Sunday, 27 September 2015

اسلام کی تجدید میاں محمداشرف عاصمیSHEADET IMAM HUSSAIN R.A. , AN ARTICLE BY ASHRAF ASMI


شہیدِ کربلاامام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت دینِ اسلام کی تجدید

میاں محمداشرف عاصمی

تاریخ انسانی بھی عجب اسلوب و انداز کی حامل ہے۔جس وقت کوئی اندوہناک واقعہ درپیش ہوتا ہے اُس وقت یہ سمجھا جاتا ہے کہ شکست ہوئی ہے ۔ظلم ہوا ہے۔ طاقت کی فتح ہوئی ہے اور مظلوم کو شکست ہوئی ہے ۔یوں شکست کھانے والے کا نشان وقتی طور پر مٹ جاتا ہے اور شکست دینے والا غالب آجانے کی وجہ سے اپنے وجود کو بچا لیتا ہے۔ لیکن تھوڑئے ہی عرصے کے بعد جب اُس واقعہ کے محرکات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اُس کے نتائج و عواقب کو خالقِ کائنات کی طے کردہ کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے تو پھر شکست دینے والا تاریخ کے ہاتھوں شکست کھا جاتا ہے۔اُسے لعن طن کی جاتی ہے ظاہری فتح کے باوجود وہ عبرتناک شکست کا شکار ہو جاتا ہے کہ پھر اُسے تاریخ کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔یہی کیفیت اور اہمیت امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے تاریخ کے انوکھے باب کی ہے۔ لاکھوں پیغمبروں رسولوں کے بعد اور نبی پاکﷺ سے دین کو مکمل کروانے کے بعد فوری طور پر دین کی تجدید کی ضرورت کیوں پڑی۔ اِس کا جواب بھی تاریخ ہی دیتی ہے کہ خالق نے جس دین کو نبی پاک ﷺ پر مکمل کیا اُس کی تجدید کی ذمہ داری بھی آپﷺ کے گھرانے کی قسمت میں لکھ دی گئی گو کہ آپ کے نواسے امام حسینؓ کو اِس را ہ میں دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ شہادت کے مقام پر سرفراز ہونا پڑا لیکن نبی پاکﷺ کے گھرانے نے قربانی سے دریغ نہیں کیا اور موت کو اِس طرح گلے لگایا کہ چند ماہ کے علی اصغرؓ نے بھی نبی پاکﷺ کے دین کی آبیاری کے لیے اپنے خون کو پیش کیا۔ اِس طرح کی قربانی کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے اطاعت رسولﷺ،عشق رسولﷺ کے سبق کو سمجھنا ہوگا۔حضرت امام حسینؓ کی شہادت بھی درحقیقت اُنھی قربانیوں کا تسلسل ہے جس کا آغاز اللہ پاک کی وحدانیت کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔اگر ہم عشق رسولﷺ کے فلسفے کی اہمیت کو جان جاتے ہیں تو پھر کربلا کے میدان میں سجنے والی انوکھی مقتل گاہ کا فلسفہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے۔ دو شہزادوں کی جنگ کا بہتان لگانے والوں کی عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے کہ جنگیں لڑنے کے لیے چند ماہ کے بچوں اور گھر کی خواتیں کو ساتھ لے کر نہیں جایا جاتا۔