی بہار کی مانند ہو۔ پانچ بہنوں کی اکلوتی بیٹی کنول کی نازبرداریاں کرنے والوں نے اُس کو گلاب کے پھول کی طرح رکھا ہو ا تھا۔ ماں باپ کی لاڈلی بھائیوں کی چہیتی کنول زندگی کی باریکیوں کو سمجھتی تھی۔ اُردو ادب کے لیکچر کے دوران ایک دن پروفیسر نے کنول سے سوال کیا کہ کنول فراق کیا ہوتا ہے کنول پنی نشست پر کھڑی ہوئی اورکہنے لگی میڈیم خود کو پالینا ہی فراق ہے۔ اُردو کی پروفیسر کنول کی جواب سُن کر حیرت زدہ ہوگئی کہنے لگی بیٹا اتنی آسانی سے اتنی بڑی بات آپ نے کہہ دی۔ کنول صرف مسکرا رہ رہ گئی۔کنول نازوں سے ضرور پرورش پارہی تھی لیکن اُس کی زندگی میں ادب احترام تھا۔ اُسے اُردو ادب سے خاص طور پر دلچسپی تھی۔ اِسی لیے تو اُس نے اردو ادب کا مضمون خاص طور پر رکھا تھا۔کنول نے غالب ، میر تقی میر، اقبال ، فیض اور فراز کو پڑھ رکھا
تھا۔
عظیم لاہور شہر کے وسطی علاقے سمن آباد میں رہائش پذیر نوجوان جس کا باپ شہر کی معروف مارکیٹ میں جوتوں کی ایک پرائیوٹ دکان پر برسوں سے سیلزمین کی نوکری کر رہا تھا۔عظیم کے والد نے ساری زندگی ایک ہی دکان پر ملازمت کرتے گزار دی۔عظیم کل تین بھائی تھے۔رشید اُسکا بڑابھائی تھا اور نعیم عظیم سے چھوٹا تھا۔عظیم اِس وقت سال چہارم میں اسلامیہ کالج سول لائن کا طالب علم تھا۔عظیم کا مزاج اپنے سارئے گھر والوں سے مختلف تھا۔ اُسے اپنے خاندان کی غربت اور مجبوریوں کا احساس تھا۔ایف ایس سی کے بعد جب اُس کا داخلہ میڈیکل کالج میں چند نمبروں سے رہ گیا تو اُس نے پھر گریجوایشن میں فلسفہ اور معاشیات کے مضامین کا انتخاب کر لیا۔ عظیم کا بڑا بھائی رشید میٹرک کرنے سے پہلے ہی اُستاد کی مار کے ڈر سے سکول چھوڑ گیا تھا اور اب وہ ایک موبائل فون شاپ پہ موبائل فون کی مرمت کا کام سیکھ رہا تھا۔ نعیم اِس وقت کلاس ہفتم کا طالب علم تھا اور عظیم کی جانب سے توجہ ملنے کے سبب پڑھائی میں بہت بہتر تھا۔عظیم کی ماں نے ساری زندگی صبر شُکر کے ساتھ گزارا کیا تھا۔وہ ایک وفا شعار بیوی تھی جس نے کبھی زبان پر حرف شکایت لانا تو کیا اُف تک نہ کی تھی۔عظیم کاباپ ایک روایتی لاہوری باسی تھا جسے اپنے شہرسے پیار تھا اور جو اپنے خاندان کی شرافت کو اپنے لیے اثاثہ سمجھے ہوئے تھا۔عظیم نے میٹرک کے بعد ٹیوشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات پورئے کیے۔ میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ہونے کا اُسے بڑا قلق تھا لیکن اُس نے ہمت نہ ہاری اور خاموشی سے مضامین تبدیل کرکے گریجوایشن میں داخلہ لے لیا۔عظیم کو گھر کا سُونا پن جس کی وجہ غربت تھی بہت تکلیف دیتا۔ عظیم اپنے دوستوں کو کبھی بھی گھر نہ بلاپاتا کہ اُس کے پاس اُن کو بٹھانے کے لیے بہتر جگہ نہ تھی۔عظیم بہت دکھی ہوتا جب عید تہوار پر لوگ بے حد خریداری کرتے لیکن اُن کے گھر میں وہی پرانے کپڑئے ماں نیل لگا کر استری کر دیتی۔ عظیم کی ماں نے عظیم کے باپ کو بہتیرا سمجھایا تھا کہ یہ نوکری چھوڑ کر کوئی اور کام کر لو۔ لیکن عظیم کا باپ نہ مانا۔ یوں زندگی کی گاڑی چل رہی تھی۔ایک بات بڑی طمانیت کا باعث تھی کہ عظیم کے گھر میں کبھی جھگڑا گالی گلوچ نہ ہوتی تھی۔ اُس کا بھائی رشید پڑھ تو نہ سکا تھا لیکن وہ بھی
اپنے والدین کا فرماں بردار تھا۔
میاں جی ؒ
اپنے والدین کا فرماں بردار تھا۔
میاں جی ؒ
