Friday, 29 May 2015

بہار رقصاں جہاں شام و سحر تھی اب وہاں میرئے چارہ گر کی قبر تھی محفل آرائی کا ڈھنگ جن سے سیکھا تھا اب نہ وہ محفل تھی نہ ہی اُسکی کوئی خبر تھی سفر میں ہوں اُسی دیس کا مسافر ہوں سواری میری بھی اب اُسی نگر تھی تنہا کیا ہمدم نے بھری محفل کو اب ہجر کی رات ڈھلنے کو تھی اور فجر تھی حلقہ یاراں وحشتوں میں ہے گِھرا ہوا اُٹھ گئی وہ جنت جو میرئے گھر تھی اشرف عاصمی


No comments:

Post a Comment