اور گھرانہ بھی وہ جن کے بابا نبی پاکﷺ ہیں۔نبی پاکﷺ کے گھرانے کے بچوں اور عورتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کربلا کی دھرتی پر ہوا وہ دھرتی خود شائد کھبی معاف نہ کر پائے گئی لیکن دوسری جانب اِسی دھرتی پر بپا ہونے والا ظلم سچائی کے لیے مینارہ نور بن گیا ۔یقیناًکربلا کی دھرتی کے لیے یہ امر کسی اعزاز سے کم نہیں۔اللہ پاک، نبی پاکﷺ اور قران مجید کے پیغام کو ہمیشہ کے لیے دوام بخشنے کے لیے نبی پاکﷺ کے گھرانے کو عظیم قربانی دینا پڑی۔آئیے سرکار نبی پاکﷺ کے حوالے سے ذکر خیر ہو جائے۔انسانی تاریخ میں کسی بھی الہامی کتاب کو وہ پذیرائی اور مرکزیت حاصل نہیں ہے جو کہ قران پاک کو ہے۔قران پاک تقریباً چوبیس سالوں میں نبی پاکﷺ پر نازل ہوا۔قران پاک اللہ پاک کا کلام ہے جو اللہ پاک نے مختلف ادوار میں مختلف حالات کے مطابق نازل کیا ۔قرانِ مجید کو نبی پاکﷺ تک پہنچانے کا کام اللہ پاک کے جلیل القدر فرشتے حضرت جبریلؑ نے انجام دیا۔گویا قران اللہ پاک کی جانب سے بندئے کے لیے ایک ایسا ہدایت نامہ ہے کہ اِس کی نظیر نہیں ملتی۔اسلامی تمدن کے تمام تر محرکات اور اسلوب اِس انداز میں قران پاک میں بیان فرما دئیے گئے ہیں کہ اِس کتاب کو اللہ پاک نے ایسی کتاب قرار دیا ہے کہ جو کہ لاریب ہے۔ہم مسلمان ،یورپ امریکہ کے لوگوں کے کارنامے اور وہاں کا نظامِ حکومت دیکھ کر کمتری محسوس کرتے ہیں کہ شائد وہ ہم سے زیادہ علم کے حامل ہیں۔ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ تمام تر معاملات کا تعلق عمل سے ہے۔ گفتار کے غازی اور کردار کے غازی دو مختلف انداز ہیں۔ فی زمانہ جو صورتحال واضع ہے وہ یہ کہ مسلمان گفتار پر زور دئے رہے ہیں۔ اور کردار یعنی عمل والا پہلو اُن لوگوں نے ا پنا رکھا ہے جن کو ہم کافر کہتے ہیں۔ اِس جگہ میں ایک نہایت ہی اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ قران اللہ کا کلام ہے اور اِس کتابِ برحق کو انسان کی ہدایت کے لیے اللہ پاک نے نازل فرمایا۔ نبی پاکﷺ نے فرمادیا کہ یہ قران ہے اُس کو قران کا درجہ دئے دیا گیا۔ اور جس بات کو نبی پاکﷺ نے کہا کہ یہ حدیث ہے ہم نے اُس کو حدیث کا درجہ دئے دیا۔ اِس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ صاحب کتاب نبی پاکﷺ کی ذات کی اہمیت اور تقدس کتنا ہے۔ یعنی نبی پاکﷺ کے کہنے سے کتاب برحق کو کتاب ہونے کا درجہ ملا۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نام کے مسلمان وہ صاحب قران نبی پاکﷺ کی تقدیس کی بجائے قران کی بات کرتے ہیں۔