کا ڈیرہ شہر کے پاس ہی ایک نواحی بستی میں ہے۔ میاں جیؒ عہد اسلاف کی وہ نشانی تھے جن کی زندگی عشق رسولﷺ، پاکستان سے محبت اور انسانوں سے پیار سے عبارت ہے۔ میاں جی ؒ کا اصلی نام شائد کسی کو بھی معلوم نہ ہو چھوٹا بڑاسب لوگ اُنھیں میاں جی کہتے ۔میاں جی ؒ کے متعلق یہ ہی بات مشہور تھی کے انھوں میاں جی ؒ کا ڈیرہ شہر کے پاس ہی ایک نواحی بستی میں ہے۔ میاں جیؒ عہد اسلاف کی وہ نشانی تھے جن کی زندگی عشق رسولﷺ، پاکستان سے محبت اور انسانوں سے پیار سے عبارت ہے۔ میاں جی ؒ کا اصلی نام شائد کسی کو بھی معلوم نہ ہو چھوٹا بڑاسب لوگ اُنھیں میاں جی کہتے ۔میاں جی ؒ کے متعلق یہ ہی بات مشہور تھی کے انھوں نے مشہور حکیم قرشی دواخانے والوں کی شاگردی کی تھی اور حکمت وہیں سے سیکھی تھی۔ میاں جی بہت اعلیٰ پائے کے نبض شناس تھے۔میاں جیؒ کی حکمت کے ساتھ اور جو خصوصیت تھی وہ اُن کا روحانی فیض تھا۔اِسی گھر میں کئی دہائیوں سے مقیم تھے ۔ دن بھر لوگ آتے کوئی دوا لیتا اور کوئی دُعا کا طلب گار ہوتا۔میاں جی روایتی پیری مریدی کے قائل نہ تھے لیکن اُن کے حلقے میں شامل افراد انتہائی پڑھے لکھے تھے۔علماء۔نوجوان، پروفیسرز ڈاکٹرز، پی ایچ ڈی کے حامل ریسرچ سکالرز،پائلٹ، فوج کے اعلیٰ افسران۔گویا دکانداری والی پیری مریدی سے کوسوں دور میاں جی نے ایک ایسا نگر آباد کر رکھا تھا جہاں ہر دکھی کو جسمانی اور روحانی ہر بیماری سے شفا ملتی۔ میاں جی نہایت نفیس انسان۔ پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا۔ اور اپنا سارا خاندان قربان کرکے ہجرت کی۔مال و متاع سے بالکل رغبت نہ تھی۔ جو بھی اسباب ہوتے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔ عام دیکھنے والا یہ ہی تصور کرتا کہ شائد وہ کافی مال دار ہیں کہ ہر وقت لنگر کا اہتمام۔جو بھی اُن کے ہاں آتا اُسے فوری طور پر کھانا پیش کیا جاتا۔میاں جیؒ سادہ لباس پہنتے۔ سفید قمیض اور سفید رنگ کا ہی تہمد اور نوشہ گنج بخشؒ سے نسبت کا حامل پیلے سے رنگ کا کپڑا، جسے وہ صافا کہتے اُن کے کندھے پر ہوتا اور سفید رنگ کی کپڑئے کی بنی ہوئی ٹوپی اُن کے سر پہ ہوتی۔میاں جی ؒ کی نفاست ہر کام میں اتنی کے دیکھنے والوں کو رشک آتا۔ نہایت صاف سادہ کپڑئے پہنتے او ر بناوٹ دیکھاوئے سے ہمیشہ دور رہتے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جو بھی اُن سے ایک دفعہ ملنے آجاتا تو پھر ہمیشہ کے لیے اُن کی محفل کا شریک بنا رہتا۔ تاریخ عالم پر گہری نظر، اسلام کی حقانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا میاں جی کے دل و روح کے اندر۔کتابوں کا ایک لازوال ذخیرہ کہ جہاں سے بڑئے بڑئے سکالر آکر استفادہ کرتے۔اللہ پاک کے دوست میاں جیؒ ہر ملاقاتی سے ایسے ملتے جیسے کہ
وہ اُن سے سب زیادہ قریب ہو۔
چاہتوں کے سمندر کی آرزو میں سرگرداں رہنے کی سعی عاشق اور محبوب دونوں کے لیے امتحان ہے۔ عشق کا مطلب اپنی ذات کی نفی اور محبوب کی طلب ہے۔ جب اپنے آپ کو ہی سر بلند رکھنے کی حرص پیدا ہو جائے تو وہ پھر عشق نہیں بلکہ کاروبا ر بن جاتا ہے۔ اور عشق کی دکانداری ہونا شروع ہوجاتی ہے پھر نہ تو راہبر کی تکریم پیش نظر رہتی ہے اور نہ ہی اُس کی چاہت کی شدت کا سفر جاری رہتا ہے ۔ یوں عاشق ہونے کا دعویٰ ہو ا ہوجاتا ہے۔محبوب تک پہنچ تو دور کی بات عاشق توخود تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔محبوب کو بھی عاشق کے جذبات کی لوٰ کی حدت کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ امتحان اکیلے عاشق کا نہیں محبوب کا بھی ہوتا ہے۔ محبوب کا امتحان عاشق سے کئی گُنا زیادہ کڑھا ہوتا ہے۔ عاشق نے اپنے محبوب کو خود میں پناہ جو دینا ہوتی ہے۔ وہ اُن سے سب زیادہ قریب ہو۔