یہاں یہ کہنا ازحد ضروری ہے کہ جو نبی ﷺکی بات ہے وہ اللہ کی بات ہے اور جو اللہ کی بات ہے وہی قران ہے گویا ہم اللہ اور نبی ﷺ کو الگ الگ نہیں کر سکتے۔انسانی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ اللہ کے پیغام کو پُر اثر انداز دینے کی سعادت نبی پاکﷺ کو اللہ پاک نے بخشی اور یوں راہ ہدایت قران کو نبی پاک ﷺ کے توسط سے نازل کیا گیا۔ کیونکہ اگر ہم خالق کی توقیر کی بات کرتے ہیں اور اگر ہم کتاب ہدایت قران کی بات کرتے ہیں تو پھر صاحب قران نبی پاکﷺ کی ذات اِس ہدایت والے عمل میں مرکز ومحور ہے کیونکہ الہامی کتابیں اور صحیفے تو پہلے بھی نازل ہوتے رہے۔رب پاک کو ایک ماننے کا سبق تو سوا لاکھ پیغمبروں نے دیا لیکن نبی پاکﷺ پر آکر نبوت کا سلسلہ ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک پوری کائنات کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہدایت کا سلسلہ نبی پاکﷺ پر آکر مکمل ہوچکا ہے اور یوں سوا لاکھ نبیوں کے تبلیغی مشن کے باوجود،توریت زبور انجیل کے ہوتے ہوئے بھی اللہ پاک نے دین کو مکمل کرنے کے لیے جس ہستی کا چناؤ کر رکھا تھا وہ نبی آخر و اعظمﷺ ہیں۔ جن کی تعلیمات کو زوال نہیں۔جن کا وجود سارئے جہانوں کے لیے رحمت اور جو کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار پائے۔ حتیٰ کہ جس توحید کو تمام ادیا ن کسی نہ کسی طرح مانتے ہیں اُس توحید کی خالص روح سے آگاہی بھی نبی پاکﷺ کے توسط سے ہوئی۔۔ جو نبی ﷺ اُمت کے لیے شفاعت کر نے والی ہستی ہے۔ایسی برگزیدہ ہستی کہ جس کے متعلق اللہ پاک فرماتا ہے کہ ائے میرئے پیارئے حبیبﷺ اگر میں آپﷺ کو پیدا نہ کرتا تو زمین وآسمان پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے رب ہونے کا بھی اظہار نہ کرتا۔اِس حدیث قدسی کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کے قران اور صاحب قران نبی پاکﷺ کا کیا مقام ہے۔نبی پاکﷺ کی اولاد پاک اور پیارئے نواسے جناب حضرت امام حسینؓ کی شہادت در حقیت ظلم و بربریت کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے کہ مورخ اِسکا کبھی بھی ثانی ڈھونڈ نہیں پائے گا۔ چونکہ وجہ تخلیقِ کائنات جناب نبی پاکﷺ کے پیارئے نواسے کی حق کی خاطر عظیم شان قربانی ہمیشہ کے لیے سچ کے پیروکاروں کے لیے مشعل راہ بن چکی ہے۔ قیامت تک قدرت اِس عظیم قربانی پر ناز کرتی رہے گی ۔ حشر کے میدان میں بھی اِسی قربانی کا چرچا ہوگا کہ جس نے بھی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا ہوگا وہ شہادت امام عالی مقام کو ہی کسوٹی قرار دئے گا۔

Thursday, 24 September 2015

بنیادِ دوستی۔عشق نبی ﷺ صاحبزادہ اشرف عاصمی, A GIFT ON EID BY ASHRAF ASMI ADVO. ASHRAF ASMI WROTE THIS ARTICLE ON EID MONRNING


بنیادِ دوستی۔عشق نبی ﷺ

صاحبزادہ اشرف عاصمی


زندگی کی نصف سنچری مکمل ہونے کو ہے۔ بے شمار لوگوں سے فیض کے لیے حاضری دینے کی خاطر استفادہ کیا۔تدریسی عمل بھی گزشتہ تین دہاؤئیوں سے سے جاری ہے۔ دینی وسماجی حوالے سے عشقِ مصطفے ﷺ کی سرُخیل تنظیم انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ وابستگی پر فخر ہے۔وکالت کا شعبہ ہی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔زندگی کی سب سے بڑی حقیقت جس طرح موت ہے اِسی طرح ایمان کی صداقت کا سب سے بڑا معیار نبی پاکﷺ کی عزت و توقیر اور آپ ﷺ سے عشق ہے۔اقبال اور، حضرت امام احمد رضا خانؒ نے نبی پاکﷺ کی محبت کے حوالے سے جو پیغام 
جنوبی ایشیا ء کے مسلمانوں کو دیا او پھر اِسی پیغام نے عالمگیریت حاصل کی ۔دنیا کے تمام خطوں میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان کلمہ توحید کے ساتھ جو وابستگی ہے اُس وابستگی کو قائم رکھنے کا جو معیار ہے وہ صرف اور صرف عشق رسولﷺ ہے۔چند سال پیشتر میرئے ایک بچپن کے دوست مجھ سے ناراض ہوگئے تو پھر جب اُن سے بات ہوئی تو اُنھوں نے جو بات کہی اُس نے قلب میں آگ لگا دی اُنھوں نے فرمایا کہ میرا اور آپ کا جو تعلق ہے اُسکی وجہ نبی ﷺ کی محبت کامشن ہے جس کے لیے ہم نے اب تک تگ و تاز کی ہے۔ اللہ پاک میرئے اُس محترم دوست کو شاد رکھے کہ کس طرح اُنھوں نے اپنی عقیدت کا اظہار نبی پاک ﷺ کی ہستی کے متعلق کیا۔راقم کی زندگی کا عہد طفولیت سے لے کر جوانی تک کا دور یعنی تقریبا پچیس سال اپنے ماموں جان قبلہ حکیم محمد عنائت خان نوشاہیؒ کے ہاں گزرئے وہاں سے جو ملا وہ یہ ہی تھا کہ بس پاکستان سے محبت۔نبی پاکﷺ سے محبت۔ اور پھر کیا رہ جاتا ہے ۔ جب نبی پاکﷺ کی محبت حاصل ہوجائے تو دنیا بھر کی چاہتیں اُس کے سامنے کیا اہمیت رکھتی ہیں۔اِسی طرح راقم نے اپنی زندگی میں ڈاکٹر ظفر اقبال نوری جو کہ سابق مرکزی صدر انجمن طلبہ ء اسلام ہیں۔جب وہ راولپنڈی میدیکل کالج کے طالب علم تھے اُس وقت سے اُن کے ساتھ تعلق کی وجہ عشق مصطفے کریمﷺ ہے۔ اِسی طرح برادر غلام مرتضیٰ سعیدی سابق مرکزی صدر انجمن طلبہ ء اسلام و مصطفائی تحریک جب گورنمنٹ کالج سرگودہا میں گریجویشن کے طالب علم تھے اُن سے عقیدت محبت خلوص اور دوستی کے تعلق کی وجہ اُس کی بنیاد بھی عشق رسولﷺ ہے۔میرئے بچپن کے دوست اور کلاس ہفتم میں میرئے کلاس فیلو جناب ملک جاوید اعوان ڈایریکٹر الزہرا کالج سرگودہا سے بھی دوستی کا تعلق صرف اور صرف یادنبیﷺ عشقِ نبی ﷺ ہے۔مجھے جاوید اقبال اعوان پر ہمیشہ فخر ہے کہ اِس درویش منش نے کبھی بھی مادیت کو معیار دوستی نہیں سمجھا۔ جاوید ملک اور راقم دونوں ہی محبتِ رسولﷺ کے داعی ہیں۔ سرگودہا کی سرزمین نے ایک اور نامور سپوت جسے دنیا ڈاکٹر تنویر احمد کے نام سے جانتی ہے اُن کی زندگی میں بھی عشق رسولﷺ نے انقلاب بپا کیا اور راقم کو جناب ڈاکٹر صاحب کے ساتھ وابستگی پر فخر ہے ڈاکٹر تنویر چوہدری اور راقم کا تعلق1983 ہے۔ راقم کی تربیت میں جہاں قبلہ حکیم عنایت قادری نوشاہیؒ کا ہاتھ ہے وہیں جناب ڈاکٹر تنویر احمد چوہدری نے بھی راقم کی ہر قدم پر راہنمائی فرمائی ہے۔ دور حاضر کے ممتاز شاعر دانشور ہوسٹن امریکہ میں مقیم جناب الطاف بخاری کے ساتھ عقیدت کے تعلق کی بنیاد بھی شاہ جی کا سرکار نبی کریم ﷺ سے بے انتہا عشق ہے۔ جب ہم شان رسالت کی بات کرتے ہیں تو اقبال ؒ کا نام نہ لینا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔اقبالؒ جب بھی شان رسالتﷺ بیان کرتے ہیں تو اُن کا کہا جانے والا ایک ایک لفظ دل کا ترجمان لگتا ہے۔اقبالؒ نے تسخیر کائنات کے لیے حضور اکرمﷺ کی اطاعت و پیروی کو ضروری قرار دیا۔ایسی تسخیر جو انسان کے لیے خوشی کا باعث ہو۔اِسی لیے اقبالؒ نے خود مولائے کائنات کی زبانی اطاعت نبیﷺ کی اِس طرح ترغیب دی ہے َ
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرئے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کے لوح و قلم تیرئے ہیں
اور پھر اقبالؒ بے خودی میں فرماتے ہیں
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
یہ وہ بات ہے جوپانچویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ حضرت امام غزالی ؒ نے احیاٗ العلوم میں تحریر فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں واحضر قلبک النبی صلی اللہ علیہ واسلم و شخصہ الکریم قل سلام علیک ایھا النبی (صلی اللہ علیہ وسلم ورحمتہ اللہ و برکاتیہ۔
ترجمہ: (التحیات پڑھتے وقت ) پہلے نبیﷺ اور آپ ﷺ کی صورت پاک کو دل میں حاضر کرو اور پھر کہو۔ ائے نبی ﷺ محترم: آپﷺ پر سلام،اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں.راقم کا تعلق وکالت کے پیشے سے ہے۔ہمارئے محترم ممبران لاہور ہائی کورٹ بار جناب جمیل فیضی، جناب راؤ شکیل، جناب چوہدری عبدالروف جناب نعمان یحیےٰ ،جناب احسان الحق رندھاوا، جناب حبیب الھی، جناب جسٹس نذیر غازی ، جناب شاہد میر ایڈووکیٹس عشق رسولﷺ کو اپنی انفراری و اجتماعی زندگیوں کا مرکز و محور بنائے ہوئے ہیں 
بقول اقبال:
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر با و نرسیدی تمام بولہبی است
قران کریم نے بار بار نبی پاکﷺ کی سیرت مبارکہ کی طرف متوجہ کیا ہے۔ارشا د ہوتا ہے
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوت حسنہ۔
َ

Tuesday, 1 September 2015

خالق کی عطاکے شُکرکی حقیقت امام غزالیٰؒ کے ارشادات سے ماخوذ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ , AN ARTICLE BY ASHRAF ASMI ADVOCATE BASED ON TEACHINGS OF HAZRAT IMAM GHZALI R.A


خالق کی عطاکے شُکرکی حقیقت 

امام غزالیٰؒ کے ارشادات سے ماخوذ 

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ 

خالق اور بندئے کا تعلق اِس طرح کا ہے کہ خالق سراپا عطا ہے۔خالق کی اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کا ادراک انسانی عقل و دانش کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انسان کے اِس دنیا میں قدم رکھنے سے لے کر رخصت ہونے تک ۔ہر ہر لمحہ ہر ہر گھڑی خالق کی جانب سے احسان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مخلوق کو جب جب کو ئی کامیابی ملتی ہے تو وہ اُسے کبھی تو اپنی محنت کا شاخسانہ سمجھتی ہے اور کبھی اِس کامیابی کو اپنے چالاک ہونے یا ہوشیار ہونے کا صلہ سمجھتی ہے۔حالانکہ خالق کے ہاں تو اپنی مخلوق کے لیے عطا ہی عطاکے دراز سلسلے ہیں جو ختم نہیں ہوتے۔ آدمیت کی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ جن اقوام نے خالق کو حقیقی معنوں میں خالق تسلیم کیا تو خالق نے اُن پر نعمتوں کی بارش کردی۔ حضرت امام غزالیؒ نے کیمیائے سعادت میں فصیل کے ساتھ شکر کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔حضرت امام غزالی کے ہاں۔دین کے تین مدارج ہیں علم، حال اور عمل۔لیکن ان تینوں کی اصل علم ہے۔اور اِس سے حال اور حال سے عمل پیدا ہوتا ہے ۔ پس شکر کا علم یہ ہے کہ بندہ جانے اور پہچانے کہ جو نعمت اِس کو ملی ہے خالق کی جانب سے ملی ہے ۔حال نام ہے دل کی اس خوشی کا جو نعمت پا کر حاصل ہو اور عمل یہ ہے کہ اس نعمت کو اس کام میں صرف کرئے جس میں اِس کے خالق کی مرضی ہو۔ ویسے بھی یہ عمل زبان اور جسم سے تعلق رکھتا ہے۔ پس جب تک یہ تمام احوال ظاہر نہیں ہوں گے شکر کی حقیقت معلوم نہیں ہوگی اور علم یہ ہے کہ تم اس بات کو پہچانو کہ جو نعمت تم کو ملی ہے وہ خدا وند تعالیٰ کی عطا کردہ ہے کسی غیر کا اِس میں دخل نہیں ہے جب تک تمھاری نظروسیلہ اور اسباب پر پڑتی رہے گی اور تم اس کو دیکھتے رہو گے تو یہ معرفت اور ایسا شکر نا قص ہے کیونکہ اگر کوئی بادشاہ تم کو تحفہ عطا فرمائے اور تم یہ سمجھوکہ مجھے یہ تحفہ وزیر کی مہربانی سے ملا ہے تو اس طرح بادشاہ کا شکر تم نے پورا ادا نہیں کیا بلکہ تم نے اس کا کچھ وزیر کو بھی دے دیا اوراس طرح تم پورے طور پر بادشاہ سے شادمان نہیں ہوئے اور اگر تم یہ سمجھو کہ تحفہ با دشاہ کے حکم سے ملا ہے اور حکم قلم اور کاغذکے وسیلے سے ہو اہے تو اس طرح سمجھنے سے اس شکر کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ تم جانتے ہو کہ قلم اور
کا غذ ایک دوسرے کے مسخرہیں اور بذات خود کچھ نہیں کرسکتے بلکہ یہاں تک کہ اگر تم یہ بھی سمجھ لو (کہ حکم جاری ہونے کے بعد )تحفہ خزانچی نے دیا ہے تو اس میں بھی قباحت نہیں کرسکتا کیونکہ تحفہ عطا کرنے میں خزینہ دار کا کچھ اختیا ر نہیں تھا ،وہ غیر کا محکوم ہے اس کو جب حکم دیا جائے گا وہ اس کی نا فرمانی نہیں کرسکتا ،اگر مالک کا اس کو حکم نہ ہو تو وہ کبھی تحفہ نہیں دے گا اس کا حال بھی بالکل قلم کی طرح ہے ۔اسی طرح اگر تم تمام روئے زمین کی نعمت (غلہ پھل اور دوسری غذاؤں )کا سبب بارش کو اور بارش کا سبب ابر کو سمجھو کشتی کا ساحل پر رک جانا بادِ مراد کا نتیجہ سمجھے گا تو اس طرح بھی پورا شکم (منعم کا )ادا نہیں ہوگا ۔ہاں جب تم غور کروگے کہ ابر اورباران ،ہو ااورسورج ،چاند اور ستارے وغیرہ سب کے سب خد اوند تعالی کے دست قدرت میں اس طرح مسخر ہیں جس طرح قلم کاتب کے ہاتھ میں ہے کہ قلم کاکچھ حکم نہیں ہے کاتب جس طرح چاہیے اس سے لکھوائے تو اس طرح سوچنا شکر کے نقصان کا موجب نہیں ہو سکتا اگر ایک نعمت کسی شخص کے واسطے سے تم کو ملی ہے او ،تم کو یوں سمجھناا چاہیے کہ اس دینے والے شخص نے تجھ کو جو کچھ دیا وہ اس وجہ سے دیا کہ حق تعالی نے اس پر ایک موکل کو نازل کیا تاکہ اس کو دینے پر مجبور کرے اگر وہ شخص ا کے خلا ف کرنا چاہتا تو خلاف کرنا ممکن نہ ہوتا اگر ممکن ہوتا تو وہ ایک چھدام بھی تم کو نہ دیتا ۔یہ ہم نے جس موکل کا ذکر کیا اس سے مراد وہ خواہش ہے جو اللہ تعالی نے اس دینے والے کے دل میں پیدا کی (کہ وہ تم کو کچھ دے )اور اس کو یہ بات سمجھائی کہ دونوں جہان کی خوبی اس میں ہے کہ یہ نعمت تو دوسرے شخص نے دی ۔ بس اس دینے والے نے تم کو جو کچھ دیاوہ یہ سمجھ کردیا کہ دین کی بھلائی اس میں ہے ۔ حضرت امام غزالیؒ مزید بیان فرماتے ہیں۔ اسطرح اس نے جوکچھ تم کو دیادہ حقیقت میں اپنی ذات کو دیا کیونکہ اس دینے کو اس نے اپنی ذات کا وسیلہ بنایا ۔حق تعالی نے تم کو مال ونعمت عطافرمائی کیونکہ اس پر ایک ایسا موکل بھیج دیا ۔ پس جب تم کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ تمام بنی آدم مالک حقیقی کے خزانچی کی طرح ہیں اور خزانچی درمیان میں اسباب اور واسطوں کے اعتبا ر سے قلم کی مانند ہیں ، ان میں سے کسی کا بھی کسی چیز پر اختیار نہیں بلکہ ہر اس صورت میں تم خدا ہی شکر ادا کروگے بلکہ اس حقیقت کا جان لینا بھی شکر گذاری ہے ۔حضرت موسی علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ یا الہی ،آدم (علیہ السلام )کو تونے اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور ان کو طرح طرح کی نعمتیں عطا فر ما ئیں تو انہوں نے تیرا شکر کس طرح ادا کیا ۔حق تعالی نے فرمایا کی آدم نے یہ سمجھا کہ وہ تمام نعمیتں صرف میری طرف سے ہیں اور اس طرح سمجھنا عین شکر ہے ۔معلوم ہوناچاہیے کہ ایمان کی معرفت کے بہت سے ابواب ہیں ان میں سے اول تقد یس ہے یعنی تم اس بات کو سمجھو کہ خدا وند عالم تمام مخلوقات کی صفت سے اور ہر اس بات سے جو اس سلسلہ میں وہم وخیال میں آئے پاک ہے ۔سبحان اللہ کے یہی معنی ہیں ۔دوسری توحید یہ ہے کہ تم یہ سمجھوکہ دونوں جہان میں جو کچھ ہے وہ اس کامال ہے اسی کی نعمت ہے الحمداللہ کے یہی معنی ہیں۔ یہ معرفت پہلی بیان کردہ دونوں باتوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ دونوں اسی کے تحت میں ہیں ۔اس بنا پر سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سبحان اللہ میں اس کی حسنات ہیں اورلا الہ الا اللہ میں بیس اور الحمد اللہ میں تیس نیکیاں ہیں ۔یہ حسنات وہ کلمات نہیں ہیں جو زبان سے کہے جائیں ؓ بلکہ ان سے مراد وہ معرفتیں ہیں جوان کلمات میں موجود ہیں اور ان سے نکلتی ہیں امام غزالیٰ نے آگے جاکر مزید اِس بات پر بحث کی ہے کہ شکر کے علم کے معنی یہی ہیں۔لیکن شکر کا حال وہ فرحت اور آسودگی ہے جو دل میں پیدا ہو ۔ اس معرفت اور آگاہی سے جب کوئی شخص کسی غیر سے نعمت حاصل کرے تواس کے تصور سے خوش ہوااس خوشی اور مسرت کے اسباب تین ہیں ایک یہ کہ اس وجہ سے خوش ہوکہ اس کو اس نعمت کی حا جت اور ضرورت تھی اور وہ اسکو ملی گئی تواس کی شادمانی کو شکر نہیں کہا جائے گا ۔ اس کواس مثال سے سمجھوکہ کسی بادشاہ سے سفر کا ارادہ کیا اس نے اپنے ایک غلام کو ایک گھوڑادیا ۔ اب اگر گھوڑا پا کر اس لئے خوش ہے کہ اس کواس کی حاجت تھی تواس طرح بادشاہ کا شکر کس طرح ادا ہوا کیونکہ یہ فرحت وشادمانی تواس کو اس وقت بھی حاصل ہوتی اگراس گھوڑے کو جنگل میں پا تا ،دوسرا سبب یا وجہ یہ ہے کہ وہ بادشا ہ کی اس عنائیت کو جو اس کے باب میں ہوئی ہے پہچان کر خو ش ہوکہ بادشا ہ اس کے حال پر کسی قدر مہربان ہے اور دوسری نعمتوں کی امید بھی دل میں پیداہوئی ،اگر وہ گھوڑا کسی صحرا یا جنگل میں پاتا تو اسے ایسی خوشی حاصل نہیں ہوتیْ کیونکہ یہ مسرت اس کے دل میں منعم کے انعام سے پیدا ہوئی ہے لیکن منعم نہیں ۔ یہ بات اگر چہ شکر میں داخل ہے لیکن نقصان سے خالی نہیں ہے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ گھوڑے پر سوار ہو کر بادشاہ کے حضور میں جارہا ہے تاکہ اس کا دیدارکرے اور سلطان کی ملا قات کے سوا اس کا کچھ اور مطلب نہیں ہے تو چونکہ یہ خوشی بادشاہ کے باعث پیدا ہوئی اس لئے یہاں شکر پورا ہوا ۔ اسی طرح اگر اللہ تعالی نے کسی کو نعمت عطا کی اور وہ اس نعمت سے خوش ہو نعمت دینے والے سے نہیں تو اس کو شکر نہیں کہا جائے گا اور اگر منعم کے سبب سے خوش ہوا کہ اس کو یہ نعمت اس کے دین کی خاطر جمعی کا باعث بنی تاکہ علم و عبادت میں مشغول ہو کر بارگا ہ الہی کا تقرب حا صل کرے تو اس شکر کا کما ل ہے اور اس کما ل شکر کی علامت یہ ہے کہ دنیاوی علا ئق سے اس کو جو چیز حاصل ہو وہ اس سے ملول ہو اور اس کو نعمت نہ سمجھے بلکہ اس کے زوال کو اللہ تعالی کا فضل سمجھے اور اس کا شکر ادا کرے ۔ایسی چیز جو اُسے دین کے راستے کو طے کرنے میں اس کی مدگار نہ ہواس سے خوش نہ ہو ۔شیخ شبلی قدس سرہ نے کہا ہے کہ کما ل شکریہ ہے کہ نعمت نہ دیکھے بلکہ نعمت عطا کرنے والے کو دیکھے ۔موجودہ ادوار میں انسان کی زندگی کو ایک ایسی ہوس نے آن گھیرا ہے جس کا سلسلہ ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا۔ اِسی ہوس نے وحشت کی شکل اختیار کرلی ہے کہ انسان سے سکون چھن گیا ہے۔ ظلم و ستم روا رکھ کر کمائی جانے والی دولت کو بندہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسا ہونے کے لیے انسان کو روحانیت کا گلا کاٹناپڑ رہا ہے جس کی وجہ سے جتنی عیش و عشرت اُسے میسر ہوتی ہے اُتنی ہی بے چینی اُسکا مقدر بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کے خلیفہ مجاز ہیں اُن کا یہ آرٹیکل حضرت امام غزالیٰ ؒ کے ارشادات سے ماخوذ ہے